دلچسپ و عجیب

کمرے میں اکیلے جاو اس عورت کے ساتھ اور باہر اس وقت آنا جب غسل جنابت کر لو۔

عاصم بن زمرا بیان کرتے ہیں کہ ایک جوان لڑکا مدینے میں کھڑا رو رہا تھا اور فریاد کر رہا تھا کہ اے خدا تو ہی انصاف کرنے والا ہے میرے اور میری ماں کے درمیان انصاف فرما ۔ اتنے میں ادھر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ہوا تو آپ نے اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میری ماں نے مجھے نو مہینے پیٹ میں رکھ کر پالا اور

 

دودھ پلا کر بڑا کیا مگر اب وہ مجھے اپنا بیٹا ماننے سے انکار کرتی ہے اور مجھے گھر سے نکال دیا ہے ۔

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہنے اس کی ماں کو بلوایا ۔ لڑکے کی ماں اپنے چار بھائیوں اور قبیلے کے لوگوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوئی ۔ خلیفہ وقت نے اس سے پوچھا کہ اس لڑکے کے بارے میں کیا کہتی ہے ، عورت نے کہا کہ یہ لڑکا صاف جھوٹ بولتا ہے میں نہیں جانتی کہ یہ کون ہے اور کس قبیلے سے ہے اور کیسے مجھے ماں سمجھتا ہے جبکہ میں ابھی تک

 

غیر شادی شدہ ہوں ۔ آپ نے اس کی گواہی پوچھی تو اس کے چار بھائیوں اور چالیس قبیلہ والوں نے اس کی گواہی دی اور کہا یہ لڑ کا بلاوجہ اس عورت کو ذلیل کرنا چاہتا ہے ۔ لڑکے سے جب ثبوت مانگا تو اس نے کہا کہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں کہ میں اس کا لڑکا ہوں اور یہ میری ماں ہے ، میں اس کے پیٹ سے پیدا ہوا ہوں اس کے زیر سایہ پرورش پائی ہے ۔

 

چونکہ عورت کی طرف سے چالیس گواہ پیش ہوئے تھے اور لڑکا کوئی گواہ پیش نہ کر سکا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس لڑکے کو جھوٹا سمجھ کر کوڑے لگانے کا حکم دیا ۔ جب اس لڑکے کو کوڑے لگانے کے لیے لے جارہے تھےتو اچانک اس لڑکے کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی جو اس جگہ سے تشریف لے جارہے تھے ۔ اس لڑکے نے زور زور سے

 

آواز لگائی کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی میں بہت مظلوم ہوں میری فریاد رسی کیجئے اور مدد کریں ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے چلو جب وہ لڑ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لایا گیا تو انھوں نے پوچھا کہ اسے واپس کیوں لاۓ ہو لوگوں نے کہاکہ حضرت علی علیہ السلام کے حکم سے

 

واپس لائے ہیں اسی وقت – حضرت علی علیہ السلام بھی تشریف لائے اور فرمایا کہ اس لڑکے کی ماں کو کو میرے سامنے لاؤ جب وہ سامنے آئی تو اس سے پہلے کی طرح سوال کیے گئے اور اس نے گواہ بھی پیش کئے جنھوں نے اس عورت کے بارے میں گواہی دی تھی ۔ لڑکے سے پوچھا تو اس نے وہی کہا جو اس نے پہلے کہا تھا ۔ اب حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ کیا مجھے اجازت ہے کہمیں ان دونوں کا فیصلہ کر دوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے

 

فرمایا کہ میں کیونکر روک سکتا ہوں جبکہ میں نے حضور صلی اللہ ء وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اے لوگو تم میں سے علی میرا بھائی ہے سب سے زیادہ علم جاننے والا ہے اور انصاف کرنے والا ہے۔اس ب کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے کہا کہ میں آج تمہارے درمیان ایسا فیصلہ کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے اور وہ راضی ہوں گے ۔ پھر آپ نے اس علىعورت سے کہا کہ کیا تیرا کوئی ولی ہے اس پر چاروں بھائی آگے بڑھے آپ نے فرمایا کیا تم میرے فیصلے

 

پر راضی ہو جو میں تمہاری بہن کے لیے کروں گا ، وہ کہنے لگے کہ ہم راضی ہیں اس طرح اس لڑکے سے معلوم کیا ۔ سب کی رضامندی لے کر آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور حاضرین کو بھی گوا کرتا ہوں کہ میں نے اس عورت کو بعوض چار سو درہم کے اس لڑکے کے نکاح میں دیا اور چار سو در ہم اس لڑکے کو دیے کہ اس عورت کے دامنمیں ڈال دے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے مکان پر لے جاۓ اور اس سے پہلے واپس نہ آئے جب تک وہ غسل جنابت سے فارغ نہ م ہو جاۓ ۔

 

جب یہ فیصلہ اس عورت نے سنا تو اس کی چیخ نکل گئی اور کہا کہ اے برادر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا غضب ہو گیا ہے کہ میں بالکل ہی جہنم کا ایندھن بن جاؤں گی میں اقرار کرتی ہوں کہ یہ میرا لڑکا ہے اور میں اس کی ماں ہوں ایک ماں کیو نکر اپنے بیٹے کی بیوی ہو سکتی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے کیوںنہیں اقرار کرتی تھی کہنے لگی کہ میری کوئی خطا نہیں یہ سب قصور د میرے بھائیوں کا ہے ،

 

کیونکہ انہوں نے میری شادی ایک مالدار سے کی جس کا انتقال ہو گیا جس سے یہ لڑکا پیدا ہوا ۔ جب یہ لڑکا بڑا ہوا تو میرے بھائیوں نے میرے لڑکے کو الگ کر دیا اور مجھے خوفزدہ کر کہ کہلوایا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے ، مگر میرادل میرے بچے کے لیے تڑپتا رہتا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر میرا بچہ کہتے ہوۓ چل پڑی ۔ حوالہ کتاب حضرت علی کے فیصلے ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button