خوبصورت بھکارن سڑک کے کنارے کھڑا ایک دوست کا انتظار کر رہا تھااتنے میں

سڑک کے کنارے کھڑا ایک دوست کا انتظار
کر رہا تھا، اتنے میں ایک لڑکی بھیک مانگنے کے لیے میرے سامنے رُکی، گلے میں سیاہ ڈوپٹہ ، آنکھیں نیند کی کمی سے سرخ، گہری سانولی رنگت، کالے ہونٹ اور میلے کچیلے کپڑے پہنے اپنے ہاتھ باندھ کر اس نے رٹا سنانا شروع کیا، دولہے غریب کی مدد کر دو، میں نے عادتاً جیب میں ہاتھ ڈال کر کہا پیسے تو نہیں ہیں
بہت بھو کی لگی ہے، کچھ پیسے دے دو، اوپر والا
تمہیں پیاری سی دلہن دے گا، دولہے بنو گے
میرے پاس ہاں کھانا کھلا دیتا ہوں تمہیں۔
اُس نے مجھے نیچے سے اوپر ایک نظر دیکھا اور کہا پیسے دے دو کھانا میں خود کھا لونگی، میں نے نفی میں سر ہلا کر کہا
کھانا تم کھالو پیسے میں خود دے دونگا، وہ ایک لمحہ خاموش رہی اور پھر کہا اچھا تم کھانا کھلا دو گے ؟ میری ایک بہن بھی ہے اُسے بھی بلا لوں ساتھ ؟ میں نے جو ابا کہا ہاں بالکل یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے، بلا لو اُسے بھی، اُس نے
دائیں طرف منہ کر کے زور سے آواز لگائی، تھوڑے فاصلے سے ایک چھے سات سال کی بچی لوگوں کے درمیان سے بچتی بچاتی ہمارے پاس آگئی۔
اس نے میری طرف دیکھ کر بچی کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا آؤ کھانا کھلاؤں تمہیں، ہم پاس کے ایک ہوٹل میں گئے اور کھانا لگانے کا کہا کھانا کھاتے ہوئے میں نے لڑکی سے سوال کیا کیا تمہارا دل نہیں کرتا کہ تم گھر الى
بساؤ، اپنی بہن کو اچھا رہن سہن دو، اُس نے
نوالہ بچی کو دیتے ہوئے ہنس کر کہا اور یہ گھر، یہ اچھا رہن سہن ایک بھکارن کو دے گا
کون؟
بہت لوگ ہیں تم بھیک مانگنے سے بہتر ہے کسی
گھر میں کام کر لو، میں نے جواب دیا، نہ گھر
میں کام کرنے کی بدعانہ دو مجھے، میری اماں
نے یہی غلطی کی تھی تب ہی میں اور میری
بہن آج سڑک پر ہیں اور اماں وہاں پاس کے
قبرستان میں پڑی ہیں، اس نے پانی کا ایک
گھونٹ پیا اور کہا کسی گھر کے مالک کی ہی ناجائز اولاد ہوں میں اور میری بہن، اُس کی انکھوں میں آنسو تھے، اُس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا میں نہیں چاہتی میری اولاد بھی میری طرح
سڑکوں پر ہو تبھی گھر میں کام نہیں کرتی۔
میں نے پوچھا مگر یہ بازار؟ کیا یہ تمہاری عزت پہ ہاتھ نہیں ڈالتا اور کیا یہاں پر تمہاری بہن محفوظ ہے؟ اس نے ہاتھ دوپٹے سے صاف
کرتے ہوئے کہا، نہیں ایسا نہیں ہے کہ میں
یہاں محفوظ ہوں، یہاں بھی نوچا جاتا ہے مجھے
مگر بہن ابھی چھوٹی ہے اس کے جوان ہوتے ہی اس کو کہیں اور دھندے لگا دونگی، تب تک پیسے بھی جوڑ لیے ہونگے اور اوپر والے کو کیا
جواب دو گی؟
وہ ہنسی تمہیں لگتا ہے اب بھی میں جواب دونگی اوپر والے کو؟ مجھے پیدا اوپر والے نے کیا مگر میری سر پرستی جس کو کرنی تھی وہ
دے گا اوپر والے کو؟ میری ماں آنتوں کے درد سے مر گئی، ہسپتال میں کسی نے مجھے داخل تک نہیں ہونے دیا، کیا وہ جواب نہیں دینگے اوپر والے کو؟ اس کے لہجے میں سختی تھی، اس نے میری طرف انگلی کرتے ہوئے کہا تم مرد
