دلچسپ و عجیب

میں گھر پر لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی جیسے ہی شوہر گھر آتا

میں ایک ٹیچر تھی سکول سے چھٹی کے بعد میں گھر پر لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتی تھی میرے پاس اپنے محلے کے علاوہ دوسرے محلوں سے بھی لڑکیاں پڑھنے آتی تھیں، جتنی بھی لڑکیاں پڑھتی تھیں وہ سب جو ان اور خوب صورت تھیں، میرا شوہر ڈرائیور تھا، اس کے پاس اپنی دین تھی وہ سکول اور کالج کی بچوں کو سکول، کالج چھوڑتا پھر انہیں چھٹی کے وقت واپس گھر چھوڑتا تھا مجھے ٹیوشن سنٹر کھولے چھ ہی دن ہوئے تھے اس سے پہلے میں صرف سکول میں پڑھاتی تھی پہلے میں نے رکشہ لگوایا ہوا تھار کئے پر ہی سکول جاتی اور گھر آتی تھی لیکن پیسوں کی بچت کی خاطر میں نے چھٹی کے ٹائم کارکشہ ختم کر دیا تھا میں شوہر کے ساتھ ہی گھر آتی تھی، ہمارا گھر چھوٹا سا تھا اس لیے میں لڑکیوں کو مسحن میں ٹیوشن پڑھاتی تھی اس دن میں لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھاری تھی کہ میرا شوہر آگیا، اسے دیکھتے ہی لڑکیوں نے بننا شروع کر دیا۔ مجھے تعجب ہوا کہ ایسا کیا تھا کہ لڑکیاں میرے شوہر کو دیکھ کر چنے لگیں میں نے انہیں ڈانٹ دیا وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ولی دبی آواز میں بنتی رہیں ان لڑکیوں میں ایک لڑکی ایسی تھی جو خاموش اور سنجیدہ بیٹھی ہوئی تھی اس نے بھی ایک نظر میرے شوہر کو دیکھا تھا پھر نظریں جھکالی تھیں حیرت کی بات یہ تھی کہ میرا شوہر بھی ان لڑکیوں کو دیکھ کر زیر لب میرا شوہر کو مسکرایا تھا اور پاکر وہ کمرے میں چلا گیا شوہر کا مسکرانا میرے دل کو دھڑکا گیا بہر حال اس کے کمرے میں جاتے ہی میں نے سر کو جھکا اور لڑکیوں کو پڑھانے میں مصروف ہوئی، ہماری شادی کو ایک سال ہو گیا تھا لیکن ہماری ابھی تک کوئی اولاد نہیں تھی ہم میاں بیوی گھر دونوں میں اکیلے رہتے تھے میری ساس تو فوت ہو چکی تھی لیکن سر ایک دینی جماعت کے ساتھ تبلیغ کے لیے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے اور ان کی واپسی کا کوئی پھر نہیں تھا۔

میرا شوہر شام کو دیر سے گھر آتا تھا لیکن آج وہ جلدی آگیا تھا مجھے بر الگا تھا کہ کوئی میرے شوہر کو دیکھ کرنے ، اس وقت تو میں نے لڑکیوں کو کچھ نہیں کہا تھا لیکن سوچ لیا تھا کہ اگر آئندہ انہوں نے ایسی حرکت کی تو انہیں سمجھاؤں گی کہ کسی پر بنتا بری بات ہوتی ہے، اگلے دن بھی ویسا ہی ہوا، لڑکیاں میرے پاس ٹیوشن پڑھ رہی تھیں کہ اکرم آگیا اور لڑکیوں نے ” اسے دیکھ کر بننا شروع کر دیا اس دن مجھے غصہ آگیا اور میں نے لڑکیوں کو خوب ڈانٹا کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی ایک غیر بندے کو دیکھ کر چلتے ہوئے، لڑکیاں خاموش ہو کر اپنی پڑھائی میں مگن ہو گئیں لیکن میرا دھیان جمیلہ کی طرف چلا گیا اس نے بھی اکرم کو دیکھا تھا۔ لیکن وہ نہ جنسی تھی البتہ اس نے سر جھکا لیا تھا جیسے اندر ہی اندر احساس شرمندگی میں گھری ہو، مجھے اس کا نہ بنتا اور سر جھکاتا اندیشے میں ڈال گیا تھا جس کا میں اظہار نہیں کر سکی تھی، جمیلہ کا تعلق امیر گھرانے سے تھا وہ دوسرے محلے سے پڑھنے کے لیے میرے پاس آتی تھی اسے اس کا بھائی چھوڑ کر جاتا تھا اور وہی لے جاتا تھا، اب تو میرے شوہر نے بھی گھر جلدی آنا شروع کر دیا تھا دو پہر کا کھانا وہ باہر سے ک ھا کر ہی آتا تھا آتے ہی منہ ہاتھ دھو کر اور لباس تبدیل کر کے وہ کمرے میں کھڑکی کے پاس بیٹھ جاہتا مجھے اس کا کھٹر کی کے پاس بیٹھنا بر الگتا تھا وہ کھڑکی محسن میں کھلتی تھی جہاں میں لڑکیوں کو پڑھا رہی ہوتی تھی میرا شوہر انپڑھ تھا اس نے ایک جماعت بھی نہیں پڑھی تھی اس نے خود بتایا تھا کہ اسے پڑھائی سے دلچسپی نہیں تھی اس کی اہاں اسے سکول میں چھوڑ آتی تو وہ سکول سے بھاگ جاتا اور سارا سارا دن آوارہ دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا رہتا

