دلچسپ و عجیب

میں اکیلی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی ۔ ڈاکٹر نے مجھے کہا جھک جاؤ ۔ جب میں جھکی تو ڈاکٹر نے

میر انام ہانیہ ہے میں طر میں سب سے بڑی کی میرے پھر میں ہی زیادہ افراد نہیں تھے امی ابو اور میرا ایک بھائی تھا میں بہت زیادہ پڑھی ہوئی تھی یوں کہہ لیں کہ اپنے خاندان میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی لڑکی میں ہی تھی میری شادی کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا

 

ایک دن ہوا کچھ یوں کہ اچانک میری طبیعت خراب ہو گئی میر اشوہرجو کہ ملک سے باہر تھا شادی کے فورا بعد ہی وہ ملک سے باہر شفٹ ہو گیا تھا اور اس نے مجھ سے وعدہ بھی یہی کیا تھا کہ وہ مجھے بھی ساتھ لے جاۓ گا لیکن شاید وہاں جاکر مجھے ساتھ لے جانا بھول چکا تھا اور میں یہاں پر اکیلی اپنے سسرال والوں کے رحم و کرم پر تھی ایک شوہر ہی بیوی کا صاحبہ ہو تا ہے جو حر گرمی سے بچاتا ہے میں اپنےشوہر کو بہت یاد کرتی اور اسے اپناوعدہ یاد دلاتی کے آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس نے مجھے ساتھ لے کر جائیں گے لیکن آپ تو وہاں جا کر مجھے لے جانا بھول ہی گئے ہیں اور آپ نے شاید شادی کا وعدہ بھی مجھ سے اس لیے کیا تھا کہ آپ اور آتے ہی میر اویزا اپلائی کر دیں گے

 

میرا شوہر مجھے یہی کہتا ہو ا جلد ہی میں تمہیں بولوں گالیکن شاید اسے نہیں بلوانا تھا اور وہ بول چکا تھا مجھے بلا نا میں بہت پر یشان رہنے لگی تھی اور دن بدن میری طبیعت بھی ڈھلتی جار ہی تھی میری طبیعت میں عجیب سا مزاج چیڑھ ہاٹ آنے لگ گئی تھی مجھے اپنے شوہر کی بہت یاد آتی تھی ایک دن اچانک میری طبیعت خراب ہو گئی اور مجبورا مجھے اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر ڈاکٹر کےپاس جانا پڑا ہمارے محلے میں ایک لڑکا کاشف رہتا تھا اس کا کلینک ہزار میں تھا کاشف کو میرے حالات کے بارے میں بہت پتا تھا کہ میرا شوہر ملک سے باہر ہے میں کسی کو بتاۓ بغیر

 

کاشف کے کلینک چلی گئی اور کاشف مجھے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا وہ مجھے بھی نہیں کہتا تھا میرے مجھے میرے نام سے ہی بلا تا تھا جب میں کاشف کے قلمی گی توکاشف کچھ مریضوں کو چیک کر رہا تھا اور مجھے دیکھتے ہی بولا خان یہ تم یہاں کیسے میں نے کہا ہا تھ کاشف میری کمر میں بہت شدید درد ہو رہی ہے کاشف نے باقی مریضوں کو چھوڑ کر میر ا چیک اپ کر نا شروع کر دیا اور کہا کہ تم بیڈ پر لیٹ جاؤ مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور میرا چیک آپ کر نا شروع ہو گیا میر ا چیک کرنے کے بعد اس نے مجھے کچھادویات دی اور کہا کہ شام کو کھانا کھانے کے بعد یہ دوائی لے لینا پھر تمہیں آرام آجاۓ گا پھر وہاں سے میں نکلنے ہی لگی تھی کہ کاشف نے مجھے آواز دی کہنے لگا سنو ہا نیا تمہارا شوہر کیسا ہے میں نے کہا کیا مطلب کیا ہے تو کہنے لگا مطلب تم سے پیار تو کر تا ہے نہ میں نے کہا تمہیں اس سے کیا مطلب کہ وہ مجھ سے پیار کر تا ہے یا نہیں تو کہنے لگاشادی سے پہلے تو اس نے کہا تھا کہ میں تمہیں بلوالے گالیکن ابھی تک اس نے تمہیں نہیں بلایا وہ کہنے لگے میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں

 

اور ہمیشہ رہوں گا میں نے اسے کہا کہ تمہیں اس بات سے کوئی سر و کار نہیں ہو نا چاہیے کہ میرا شوہر مجھے باہر بلو آ تا ہے یا نہیں تمہارا کام ہے مریضوں کو دیکھنانہ کے ان کے گھر کے بارے میںدلچسپی لینا یہ کہہ کر میں وہاں سے چل دی دن گزرتے گئے لیکن میرے شوہر نے مجھے نہیں بلوایا میری ہر روز اپنے شوہر سے اس بات پر بحث ہوتی میری کمر کا درد ابھی بھی ٹھیک نہیں ہو ا تھا پھر اچانک ایک ایک بار پھر مجھے کاشف کے کلینیک جانا پڑ گیا اور شاید کاشی اس موقع کی تلاش میں تھا اور وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا کہایک بار پھر میں اس کے کلینک آئی ہوں اور دیکھتے ہی بولا اب کیا ہوا تمہاری کمر کا درد کیسا ہے میں نے اس سے کہا میری کمر کا درد ٹھیک نہیں ہوا اس نے مجھے پھر بیڈ پر لٹا دیا اور میر ا چیک کرنے لگا لیکن اس نے اب کی بات بہت ہی عجیب حرکت کی وہ مجھے مچھونے لگا اور میرے اوپر ہاتھ رکھ دیا مجھے اس کا یہ مچھونا بہت اچھا محسوس ہوا پھروہ مجھے مچو تا ہی گیا

 

مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا میرا شوہر دو میرے پاس نہیں تھالیکن اس کا یو چھونا مجھے بہت اچھالگا اور میر ادل چاہ رہا تھا کہ مجھے ایسے ہی پچ کر تار ہے وہ کہنے لگا میں وہ تمہارے سارے خواب پورے کر سکتا ہوں جو تمہارا شوہر نہیں کر سکا اور پھر میں سوچنے لگی میری شوہر نے بھی مجھے دیا ہی کیا ہے وہ تو پر دیس جاکر بیٹھ گیا اور میں یہاں پر رحم و کرم پر چھوڑ گیا میں نے اس سے کہا مجھے بھی تمہارا ساتھ منظور ہے اور مجھے اس سے اس نے وہ سب کیا جو میرا شوہر کر چکا تھا اور سب کچھ کرنے کے بعد کاشف نے مجھے چھوڑ دیا عشق کے کلینک سے اپنے گھر واپس آگئی آج میں زندگی میں بہت خوش تھی اتنی خوش میں بھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ کاشف نےمیری ہر خواہش پوری کر دی تھی اور میں بھی کا شف کی ہو چکی کاشف میرا ہو چکا تھا ہم دونوں ایک دوسرے کے دیوانے ہوتے چلے گئے تھے

 

کیوں ہماری محبت ہی خوبصورت جذبہ کے تحت پروان چڑھی اور چڑھتی چلی گئی پھر میں نہیں کاشف کو اپنا ہم سفر قبول کر لیا اور ہم ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button