کہانیاں

وہ اس وقت گھر کی کچی حویلی میں جھاڑو لگا رہی تھی جب اسکا ہمسایہ چچا رحمت اسکے

کیا ہوا ابا کو یہ چوٹیں کیسے آئیں ؟؟؟

وہ اسوقت گھر کی کچی حویلی میں جھاڑو لگا رہی تھی دیے گھر کے اندر داخل ہوا ، لے پتر ، سنبھال اپنے باپ

جب اسکا ہمسایہ چا رحمت اسکے باپ کو کاندھے کا سہارا

کو اور سمجھا دے اسے کہ چھوڑ دے یہ چوری چکاری،

کسی دن اپنی جان کو بڑے عذاب میں ڈالے گا یہ اپنی اس عادت کی وجہ سے، آج پھر بڑی مشکلوں سے چھڑوا کے لایا ہوں اسے تھانے سے، گڈی نے چچا رحمت کی بات پر باپ کیطرف شکائتی نظروں سے دیکھا تو فضل دین نے بیٹی سے نظریں چراتے ہوئے سر جھکا لیا۔ کیوں کرتا ہے ابا تو یہ

چوری چکاری، چھوڑ کیوں نہیں دیتا یہ سب؟ کتنی بار سمجھایا ہے میں نے تجھے مگر تو میری ایک نہیں سنتا،،،،، گڈی کرنے لگی، ” یہ سب تیرے لیے ہی تو کرتا ہوں ، تونے ہی تو کہا تھا کہ ایک عرصے سے تو نے نیا جوڑا نہیں پہنا

اپنے باپ کے زخموں پر مرہم لگاتے وقت رو رو کر شکایت

فضل دین نے بیٹی کی آنسووں سے دھندلائی ہوئی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کھسیانی آواز میں کہا، ایسا نیا جوڑا نہیں مانگا تھا میں نے ابا جو تو چوری کر کے لائے، تیری حق حلال اور محنت کی کمائی سے چاہیے مجھے نیا جوڑا ، نہیں تو

فضل دین نے بیٹی کی آنسووں سے دھندلائی ہوئی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کھسیانی آواز میں کہا، ایسا نیا جوڑا نہیں مانگا تھا میں نے ابا جو تو چوری کر کے لائے، تیری حق حلال اور محنت کی کمائی سے چاہیے مجھے نیا جوڑا ، نہیں تو

رہنے دے ، مت کر تو ایسے ناجائز کام میرے

جوڑے کے لئے ماں باپ تو اپنی اولاد کی خوشی کے لیے نجانے کتنے جتن کرتے ہیں ایک تو ہے جو میری خاطر محنت مزدوری بھی نہیں کر سکتا وہ باپ کے ہاتھوں میں گرم دودھ کا پیالہ پکڑا کر ناراضگی سے منہ پھیرتے ہوئے بولی، اچھا سن تو سہی، ناراض نہ ہو، آئندہ میں ہرگز

چوری نہیں کروں گا، جیسا تو کہے گی ویسا ہی کروں گا، اپنی محنت کی کمائی سے اپنی گڈی کے لیے نیا جوڑا بھی لاؤس گا، فضل دین اپنی ناراض بیٹی کو منانے لگا ۔ “بس رہنے دے ابا، تو اور تیرے وعدے ۔۔۔ “گڈی نے باپ کی بات پر اعتبار نا کرتے ہوئے اپنی نارا ننگی بر قرار رکھی، اچھا

ٹھیک ہے پھر ، جب تک تو مان نہیں جاتی میں بھی یہ دودھ نہیں پیوں گا، فضل دین نے بچوں کیطرح روٹھتے ہوئے دودھ کا پیالہ واپس رکھ دیا، یہ دیکھ کر گڈی نے پلٹ کر باپ کا ہاتھ تھاما اور اپنے سر پر رکھتے ہوئے بولی “کھا

میری قسم ابا! کہ آئندہ کبھی چوری نہیں کرے گا؟

تیری قسم ۔۔۔ فضل دین نے بیٹی کا ماتھا چومتے ہوئے عہد کیا، گڈی کی ماں کا دنیا سے گزر جانے کے بعد واحد سہارا اسکا باپ تھا، جسے وقت اور حالات نے معمولی چور بنا دیا تھا،،،13 سال کی معصوم گڈی فضل دین کے بھی جینے کا واحد سہارا تھی، فضل دین جو عموماً شام تک

وہ گھر لوٹ آیا کرتا تھا ، آج خاصی دیر ہو چکی تھی اور اب تک گھر نہیں آیا تھا،،ساری رات باپ کا بے چینی سے انتظار کرنے کے بعد گڈی کو مدد مانگنے کی غرض سے اپنے ہمسائے چا رحمت کا خیال آیا، ابھی وہ اسکے گھر کیطرف جانے ہی والی تھی کہ اسے اپنے گھر کے باہر

دروازے پر کچھ لوگوں کی آوازیں سنائی دیں ، ” دروازہ کھول گڈی پتر ” چچا رحمت کی اس آواز کیساتھ ہی دروازے پر کھڑے باقی لوگوں کی آوازیں بھی قدرے بلند ہونے لگیں، وہ زوروں سے دھڑکتے دل کیساتھ دوڑتی ہوئی دروازے کیطرف لیکی، دروازے کے باہر کا منظر دیکھتے ہی