آخر کار اس کی ماں نے تنگ آکر اسے درزی کی دکان پر بٹھا دیا تھا لیکن وہاں بھی وہ چند دن رہا پھر بھاگ گیا، جو ان ہونے کے بعد اس نے اپنی دین خرید لی تھی اور جب سے یہی کام کر رہا تھا اسے دین چلاتے ہوئے 4 سال ہونے والے تھے میری بھی اچھی تنخواہ تھی اس لیے ہماری گزر بسر اچھی ہو رہی تھی ایک دن میں لڑکیوں کو پڑھاری تھی اکرم بھی گھر آچکا تھا اور کمرے میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا تھا اچانک ۔ میری نظر خاموش بیٹھی جمیلہ پر پڑی تو میں چونک پڑی، جمیلہ پڑھنے کی بجائے کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات ابھرے ہوئے تھے اور وہ انکار میں سر ہلا رہی تھی میں نے کن انکھیوں سے شوہر کی طرف دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی اکرم اشاروں میں اس سے کچھ پوچھ رہا تھا اور وہ مسلسل غیر محسوس انداز میں نفی میں سر ہلا رہی تھی اکرم سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا میں فوراً جمیلہ کو ٹوکا، جمیلہ کیا بات ہے تم ٹیسٹ کی تیاری نہیں کر رہی، تمہارا دھیان کدھر ہے، جمیلہ کبڑا گئی اور کہنے لگی سوری ٹیچر دراصل میری طبیعت خراب ہے اس لیے مجھ سے پڑھنا مشکل ہو رہا ہے میں اٹھ کر اس کے پاس گئی اور اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا کیا ہو گیا ہے تمہاری طبیعت کو وہ گھبرائی ممبرائی کی دکھائی دی میں نے کن اکھیوں سے کھڑکی کی طرف دیکھا تو اکرم وہاں سے ہٹ چکا تھا اور جمیلہ کی نظریں بار بار کھٹڑ کی کی طرف بھٹک رہی تھیں لیکن میرے پوچھنے پر اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہو گیا کہنے لگی میرے سر میں درد ہو رہا ہے، مجھے چھٹی دے دیں میں گھر جانا چاہتی ہوں میں نے ایک طویل سانس لی اور پوچھا کہ تمہارا گھر تو دوسرے محلے میں لی او ر ہو تمہارا گھر تو ہے، کس کے ساتھ جاؤ گی،

