دلچسپ و عجیب

جاوید صبح ماں کے ہاتھ کا ناشتہ کر کے آفس کے لیے نکل پڑا اور جب بس میں سفر کر رہا تھا تو

جلدی کیجئے امی! پہلے ہی مجھے کافی دیر ہو چکی ہے ۔اب آپ پوری چائے کی پیالی پلا کر ہی دم لیں گی۔ کبھی کبھار تو ہلکا ناشتہ کرنے کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔ جاوید نے اپنی ماں کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ امی ہنس پڑیں اور بولیں: بیٹا! کیا دفتر میں اپنے افسروں کے سامنے بھی اس طرح بولتے ہو؟ وہاں تو، سر، اور جی نہیں سر، کے سوا تمہارے منہ سے کچھ نہیں نکلتا ہو گا۔ “ ”می! وہ دفتر ہے، یہ گھر ہے۔ وہاں آفیسر ہیں اور آپ میری پیاری سی امی جان ہیں۔ کافی فرق ہے۔ یہ کہہ کر جاوید نے اپنا لنچ بکس لیا اور سلام کر

 

کے گھر سے باہر نکل آید آج جمعرات کا دن تھا۔ سڑک پر

 

کافی گہما گہمی تھی۔ جاوید جیسے ہی بس اسٹاپ پر پہنچا تو سواریوں سے بھری ہوئی ایک بس اسی وقت پہنچ گئی۔ کافی دھکم پیل کے بعد جاوید بس میں سوار ہو گیا۔ سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے وہ بس کا ڈنڈا پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ چند لمحوں بعد کنڈکٹر نے ٹکٹ کے پیسے مانگے تو جاوید نے پرس نکالا اور پیسے دے کر ٹکٹ لے لیا پھر بس جاوید کے اسٹاپ پر رُکی تو جاوید لوگوں کو آگے پیچھے کرتا ہوا نیچے اتر گیا۔ نیچے اترتے ہی اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کے چہرے کا

 

رنگ اُڑ گیا کوئی ظالم بڑی صفائی سے اس کی جیب صاف کر چکا تھا۔ اب اس کو یاد آیا کہ جب اس نے ٹکٹ دینے کے لئے پرس نکالا تھا تو اس کے قریب ہی کھڑے ایک نوجوان کی نظریں اس کے پرس پر تھیں۔ یقینا وہ ایک جیب کترا تھا، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ جاوید فٹ پاتھ پر کھڑا اپنے نقصان کا اندازہ کرنے لگا۔ تقریباً

 

چھے سو روپے ،شناختی کارڈ اور اُف، وہ ظالم پرس کے ساتھ چیک بھی لے گیا چیک کا خیال آتے ہی اس کی نگاہوں کے سامنے رانی کی معصوم صورت ابھر آئی اور اس کی پریشانی

 

بڑھ گئی۔ جاوید ایک درد مند نوجوان تھا۔ اس نے محلے کے چند اپنے جیسے نوجوانوں کے ساتھ مل کر ایک فلاحی تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی ، جس کا مقصد غریب لوگوں کی مدد کرنا تھا۔ ان نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے کئی غریب خاندان اپنے پیروں کھڑے ہو چکے تھے۔ ان غریبوں کی مدد کرنے کے لئے تنظیم کے نوجوان نیک دل اور مال دار حضرات سے چندہ وصول کرتے اور پھر اس چندے سے غریب لڑکیوں کے لئے جہیز وغیرہ خریدتے۔ رانی کے والدین بھی غریب تھے ۔ جب رانی کا

 

رشتہ طے ہوا تو ان نوجوانوں کو پتا چل گیا۔ انھوں نے فوراً ہی اس غریب بہن کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا۔ اس دن جاوید نے اسی سلسلے میں ایک سیٹھ صاحب سے چندہ لیا تھا، مگر سیٹھ صاحب نے نقد رقم کے بجائے چیک دیا تھا۔ یہ اتیک و سی و یا مار سپرے کا تھا جاوید کو ربانی چیک دس ہزار روپے کا تھا۔ آج جاوید کو چیک رانی کے والدین کو پہنچانا تھا، مگر پریس کے ساتھ ، وہ جیب کترا چیک بھی لے اڑر جاوید کو اپنی رقم سے کہیں زیادہ اس چیک کا غم تھا جو اس جیب کترے کے لئے صرف کاغذ کا ٹکڑا تھا، مگر اس کے نہ ملنے سے رانی کی شادی رک سکتی تھی۔ اسی پریشانی میں دس روز گزر کئے ۔ اس دوران جاوید نے اخبار میں اشتہار

 

بھی دیا کہ شاید چیک مل جائے، مگر کچھ نہ ہوا رانی کی شادی

 

میں پانچ دن

 

رہ کئے تھے ۔ لڑکے والوں کا فرنیچر کا مطالبہ جوں کا توں رہا۔ رانی کے والدین کے ساتھ جاوید کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا گی۔ ایک روز جاوید اپنے دفتر میں بیٹھا اسی سوچ میں گم تھا کہ چپراسی نے ایک خط اسے لا کر دیا حط پر جاوید کا نام تھا ۔ جاوید نے لفافہ کھولا تو اُچھل پڑا اس میں سے وہی چیک نکلا جس کے لئے جاوید پریشان تھا۔ لفافے میں چیک کے علاوہ ایک چھوٹا پرچہ بھی پڑا تھا۔ جاوید نے دھڑکتے دل کے ساتھ پرچہ کھولا اور پڑھنے لگا لکھا تھا: محترم جاوید انور

 

صاحب! السلام علیکم! میں آپ کا مجرم آپ سے مخاطب ہوں ۔ آپ کا پرس میں نے ہی لیا تھا۔ مانا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ، مگر میں بہت مجبور تھا مجھے پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ دراصل میری بہن ”رانی کی شادی ایک اچھے خاندان میں طے ہو گئی ہے ، مگر لڑکے والوں کے مطالبات اتنے زیادہ ہیں کہ مجبوراً مجھے یہ قدم اُٹھانا پڑا اُمید ہے کہ آپ اپنے ایک یہ ضرورت مند بھائی کو معاف کر دیں گے۔ اور ہاں! آپ کے پرس میں کافی بڑی رقم کا ایک چیک بھی تھا جو میرے بے کسی کام کا نہ تھا، کیونکہ وہ کراس چیک تھا اور صرف اسی کے اکاؤنٹ میں جمع ہو سکتا تھا جس کا اس پر نام لکھا ہو ۔

 

لہذا وہ چیک آپ کو واپس بھیجوا رہا ہوں۔ ایک بار پھر آپ سے معافی چاہتا ہوں۔“ ایک بہن کا مجبور بھائی۔ یہ خط پڑھ کر جاوید سوچنے لگا کہ میں نے خود رانی کے لئے یہ چیک حاصل کیا تھا۔ اگر رانی کا بھائی اللہ پر بھروسا کرتا اور کچھ دن اور صبر کرتا تو یہ چیک بھی رانی کے کام آجاتا، مگر اس نے غلط راستہ اختیار کیا ۔خود بھی پریشان ہوا اور مجھے بھی پریشان کیا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button