ایک لڑکی کی پیدائش ایک ایسے گھر میں ہوئی تھی جن کی کمائی کا ذریعہ بے حیائی

فاطمہ کی پیدائش ایک ایسے گھر میں ہوئی تھی جن کی کمائی کا ذریعہ بے حیائی تھا ۔ بچپن سے ہی اس نے جو کچھ دیکھا اس نے اسے وقت سے پہلے ہی جوان کر دیا تھا لیکن اس کے دل میں ایک کراہت ہوتی تھی ۔ اس نے بے حیا خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہوا تھا ۔ اس کے گھر والوں نے اسے اچھا پڑھایا کیونکہان کا ایک ہی مقصد تھا کہ بیٹی اچھی سوسائٹی کے لوگوں سے میل جول بڑھا کر گھر میں بے حیائی کی کمائی لاۓ گی ۔
لیکن جب وہ جوان ہوئی تو اس نے پردہ کرنا شروع کر دیاد اس کی ماں کے لیے پردہ بم سے کم نہیں تھا ۔ شروع ا شروع میں اسے بڑی پریشانی ہوئی ، وہ لڑکی بڑی عبادت گزار تھی لیکن اس کے گھر میں اذان کی آواز نہیں آتی تھیاس لیے وہ میت پر جا کر اذان سنتی تھی ۔ اذان سن کر اسے او بہت سکون ملتا تھا اور وہ سوچتی تھی کہ کاش میں اس گھر میں پیدانہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ۔ کالج میں بھی اس کے پاس کوئی کم ہی بیٹھا تھا کیونکہ اسے سب براہی سمجھے تھے ۔ وہ بہت روتی تھی اور سوچتی تھی کہ اس نے تو آج تک کسی کو اپنے پاس تک نہیں آنے دیالیکن کلاس فیلو کیسی کیسی ،باتیں کرتے ہیں ۔ وہ ہر وقت یہی سوچتی کہ اگر اس کی پیدائش ایک برے گھر میں ہوئی ہے
تو اس میں اس کا کیا قصور ہے ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے نوکری کرنے کا فیصلہ کیا لیکن وہ جہاں بھی نوکری کے لیے جاتی تو ا اسے ہر کوئی بری نظر سے ہی دیکھتا اسے لوگوں کی نظروں میں ہر وقت گندگی نظر آتی تھی ۔ اب بس اس کی ایک ہیخواہش تھی کہ جلدی سے اس کی شادی ہو جاۓ اور وہ اس عذاب سے نکل جاۓ ۔ لوگ جب اس کے بارے میں سنتے تو پھر دوبارہ بات نہ کرتے ۔ ایک دن وہ کمرے میں بیٹھی تھی کہ اچانک اس کی ماں کی آواز آئی جو کسی سے کہہ رہی تھی کہ فاطمہ سے کوئی ملنے آ رہا ہے ۔ بہت بڑی ر قم ایڈوانس دے کر گیا ہے ۔ فاطمہ کے لئے یہ بات کسی حادثے سے کم نہیں تھی ۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا اے میرے مالک آج تک تیری اس بندی نے اپنے جسم کی حفاظت اس طرح کی ہے جس طرح تو نے کہا ہے ۔ ں کانٹوں پر زندگی گزاری ہے لیکن اپنے دامن کو پاک ہی رکھا ہے اے اللہ تو ہی مجھے بچانے والا ہے ابھی وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی ماں ہنستی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اسکے ساتھ ایک شخص بھی اندر آیا ۔ فاطمہ کا چہرہ ڈوپٹے میں چھپا ہوا تھا ۔
پھر ماں نے جیسے ہی اس آدمی کو اپنی بیٹی کا چہرہ دکھانے کے لئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو فاطمہ کا چہرہ ایک طرف ڈھلک گیا ۔ اللہ نے اس کو باحفاظت اپنے پاس بلا لیا تھا جہاں اس کی عزت بھی محفوظ تھی اور کوئی ہوس بھری نظروں سے دیکھنے والا بھی نہیں تھا ۔