وہ خاموش رہی میں نے ت ٹیوشن میں لڑکیوں کے موبائل فون لانے پر پابندی لگا رکھی تھی کیونکہ لڑکیاں پڑھتی کم تھیں موبائل فون میں زیادہ بڑی ہوتی تھیں اس لیے کوئی بھی لڑکی موبائل فون نہیں لاتی تھی اگر کسی لڑکی نے بھائی کو ت بلوانا ہو تا تھا تو میں اسے فون دے دیتی تھی اور وہ فون کر لیتی تھی میں نے اپنا موبائل فون جمیلہ کو دیتے ہوئے کہا کہ اپنے بھائی کو بلا لو، اس نے بھائی کو فون کیا لیکن اس کا فون بند تھا وہ پریشان ہو گئی تھی اور اس کی طبیعت بگڑتی جاری تھی میں نے اس کی طبیعت کی خرابی کے پیش نظر اکرم سے کہا کہ وہ جمیلہ کو گھر چھوڑ آئے حالانکہ جب میں نے اکرم سے کہا تھا تو میرے دل کو کچھ ہوا تھا لیکن میں مجبور تھی ۔ اکرم جمیلہ کو اس کے گھر چھوڑنے گیا تھا تو کافی دیر سے آیا تھا اور یہ سارا وقت میں نے کانٹوں پر گزارا تھا میری توجہ پڑھائی سے بھی ہٹ گئی تھی اور سارا دھیان اکرم کی طرف لگا رہا تھا جب وہ گھر آیا تو جب میری جان میں جان آئی تھی میں نے محسوس کیا تھا کہ اکرم بھی کچھ پریشان اور بے چین دکھائی دیا تھا جب سب لڑکیاں پڑھ کر چلی گئیں تو میں نے باتوں باتوں میں اکرم کو بھڑکانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے کچھ بھی نہیں بتایا تھا بلکہ میری بات ہنس کر ٹال گیا تھا آج سے پہلے میں نے کبھی اکرم کو یوں پریشان اور بے چین نہیں دیکھا تھا میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں اکرم کے جمیلہ کے ساتھ ناجائز تعلقات تو نہیں ہیں مرد کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی عورتوں کی طرف دیکھنا اور مائل ہونے کی کوشش کرتا ہے مجھے اکرم کے ساتھ رہتے ہوئے ایک سیال ہو گیا تھا لیکن میں نے آج تک اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی تھی

لیکن شیطان کا کیا، وہ تو اچھے اچھوں کو بھی برائی کی طرف راغب کرنے پر مجبور کر دیتا ہے چھ دن تک میں نوٹ کرتی رہی تھی اکرم مسلسل جمیلہ کی طرف دیکھتا رہتا تھا اور وہ دونوں اشاروں میں ایک دوسرے سے باتیں بھی کرتے رہے تھے نجانے ایسی کیا باتیں ہوتی تھیں جو میں ان کے اشارے سمجھ نہیں پاتی تھی میں سوچنے لگی کہ کیا مجھے اکرم سے بات کرنی چاہیے یا میں، اکرم کردار کا صاف و شفاف تھا محلے والے اس کی تعریفیں کرتے تھے مجھے لگتا تھا جیسے اکرم اور جمیلہ پہلے سے ہی ایک دوسرے کو جانتے ہیں، اس دن تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اکرم مجھے سکول سے پک کرنے آیا تو جمیلہ بھی دین میں سوار تھی جمیلہ خاموش اور سنجیدہ تھی وہ کم گو تھی یا کسی مجبوری کے تحت خاموش رہتی تھی مجھے نہیں پتہ تھا اسے میرے پاس ٹیوشن پڑھتے ہوئے 2 پلتے ہونے والے تھے اور میں نے اسے اور کبھی کسی لڑکی سے فضول میں باتیں کرتے ہوئے نہیں تا دیکھا تھا وہ اپنے مطلب سے مطلب رکھنے والی لڑکی تھی دین چلاتے ہوئے بھی اکرم بیک مرد سے جمیلہ کو دیکھتا رہتا تھا اور میں پریشان رہتی تھی اکرم غصے کا بھی تیز تھا اس لیے میں اس سے بات کرتی ہوئی ڈرتی تھی کہ کہیں غصے میں آکر وہ کچھ الٹا یدھا نہ کہہ دے، میں دن بدن نفسیاتی مریضہ بنتی جارہی تھی میں ہر وقت اکرم کی نگرانی کرنے لگی تھی، وہ موبائل فون بہت کم ) استعمال کرتا تھا لیکن جب سے جمیلہ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے آئی تھی جب سے اس کے موبائل فون کا استعمال بڑھ گیا تھا وہ کسی نہ کسی بہانے سے گھر سے باہر چلا جاتا اور کونوں میں چھپ کر جمیلہ سے باتیں کرتا رہتا، میں سوچتی تھی کہ آخر جمیلہ میں ایسا کیا تھا

