کراچی کا مشہور خواجہ سراء

ڈھول کی تھاپ پر بجتے گھنگرو گانے کی دھنوں پر لہراتے ہاتھ اور لچکتی بر ہنہ کمر آدھے گھو گھنٹ میں ناچنے والی نے اپنے سحر میں دیکھنے والوں کو جکڑ سالیا تھا ہا تھوں میں پکڑے کانچ کے گلاسوں میں شراب پینے کا ہوش کیسے اس محفل میں کسی کو نا تھا سب کی نظریں سامنے ناچنتی حسینہ پر تھیں وہ ہو شربا تھی دل کو موہ
لینے والے انداز لئے دیکھنے والوں کو ایک ہی محفل میں اپنا گرویدہ
کرنے کا ہنر جانتی تھی مرد اس کا چست لباس اس کے لمبے بال گورا رنگ دیکھ کر ہوش سے بیگانے ہوئے جارہے تھے اچانک ہی اس لڑکی کو نا جانے کیا ہوا کہ وہ ڈھول کی تھاپ پر بے خود سی ہو چکی تھی اس کے پاؤں تیزی سے زمین پر دھمال ڈالنے لگے تھے دیکھنے والے اسے یوں خود سے بیگانہ ہو کر ناچتا دیکھ کر متحیر سے
ہوئے تھے ڈھول والا خود بھی پریشان ہوا تھا کہ وہ ناچنے
والی اچانک سے خود سے بیگانہ ہو کر کیوں ناچنے لگی ہے وہ لڑکی اب اپنے آپ میں نا تھی وہ بے خود سی ناچے جارہی تھی سب کی نظریں اسی پر تھی کہ اسکے دھمال پر وہاں موجود سب لوگوں کی دھڑکنیں بیک وقت ایک ہی رفتار سے چل رہی تھی کہ اچانک سے اس ماہ جبین کے گھنگرو ٹوٹ کر پورے صحن میں بکھر گئے وہ خود بھی شاید تھک چکی تھی اس لئے زمین بوس ہو گئی
تالیوں کی گونج تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی لوگوں کی نظر میں اس لڑکی کے لئے ستائش تھی اور لبوں پر اسکی تعریف کوئی اسکے حسن کے قصیدے پڑھ رہا تھا تو کوئی اسکے رقص کے آج کی محفل بھی نیلو فرجیت چکی تھی اس حسینہ کا نام نیکو فر تھا میں اس محفل کا مہمان خاص تھا یہ محفل میری آمد کی خوشی میں ہی منعقد کی گئی تھی میں کل ہی امریکہ سے واپس لوٹا تھا
میرے دوستوں نے محفل جمانے کے لیے میرے لئے ہی سجائی تھی حالانکہ کہ میں دل پھنک پر گز نہیں تھا ہاں عیاش ضرور تھا امریکہ جیسے آزاد ماحول میں رہ کر وہاں کی ہر قسم کی رنگینیاں دیکھ کر بھی کبھی دل کے تار نہیں بجے تھے ہاں ویسے میں ہر قسم کی عیاشی کا عادی تھا اس وجہ میرے پاس بے پناہ دولت تھی اتنی کہ اگر میں دونوں ہاتھوں سے بھی لٹاتا تو ختم نا ہوتی جو لڑکی
مجھے اچھی لگتی مجھے بھا جاتی اسے اپنے کمرے کی زینت بنالیتا جتنی پر کشش اور حسیں مجھے وہ پہلی بار دیکھنے میں لگتی ایک رات کے بعد ہی میری دیچیپسی حسین سے حسین لڑکی پر جیسے ختم سی ہو جاتی تھی مجھے کبھی بھی کوئی لڑکی ایک رات سے زیادہ متاثر نہیں کرتی تھی میں جن عیاشیوں کا عادی ہو چکا تھا عورت کی میرے نزدیک کوئی خاص وقعت نا تھی میرے لئے وہ صرف ایک بکاؤ
