ایک میراثی بوڑھی عورتوں کے کانوں سے سونے کی بالیاں چھین کر بھاگ جاتا اور شہر میں 25 عورتوں کے کان زخمی ہو چکے تھے مگر

غلام شبیر پیشے کے لحاظ سے ایک مراثی تھا جو شادی بیاہ کے موقع پر ڈھول بجاتا تھا۔ پچھلے دو سال سے میں نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے چہرے پر ایک کپڑا ڈال کے پھرتا تھا۔ گرمی ہو یا سرم رمی جو پاچی سرم اس کے چہرے سے کپڑا نہیں ہٹتا تھا۔ مجھے اس بات کا بہت تھا کہ آخر اس کے چہرے پر ایسا کیا ہے جو وہ اپنے چہرے کو یوں ڈھانپ کر رکھتا ہے۔
ایک دن وہ کسی شادی کی تقریب میں ڈھول بجانے جا رہا تھا تو چپکے سے میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ اور قریب جا کر اس کے چہرے سے چادر ہٹا تو میں حیران ہو گیا ۔ غلام شبیر کے چہرے پر تو کوئی ایسی بات نہیں تھی مگر اس کے کان نہیں تھے۔ وہ دونوں کانوں سے محروم تھا۔ چاچا شبیر مجھ پر غصہ ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے کیا غضب کیا۔ میں ان سے کہنے لگا کہ چاچا اب مجھے حقیقت کا پتا چل چکا ہے۔ آپ بتائیں کہ ایسا کیا ہوا جو آپ کانوں سے محروم ہو گئے۔ وہ کہنے لگا بیٹا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ میں پیدائشی طور پر کانوں سے محروم نہیں تھا۔ میرا باپ بھی شادی بیاہ پر ڈھول بجاتا تھا اور اسے دیکھتے ہوئے میں بھی ایسا ہی کرنے لگا۔ شادی بیاہ کے موقع پر عورتیں زیورات سے لدی ہوتی تھیں ۔
میرے دماغ میں ایک شیطانی ترکیب آئی۔ میں ایسی عورتوں کو ٹارگیٹ کرتا تھا جو جسمانی طور پر کمزور اور بوڑھی ہوتی تھیں ۔ ان کے کانوں سے بالیاں چھین کر بھاگ جاتا۔ ان کے کان لہو لہان ہو جاتے تھے۔ اور ان کی چیخیں بلند ہوتی مگر میں بھاگنے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ میں ان سونے کی بالیوں کو شہر میں جا کر بیچ دیتا اور کافی پیسہ کمانے لگا۔ میں نے ڈھول بجانے کا پیشہ چھوڑ دیا اور اسی پیشے کو اپنا لیا۔ میں نے شہر میں ایک نیا گھر خریدا اور بیوی کو گاؤں سے شہر لے گیا۔ بیوی مجھ سے پوچھتی تھی کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا تو میں جھوٹ بولتا کہ شہر میں میرا ایک کاروبار ہے۔ میری آخری واردات نے میرے دن بدل دیے۔ ایک ویران گلی سے بوڑھی عورت گزر رہی تھی جبکہ اس کے کانوں پر پرانے زمانے کی بڑی بڑی بالیاں تھیں ۔ میں نے تیزی سے ان بالیوں میں ہاتھ ڈالا اور بھاگنے لگا۔
بوڑھی عورت زمین پر گر پڑی۔ میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے دیکھا تو اس کے کانوں سے خون بہہ رہا تھا۔ میرا دل پگھل گیا اور واپس اس کی مدد کے لیے بھاگا مگر لوگوں کا ہجوم جمع ہو چکا تھا اور مجھے بھاگنا پڑا۔ میں بوجھل دل کے ساتھ بھاگ رہا تھا۔ وہ بالیاں ایک بوڑھی فقیرنی کی جھولی میں ڈالی اور گھر چلا گیا۔ گھر پہنچا تو پتا چلا کہ ہمسائی میری بیوی کو ہسپتال لے گئی ہے۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کی بیوی کا آپریشن ہو گا۔ ایک ننھی سی پری ہمارے گھر آ چکی تھی مگر اسے ایک پراسرار کی بیماری تھی ۔ بچی کے کانوں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ بچی کے کان بھی زخمی تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ ایک پراسرار سی بیماری ہے جس کا اعلاج ان کے پاس بلکل نہیں ہے۔ معصوم بچی ایک مہینہ تک یہ اذیت برداشت کرتی رہی اور پھر وفات پاگئی۔ مجھے اپنے کیے پر ندامت ہوئی۔ میں 25 عورتوں کا مجرم تھا جن کو میں نے تکلیف دی تھی ۔ اب میں اس تکلیف کو خود محسوس کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ایک موٹی سے سوئی کو آگ پر گرم کیا اور اپنے کانوں سے سوئی گزار دی۔ اس کے بعد کانوں سے پینل کی تار گزاری۔
اور بڑی شدت کے ساتھ ان تاروں کو کھینچا ۔ میرے کان لہو لہان ہو چکے تھے اور پک کر گلنے لگے۔ مجبوراً مجھے اپنے کان کٹوانے پڑے۔ میں نے دوبارہ ڈھول اٹھایا اور شادی بیاہ پر ڈھول بجانے لگا مگر میرے دل میں ایک بوجھ ہے۔ اپنے اس گناہوں کا بوجھ جو دو سال پہلے پچیس عورتوں کو زخمی کیا۔ اور شاید اسی بوجھ کو لیے میں دنیا سے رخصت ہو جاوں