جو مجھے میں نہیں تھا مجھ میں آخر کیا کی تھی کہ اکرم، جمیلہ کی طرف مائل ہوتا جارہا تھا میں بھی کم سن ، خوب صورت اور پڑھی لکھی لڑکی تھی ہم دونوں کزن تھے اس لیے میری اماں نے اس سے میرا رشتہ کر دیا تھا اماں نے مجھے سے اکرم کے رشتے کی بات کی تھی تو میں نے خاموشی سے رضا مندی دے دی تھی کیونکہ بقول کہاں کہا کے اکرم ان کا خون اور دیکھا بھالا تھا صورت کی بھی برداشت کی حد ہوتی ہے جب اس کی برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو وہ آخر کار بہت ہی پڑتی ہے، میں اکرم اور جمیلہ کی آنکھ مچولی چھ دن تک تو برداشت کرتی رہی پھر میری برداشت سے باہر ہوا تو میں پھٹ پڑی اور اکرم سے پوچھ لیا کہ آپ اور جمیلہ کا آخر کیا چکر چل رہا ہے، میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں کہ آپ اور جمیلہ اشاروں میں باتیں کرتے ہیں، آپ نے جو بھی بات کرنی ہوتی ہے کھل کر کیوں نہیں کرتے کبھی لڑکیاں آپ کو دیکھ کر ہنسنا شروع ہو جاتی ہیں، آخر بات کیا ہے۔ اکرم، مجھے بتائیں میرے الزام پر اکرم کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں اور وہ حیران ہی رہ گیا، ناہید کیا ہو گیا ہے تمہیں یہ تم پڑھی لکھی ہو کر کس طرح کی باتیں کر رہی ہو، اکرم کے انجان بنے پر مجھے بہت غصہ آیا غصے کی شدت سے میر ارواں رواں کانپ رہا تھا، آپ انجان مت نہیں، آپ بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں، بتائیں آپ کے جمیلہ سے کیا تعلقات ہیں میں تو پھٹ ہی پڑی تھی، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں، مجھے اپنا گھر بچانا تھا، میری بات پر اکرم کو بھی غصہ آگیا کہنے لگا کہ میرا اس سے جو بھی تعلق ہے تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے تم اپنے کام سے کام رکھا کرو میں کیا کر رہا ہوں کیا نہیں کر رہا تمہیں کام رکھا کرو میں کیا کر رہا ہوں کیا نہیں کر رہا تمہیں میرے معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

تا کہہ کر وہ گھر سے باہر چلا گیا اور میں سر گھٹنوں میں دے کر رونے لگی ساری بات واضح ہو چکی تھی اکرم اور جمیلہ کے درمیان واقعی تعلق تھا ورنہ اکرم کو چراغ پا ہونے کی کیا ضرورت تھی روتے روتے میں کب سو گئی مجھے پو بھی نہ چلا ، اکرم رات کو دیر سے گھر آیا تھا، صبح جب میں اٹھی تو وہ گھر سے جا چکا تھا سوچ سوچ کر میرات دماغ ہوتا جارہا تھا۔ اس لیے میں نے سکول سے چھٹی کرلی تھی میں سارا دن اکرم اور جمیلہ کے تعلق کے بارے میں سوچتی رہی اور کرتی رہی میں نے اس کا یہ نتیجہ نکلا تھا کہ شاید ہماری اولاد نہیں ہو رہی اور اکرم کو اولاد کی خواہش تھی اس لیے وہ جمیلہ سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہو گا اکرم اور میرے در میان چند دن بول چال بند رہی تھی اکرم نے مجھے منانے کی بھی کوشش نہیں کی تھی، میں روٹھ کر میکے بھی نہیں جاسکتی ہے تھی ورنہ پر نہیں میرے پیچھے اکرم کیا گل کھلائے، ایک رات میری آنکھ کھلی تو اکرم بستر پر موجود نہیں تھا۔ میں پریشان ہوئی، کمرے سے باہر چلی گئی لیکن اکرم کہیں نہیں تھا مجھے لگا وہ جہت پر ہو گا تو میں چھت پر چلی گئی، اکرم حمت پر ملتے ہوئے فون پر باتیں کرنے میں مصروف تھا میں نے غور سے اس کی باتیں نہیں تو وہ کہہ رہا تھا جمیلہ ، تم پریشان مت ہو میں کچھ کرتا ہوں، میری بیوی کو ہمارے تعلق کے بارے میں تلک تھا جب میں سیڑھیاں اتر رہی تھی تو مجھے اپنے پر من من کے بھاری محسوس ہو رہے تھے میں کیسے کرے میں پچھی نہیں جاتی تھی میں نے کروٹ بدل لی میری آنکھوں سے آنسو سیلاب بن کر نکلنے لگے تھوڑی دیر کے بعد اکرم بھی آگیا تھا وہ کمرے میں یوں آیا تھا جیسے چور آتا ہے میں نے ہانی رات روتے ہوئے گزار دی تھی میرا فک کا ہو گیا تھا کہ اکرم اور جمیلہ کے درمیان کوئی تعلق ہے، اگلے دن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اکرم سے دو ٹوک بات کروں گی، میں یا پھر جمیلہ ، میں اپنا گھر یلو پر لگانے کی ٹھان چکی تھی، اس دن اکرم تو کسی کام سے کہیں چلا گیا تھا لیکن جمیلہ ٹیوشن پڑھنے آگئی تھی میں جمیلہ سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن مجھے اس پر ہے حد غصہ تھا وہ جانتی تھی کہ اکرم شادی شدہ ہے اس کے باوجود وہ اس پر ڈورے ڈال رہی تھی اور اسے پھنسان ے کی کوشش کر رہی تھی لڑکیوں کو پڑھانے کا میرا دل بہک گیا تھا اس لیے میں نے لڑکیوں کو جلدی پڑھا کر چھٹی دے دی