مال تھی لیکن اس لڑکی کے رقص نے تو مجھے جیسے ایک ہی محفل میں اپنا گرویدہ بنا دیا تھا میرادل اسکے آدھے چھپے چہرے کو دیکھنے کا بڑی شدت سے متمنی تھا لیکن سنا تھا کہ وہ چہرہ کسی کو نہیں دیکھاتی نا ہی کسی کے ساتھ رات گزارتی تھی ایک محفل میں ہی وہ لاکھوں کما لیتی تھی وہ حسین تھی طوائف بھی تھی رقص کرتی تھی لیکن جسم فروش نا تھی میرے لئے یہ بات نا قابل یقین
سی تھی اور دل چسپی کا باعث بھی جس لڑکی کا نخرہ زیادہ ہوتا تھا اسے میں اسکی منہ مانگی قیمت دے کر اپنے سامنے جھکا کر بڑا سکون محسوس کرتا تھا پہلے تو میں یہ سمجھا کہ وہ لڑکی طوائفوں کی طرح محفلوں کو رنگین کرتی ہے ناچتی گاتی ہے اپنا دو آتشی حسن آدھا چھپا کر اپنی طلب اور مردوں کے جذبات بڑھاتی ہے تاکہ اپنی قیمت زیادہ وصول کر سکے لیکن جب مجھے اپنے دوست
دل گرفتہ سا ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا ہر محفل میں جہاں وہ جاتا لوگ اس سے اس قسم کے ہی سوالات کرتے تھے ایک دن تو اس کے دوستوں نے اسکے ساتھ حد ہی کر دی تھی وہ اسے دعوت کا کہہ کر ایک فلیٹ میں لے گئے کہنے لگے تم ایک لڑکی نمالڑ کے ہو اس لئے اگر تم چاہوں تو ہمارا دل بہلا کر ہم سے تھوڑے بہت پیسے کما سکتے ہو “وہ لڑکا یہ سن کر اشتعال میں آگیا
کہ تمہیں شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے ہوئے اس کے دوست کہنے لگے کہ تمہارے پاس پیسے کمانے کا دوسرا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے تمہیں کہیں نوکری نہیں ملے گی تمہارے نازک اندام اور تمہارا یہ نازک سادیکھنے والا وجود دیکھ کر سب تمہیں ہجڑا ہی سمجھیں گئے اور تم معاشرے میں کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے جانتے ہو نا لوگ ہجڑوں کے ساتھ کیساسلوک کرتے ہیں
ہماری مان لو تو تمہیں پیسے بھی ملیں گئے اور ہم بھی خوش ہو جایا کریں گئے ان کی باتیں سن کر وہ لڑکا وہاں سے باہر نکل گیا لیکن اپنی بظاہری شکل و صورت اور ہیت سے وہ جیسا تھا اس کا کالج جانا ہی دو بھر سا ہو گیا تھا لڑ کے اسے دیکھتے ہی ہو ٹنگ شروع کر دیتے اسے ہجڑا ہجڑا کہہ کر چھیڑ نے لگتے اس نے گیارویں جماعت میں ہی پڑھائی چھوڑ دی تھی پھر ایک جگہ نوکری کے لئے گیا وہ
و ہی لڑکا اس مالک کی دوکان پر رہ گیا تھا وہ مالک جان بوجھ کر
اسے کام پر کام بتائے جا رہا تھا جب مارکیٹ کافی حد تک بند ہو گئی
اس مالک نے اسے دو کان کا شٹر اندر سے بند کر لیا وہ لڑکا یہ دیکھ کر پریشان سا ہو گیا تھا وہ مالک کہنے لگا میں تمہاری حقیقت جان گیا ہوں تم یا تو خواجہ سراء ہوں پھر لڑکی جو لڑکا بن کر کام کر رہی ہو اس نوجوان نے بہت کہا کہ وہ خواجہ سراء نہیں ہے اس وقت وہ