اسکے پاؤں تلے سے جیسے زمین کھسک گئی، محلے کے چند

افراد چار پائی پر رکھا اسکے باپ کا لہولہان جسم کاندھوں پر

اٹھائے کھڑے تھے۔ “کیا ہوا میرے ابا کو” ؟۔۔۔ اسنے

حیرت اور غمزدہ نگاہوں سے چچا رحمت کی طرف دیکھ کر

سوال کیا۔ “کل رات پولیس نے کچھ مقامی ڈاکوؤں کا

‏ar کیاencount ہے، سنا ہے تیرا باپ فضل دین بھی انہی ڈاکوؤں کا ساتھی تھا، شدتِ غم اور صدمے کے باعث بیہوش ہونے سے پہلے یہ وہ آخری الفاظ تھے جو گڈی کے کانوں میں پڑے۔ گڈی پتر حوصلہ رکھ اور اپنے ابا کا آخری دیدار کر لے۔ محلے کے کچھ لوگ اسکے گھر کی کچی

حویلی میں اسکے باپ کی میت کے ساتھ بیٹھے گڈی کے ہوش میں انے کا انتظار کر رہے تھے، مگر گڈی ہوش میں انے کے بعد بھی سکتے میں تھی جو اپنے باپ کی رخصت ہوتی میت کو خالی خالی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیر تک دیکھتی رہی، معلوم ہوتا تھا جیسے آکی

رگوں میں خون اور آنکھوں میں آنسو تھم سے گئے ہوں۔ معصوم گڈی اپنی ماں کے بعد آج اپنا واحد آسرا ،،،،، اپنے ابا کو بھی ہمیشہ کے لیے کھو چکی تھی، گڈی پر گزری اس قیامت کو آج تیسرا روز تھا، اپنے بیھٹے پرانے کپڑوں کے چند ایک جوڑوں کو تہہ لگا کر صندوق میں رکھتے

وقت اسے اپنے ابا کا کیا وعدہ یاد آ گیا، “میں اپنی گڈی کے

لیے حق حلال کی کمائی سے نیا جوڑا لاؤں گا” یہ خیال آتے ہی اسکے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ، نہیں چاہیے مجھے نیا جوڑا، میں یہی پرانے کپڑے پہن لوں گی،، بس تو

واپس آجا ابا ! اپنی گڈی کے پاس واپس آجا ! وہ صندوق

میں رکھے پرانے کپڑوں کو دیکھتی اور بلک بلک کر روئے جا رہی تھی ، اسے ان پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنے باپ کا لہولہان چہرہ دکھائی دے رہا تھا، نہیں ، میرا ابا ڈاکوؤں کا ساتھی نہیں ہو سکتا، وہ چھوٹی موٹی چوری تو کر سکتا ہے مگر اتنا سنگین مجرم نہیں ہو سکتا ،،، ابا نے تو میرے

سر کی قسم کھائی تھی کے آئندہ کوئی غلط کام نہیں کرے گا، وہ بھلا کیسے اپنی گڈی کی جھوٹی قسم کھا سکتا ہے؟؟؟ معصوم گڈی کے دل و دماغ میں ابھی یہی سوالا ابھر رہے تھے کہ باہر دروازہ پر کسی نے آواز لگائی ، فضل دین کا گھر یہی ہے ؟؟؟ اپنے پیارے ابا کا نام

سنتے ہی وہ بیقراری سے دروازے کیطرف

دوڑی،،،،،، دروازہ کھول کر اسنے دیکھا کہ ایک شخص ہاتھ میں تھیلا لئے اسکے ابا کا پوچھ رہا ہے، “جی یہی گھر ہے مگر ابا تو ۔ ” اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی، دروازہ پر کھڑا شخص وہ تھیلا گڈی کیطرف بڑھاتے ہوئے بولا،، یہ فضل

دین کی امانت میرے پاس رہ گئی تھی، میں چونکہ اسے بہت زیادہ جانتا نہیں اس لیے بڑی مشکل سے اسکا پتہ معلوم کر کے یہاں تک پہنچا، مگر آپ کون ہیں اور یہ تھیلا اپکے پاس کہاں سے آیا؟؟ گڈی نے اس شخص کیطرف حیرت سے دیکھتے ہوئے سوال کیا، وہ شخص گڈی

سے مخاطب ہوا ! “میں اور فضل دین تین روز پہلے ایک ساتھ اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کر رہے تھے ،،، اپنے دن بھر کی سخت محنت کے بعد شام کو 500 روپے کمائے، اور ہم دونوں ایک ساتھ وہاں سے اپنے اپنے گھروں کے لیے نکلے تو راستے میں قریبی بازار سے اپنے کچھ خریدنے کی

غرض سے مجھے ایک دوکان کے باہر رکنے کو کہا، کچھ ہی دیر بعد وہ ہاتھ میں یہی تھیلا پکڑے خوشی خوشی دوکان سے باہر نکل رہا تھا کہ پولیس والوں نے اسے آدبوچا اور ھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں ڈال کر لے گئے، اس سب

میں اسکے ہاتھوں سے یہ تھیلا چھوٹ کر وہیں سڑک پر گر

گیا۔ جسے میں نے اسکے گھر تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا ‘ گڈی نے تھیلا کھولا جس میں ہلکے گلابی رنگ کا خوبصورت نیا جوڑا دیکھ کر آکی آنکھوں میں جیسے آنسوؤں کا سمندر اتر آیا تھا،،، وہ جوڑے کو ہاتھوں میں تھامے کبھی اسے چومتی تو کبھی سینے سے لگاتی ، وہیں

چوکھٹ سے ٹیک لگائے جانے کتنی دیر تک بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر

روتی رہی، اپنے باپ کی محنت کی کمائی سے خریدے گئے اس

جوڑے کے علاوہ جو آج اسے نصیب ہوا وہ یہ یقین تھا کہ اسکا

باپ ڈا کو نہیں تھا،، اسنے اپنی گڈی کی جھوٹی قسم نہیں کھائی

تھی، البتہ گڈی کو یہ ” نیا جوڑا ” بہت بھاری قیمت چکا کر ملا تھا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button