جب سب چلی گئیں اور آخر میں جمیلہ جانے لگی تو میں نے اسے روک لیا وہ گھبرائی گھبرائی ہی دکھائی دی تھی شاید وہ سوچ رہی تھی کہ میں نے اس کیوں روک لیا ہے میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں جمیلہ سے کیا بات کروں، لیکن میں نے سوچا کہ اگر میں جمیلہ سے بات کروں کہ وہ میرے شوہر کا پیچھا چھوڑ دے ورنہ میں اس کے گھر والوں کو بتا دوں گی تو شاید وہ میری دھمکی سے ڈر جائے اور اکرم کا پیچھا چھوڑ دے مجھے بہی صورت بہتر دکھائی دی میں اس سے بات کرنا ہی چاہتی تھی کہ اچانک جمیلہ کو الٹی آئی اور وہ بھاگتی ہوئی واش روم میں گھس گئی اس کے اس طرح الٹی کرنے پر میں حیران رہ گئی یہ ونیسی الٹی تھی جیسی یہ حاملہ ہوں اور میں اسے دیکھتی رہ گی جمیلہ نے کہا تھا کہ ٹیچر میں حاملہ ہوں اور آپ کا شوہر مجھے کہہ رہا ہے کہ میں اپنے حاملہ ہونے کے بارے میں امی کو بتا دوں، جمیلہ کی بات سن کر میں کانپ کر رہ گئی وہی ہوا تھا جس کا مجھے ڈر تھا میرے داغ میں سوچوں نے چکرانا شروع کر دیا کہ کیا جمیلہ کے بطن میں پلنے والا بچہ اکرم کا ہے، کیا اکرم اس حد تک گر گیا ہے کہ اس نے ایک کنواری لڑکی کو حاملہ کر دیا ہے یہ سوچ کر ہی مجھے یوں لگا جیسے می رے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو، میں آپے سے باہر ہو گئی میں نے جمیلہ کو بازووں سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے کہا جمیلہ ، یہ کیا بکواس کر دیا مجھے لگا جیسے وہ مگر مچھ کے آنسو بہاری ہے، دل کیا کہ اس کا گلا گھونٹ دوں لیکن میں ایما نہ کر سکی کیونکہ اس کے ساتھ اکرم بھی برابر کا ذمہ دار تھا اگر لڑکی کم عمر اور نا سمجھے تھی لیکن وہ تو سمجھ دار تھا اسے جمیلہ کے ساتھ منہ کالا کرنے سے پہلے میرے بارے میں سوچنا چاہیے تھا، اپنے بارے میں سوچنا چاہیے تھا کہ جب یہ بات دنیا والوں کو پو چلے کی تو وہ کیا سوچیں گے ، جمیلہ مسلسل روئے چلی جارہی تھی وہ بولی، ٹیچر آپ اپنے شوہر کے بارے میں غلط سوچ رہی ہیں۔