جواب دہ ہو اوپر والے کو، تمہیں ہماری
سر پرستی سونپی گئی ہے ناں، تمہارا بنایا ہوا ہے یہ معاشرہ، تم جواب دو گے اوپر والے کو، ایک کمزور لڑکی پہ ایسی نوبت آئی کیسے کہ وہ اپنا جسم بیچ کر پیٹ پالتی رہی اپنا، تم اوپر والے
کو جواب دو گے کہ تم نے
ایک کمزور لڑکی کو کیوں ٹوٹا، تم حکمران یہ
جواب دو گے تمہاری رعایا میں ایک لڑکی کو
نوچ لیا گیا مگر تم نے اسے ایک ڈوپٹہ تک نہیں
دیا۔
پیچھے دیکھو وہ بازار کو دیکھو وہاں تمہیں کوئی تمہارا معاشرہ ہے تمہارا بازار ہے یہاں مردوں میں سے کسی ایک کو بھی مجھ سے غرض نہیں، غرض نہیں کہ میں کس حال میں ہوں، یہاں
عورت اپنا اختیار چلاتی نظر آرہی ہے کیا؟ یہ
مردوں کو بس اپنی ہوس سے غرض ہے،
جانتے ہو تم مردوں کے اس معاشرے کا کیا
اصول ہے ؟ عورت ہو اور گھر سے باہر ہو، تم
نوچ ڈالتے ہو اُسے، اس نے اشارہ کرتے
ہوئے کہا وہ وہ بھکاری دیکھ رہے ہو تم ؟ وہ نماز
کے وقت جا کر نماز پڑھتا ہے، جانتے ہو کیوں؟ کیوں کہ وہ مرد ہے وہ آزاد ہے۔
میں ایک بار مسجد میں گئی، اول تو مجھے اندر نہیں آنے دیا، زور زبر دستی سے اندر چلی گئی تو
ہوس پرستوں کی ایک بھیٹر میرا انگ انگ دیکھنے کو مسجد تک آگئی، میں سکون سے نماز تک نہیں پڑھ سکتی اور تم کہتے ہو۔۔۔۔ میں کیا جواب دونگی اوپر والے کو؟
یہ مدینے والے کی رحمتیں ہیں کہ تم زندہ ہو
ور نہ با خدا تمہارے گناہوں پر بڑی سخت پکڑ
ہوئی تھی تمہاری بڑی سخت، مرد کمزور لڑکی کو دیکھ کر اصول بناتا ہے کہ اپنانا کبھی نہیں اور چھوڑنا بھی کبھی نہیں، میں خاموش تھا میرے
پاس کوئی الفاظ نہیں تھے میں نے بھونڈے طریقے سے کہا ہاں مگر کچھ مرد ہوتے ہیں جو اپنا لیتے ہیں، وہ طنز آفنسی اچھا ایسا بھی ہوتا ہے تو پھر ابھی دیکھ لیتے ہیں، اس نے سر پہ ڈوپٹہ اوڑھا اور کہا مجھ سے نکاح کر لو یہ بھکارن کا
وہ پھر بولی کیا ہوا؟ اچھے مرد ہو ناں تم ، تو دے
دو ایک مظلوم کو سہارا، میں خاموش تھا جواب دوناں، مرد یہ تو کہتے ہیں کہ کچھ مرد ہوتے ہیں مگر وہ کچھ مرد پتہ نہیں کہاں ہوتے ہیں میں نے تو کبھی نہیں دیکھے، میں نے جب بھی .
وعدہ ہے تہجد بھی نہیں چھوڑوں گی کبھی، میری آنکھیں پھٹ گئیں، میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دیکھے
تمہارے جیسے مرد ہی دیکھے، یہاں کوئی اپنانے والا نہیں اور بھلا اپنائے گا کیوں؟ اسے گھر سے بے دخل تو نہیں ہونا، نہ ہی لوگوں کی باتیں سن کر جینا ہوتا ہے کہ دیکھو عزت دار
۔ وہ زور سے ہنسی، پتہ نہیں تم مردوں کے نزد یک عزت کیا ہے، تم باہر کی عورت کو گھور نے چپکے سے منہ کالا کرنے اور سفید کاٹن پہنے کو عزت کہتے ہو مگر حقیقت میں عزت وہ
ہو کر ایک بد چلن کو گھر میں لایا ہے۔
احترام ہے وہ رتبہ جو تم ایک مجھ جیسے بے
عزت کو دیتے ہو اور تم یہ کبھی نہیں کرتے جواب دے گئی تھی، میں نہیں جانتا وہ کب خاموش ہوئی کہاں خاموش ہوئی اور کب چلی
کبھی بھی نہیں، میری سماعت اور بصارت
گئی، بس وہ چلی گئی تھی جب مجھے ہوش آیا