وہ بالکل ایسے نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے میرے ساتھ منہ کالا کیا ہیں وہ نیک اور بہت اچھے انسان ہیں، اگر وہ نہ ہوتے تو شاید میں خود کشی کر چکی ہوتی، جمیلہ کی بات سن کر مجھے ایک زور دار جھکانا اور میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر جمیلہ کو دیکھتی رہ گئی، اس کے کہے گئے الفاظ میرے داغ بلکہ گھر کے دیوار سے فکر اکر بار بار گونج رہے تھے، میں تمہاری بات کبھی نہیں جمیلہ ، کیا اکرم نے تمہارے ساتھ، میں نے کہنا چاہا تو جمیلہ نے میری بات کاٹ دی، کہنے لگی نہیں ٹیچر ، وہ تو بہت اچھے انسان ہیں، میں نے ان جیسا انسان آج تک نہیں دیکھا۔ انہوں نے میری ہر قدم پر مدد کی ہے اور میر اساتھ دیا ہے، ایک نواز ہی تھا جو دنیا کا گھٹیا ترین اور بد بخت انسان ہے کاش میں نوار کی چکنی چپڑی ہاتوں میں نہ آتی، کاش مجھے اپنے والدین کی عزت کا خیال ہو تا ، میں نے اس سے نواز کے بارے میں پوچھا تو وہ مجھے اپنی کہانی سنانے پر آمادہ ہو گئی۔ ہم دونوں گن میں کرسیوں پر بیٹھ گئے اور جمیلہ بتانے لگی، میں جس کالج میں پڑھتی تھی وہاں لڑکے بھی پڑھتے تھے، میں ایک کم گو لڑکی تھی کسی سے زیادہ دوستی نہیں کرتی تھی وہیں میری ملاقات نواز سے ہوئی، نواز خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت باتونی تھا میں اس کی شخصیت میں ایسی تم ہو گئی کہ مجھے ہوش ہی نہ رہا تھا میر اشہر کالج کی خوب صورت لڑکیوں میں ہوتا تھا بہت سے لڑکے مجھ سے دوستی کرنے کے خواہاں تھے لیکن میں کسی کو لفٹ نہیں کراتی تھی پر نہیں میں نواز کی چکنی چپڑی باتوں میں کیسے آگئی تھی وہ کہتا تھا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اتنی محبت کہ رانجھانے بھی پیر سے نہیں کی ہوگی میں اس کی باتوں سے بہت متاثر ہوتی تھی اور یہی سمجھتی رہی کہ وہ واقعی مجھ سے محبت کرتا ہے وہ امیر خاندان کا چشم و چراغ تھا اس کا باپ بہت امیر اور اثر سوخ والا آدمی تھا میں توجہ کی محبت میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی میں نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا بلکہ اپنی نفسانی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے اس کے بارے میں بہت سی لڑکیوں نے مجھے خبر دار کیا تھا کہ نواز سے بچ کر رہتے

یہ لڑکیوں کو استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتا ہے، ہم روزانہ رات کو گھنٹوں موبائل فون پر باتیں کرتے رہتے تھے میں اس سے کہتی تھی کہ اگر تم مجھے پسند کرتے ہو تو اپنا رشتہ بھیجو لیکن وہ چل جاتا تھا کہتا تھا کہ ابھی میں شادی کے لیے تیار نہیں ہوں جب بھی تیار ہوا تو پہلی فرصت میں ہی اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر بھیجوں گا ہم دونوں اتنے بے تکلف ہو گئے تھے کہ اگر وہ مجھے سے دو چار باتیں بھی کرتا تھا تو میں اسے روکتی نہیں تھی وہ دن میری زندگی کا سیاہ ترین دن تھا جس دن میں مری کی سالگرہ تھی میں نے نواز کو بتایا تو اس نے کہا کہ میں تمہاری سالگرہ کلی بریٹ کرنا چاہتا ہوں اس نے ایک ہوٹل میں کمرہ بک کرالیا تھا اور میں اس کی محبت میں چور ہو کر سوچے سمجھے بغیر ہوٹل بیچ کے گئی، اس نے میری سالگرہ منائی پھر میں نے چائے پی تو میں بے ہوش ہو گئی جب ہوش آیا تو میری دنیال ٹے چکی تھی، نواز میری عزت پر پر کر کے جاچکا تھا میں لٹی پٹی گھر پہنچی تو والدین نے پوچھا کہ کہاں گئی تھی کافی دیر سے گھر پہنچی میں والدین کو کیا بتاتی کہ میں عزت لٹوا کر آئی ہوں میں نے بہانہ بنایا کہ میں کہیلی کی طرف گئی تھی میرے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہو گئی تھی اس لیے اطلاع نہ کر سکی، بہر حال کچھ ہی دن گزرے تھے کہ مجھے پتہ چلا کہ میں حاملہ ہوں، میں بہت پریشان ہوئی، روئی لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا میں نے نواز سے بات کی تو وہ صاف کر گیا بلکہ اس نے مجھے بد کردار اور گھٹیا لڑکی تک کہہ دیا، اس نے اپنا گناہ قبول نہ کیا اور مجھ سے تعلق ختم کر دیا، اس نے مجھے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر تم نے کسی کو کچھ بتایا تو میں تمہیں پوری دنیا میں رسوا کر دوں گا، میں نے سوچا کہ جب میرے والدین کو میرے حاملہ ہونے کا پتہ چلے گا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے

میں اکرم بھائی کی دین میں کالج جاتی اور کالج سے گھر جاتی تھی ایک دن میں کالج سے چھٹی سے ذرا پہلے ہی چلی گئی میرا اماده خود کشی کرنے کا تھا میں شہر کی طرف جاری تھی تا کہ نہر میں چھلانگ مار کر اپنی جان دے دوں وہیں سے اکرم بھائی کا گزر ہوا میں نہر میں چھلانگ لگانے ہی والی تھی کہ اکرم بھائی نے مجھے بچا لیا انہوں نے خود کشی کرنے کی وجہ پوچھی تو میں نے انہیں سب کچھ کچ بتا دیا انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنے والدین کو کی چی بتا دوں تا کہ وہ اس کا کوئی حل نکال سکیں لیکن میں ڈری ہوئی تھی اس لیے والدین کو نہ بتا سکی میں ابارشن کر اکر اس بچے سے جان چھڑانا چاہتی ہوں لیکن کوئی لیڈی ڈاکٹر میری واقف نہیں ہے اس لیے میں بہت پریشان تھی اکرم بھائی نے میرا حوصلہ بڑھایا ہے اور میرے اندر جینے کی امنگ پیدا کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی کسی جاننے والی لیڈی ڈاکٹر سے بات کریں گے ، ٹیچر میں نے بھی نوٹ کیا تھا کہ آپ ہماری طرف سے تک میں جلا ہو چکی ہیں اکرم بھائی نے بتایا تھا میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور اپنا گھر خراب نہ کریں لیکن وہ میری بات نہیں مان رہے تھے انہوں نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا کہتے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے میں اپنی بہن کو مشکل میں نہیں چھوڑ سکتا، اتنا کہنے کے بعد جمیلہ خاموش ہو گئی تو میں نے سکون کی سانس لی مجھے خود سے شرمندگی ہونے لگی اور میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگانے لگا کہ بنا تحقیق کیے میں نے اپنے نیک سیرت شوہر پر الزام لگا دیا تھا

مجھے اپنا آپ زمین میں دھنستا ہوا محسوس ہوا تھا، شام کو اکرم گھر آیا تو میں نے اس سے اپنے رویے کی معافی مانگی اس نے نہ صرف مجھے معاف کر دیا بلکہ کہا کہ بغیر تحقیق کسی پر الزام تراشی کرنا بھی گناہ ہے، جمیلہ میری چھوٹی بہن ہے اور مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں اس کے لیے کروں گا، پھر ہم دونوں نے ایک لیڈی ڈاکٹر سے بات کر کے جمیلہ کا ابارشن کر دیا۔ ابارشن ہونے کے بعد جمیلہ ملکی پھلکی ہو گئی تھی اور اس نے توبہ کرلی تھی کہ وہ آسجدہ کبھی بھی کسی لڑکے کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آئے گی، میں سوچتی تھی کہ اس سب میں کس کا قصور ہے لڑکیوں کا جو اوباش لڑکوں کی چکنی چھڑی باتوں میں اگر اپنا آپ ان کے سپر د کر دیتے ہیں، یا ان والدین کا جو اپنی بچیوں پر نظر نہیں رکھتیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں، کس سے مل رہی ہیں، موبائل فون پر کس سے بات کر رہی ہیں، آج والدین اپنی زندگی میں مست ہیں اور ان کی بیٹیاں اپنی عزتوں سے ہاتھ دھو رہی ہیں۔ اور خدا کے لیے اپنی بچوں پر نظر ضرور رکھا کریں تاکہ وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھائے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button