میں اپنے چچا چچی کے ساتھ رہتی تھی چچا کا ایک بیٹا بھی تھا وہ مجھے

میرا نام سلینہ ہے ۔ میں ایک یتیم لڑکی ہوں میرے ماں باپ فوت ہو چکے تھے میں ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی بھائی نہیں تھا اس لیے ماں باپ کے مرنے کے بعد میں اکیلی اور بے سہارا ہو گئی تھی، میری عمر 12 سال تھی جب میرے ماں باپ انتقال کر گئے تھے میں گھر میں اکیلی نہیں رہ سکتی تھی، اکیلے رہتے ہوئے مجھے بہت ڈر لگتا تھا میرے ماموں سعودی عرب میں ہوتے تھے جبکہ میرے ایک چا بھی تھے جو بہت نیک اور رحم دل انسان تھے ، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے کہتے تھے کہ تم میرے مرحوم بھائی کی مانت ہو ، چی تھوڑے سخت مزاج کی عورت تھی، چا کو مجھ پر رحم آگیا تو وہ مجھے اپنے گھر لے کئے اور میری پرورش کرنے لگے ، چچی کا سلوک مجھ سے اچھانہ تھا، وہ مجھ سے تعلی سے بات کرتی تھی لیکن میں برداشت کرنے پر مجبور تھی کیونکہ میرے پاس رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، جو اپنا گھر تھا وہاں میں اکیلی نہیں رہ سکتی تھی بچی مجھ سے گھر کے سارے کام کروائی، میں برتن دھوتی، جھاڑو لگاتی، فرش پر پوچے لگاتی، چی سارا دن اپنے کمرے میں آرام کرتی رہتی یا پھر ٹی وی ڈرامے دیکھتی رہتی، اس نے مجھے دھمکایا ہوا تھا کہ خبر دار اگر تم نے اپنے چچا کو کچھ بھی بتایا اور نہ جینا حرام کر دوں گی،
میں ڈر جاتی تھی اس لیے میں نے اپنی زبان کی لی تھی، چچا مجھ سے اکثر پوچھتے تھے کہ بیٹی کیا تمہیں کوئی کچھ کہتا تو نہیں ہے ؟ میں انکار میں سر ہلا دیتی تھی اور کہتی تھی کہ نہیں چچا جان میں بالکل ٹھیک ہوں مجھے کوئی کچھ نہیں کہتا، چا کا ایک بیٹا بھی تھا جس کا نام نعمان تھا، وہ مجھ سے دو سال بڑا تھا وہ سکول میں پڑھتا تھا لیکن وہ بہت ہی نکما اور کام چور لڑکا تھا، سکول میں بچوں کی چیزیں چوری کرتا تھا ہر دوسرے دن سکول سے اس کی شکایتیں آتی رہتی تھیں اسے چچی کی سپورٹ حاصل تھی وہ ماں کا لاڈلا تھا اس لیے بچی اس کے کرتوتوں پر پر وہ ڈال دیتی تھی، میں اسے بھائی کہا کرتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا ہم بڑے ہوتے جارہے تھے تو نعمان کے رویے میں تبدیلی آتی جاری تھی جب میں 18 سال کی اور وہ 20 سال کا ہو گیا تو ایک دن اس نے مجھے سے سختی سے کہا تھا سلینہ تم مجھے بھائی مت کہا کرو، میں تمہارا بھائی نہیں ہوں، مجھے اس کی بات سن کر تعجب ہوا تھا کیونکہ چازاد بھی تو بہن بھائی ہی ہوتے ہیں ایسا میری اماں کہا کرتی تھی، میں نے نعمان کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا اس کی آنکھوں میں ہوس تھی، وہ مجھے ہوس بھری نظروں سے دیکھتا تھا اس کے دیکھنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ اپنی نظروں سے میرے وجود کا ایکسرے کر رہا ہو ، مجھے اس کی نظریں اپنے وجود میں کسی تیر کی طرح چھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں،
میں کوشش کرتی تھی کہ اس کے سامنے بغیر دوپٹے کے کبھی نہ آؤں، چچی کا رویہ بھی مجھ سے بدلا بدلا سا تھا وہ تو مجھے شروع دن سے ہی نا پسند کرتی تھی ایک دن میں نے چچا کی باتیں سن لی تھیں، وہ چچی سے میری شادی کے حوالے سے بات کر رہے تھے کہ سلینہ اب بڑی ہو گئی ہے میں چاہتا ہوں کہ میں کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر اس کی شادی کر دوں تا کہ وہ بھی اپنی زندگی میں خوشیاں دیکھے بچی نے جب یہ سنا تو بولی ارے اس کے لیے رشتے کی کیا ضرورت ہے لڑکا گھر میں ہی موجود ہے ویسے بھی ابھی اس کی عمر شادی کی نہیں ہے، اگر اس کی شادی ہی کرنی ہے تو ہمارا لڑکا گھر میں موجود ہے نعمان سے اس کی شادی کر دیتے ہیں، لیکن چچا نے چچی کی بات ماننے سے یکسر انکار کر دیا تھا کہنے لگے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی نعمان سے تو ہر گز نہیں کروں گا، وہ ایک نکما، کام چور اور نکھٹو لڑکا ہے سارا سارا دن گھر میں پڑا رہتا ہے ہ میری بھتیجی کی زندگی بھی برباد کر ڈالے گا اور خبر دار آئندہ اس حوالے سے مجھ سے کوئی بات نہ کرنا، چی غصے کے گھونٹ پی کر رہ گئی تھی، مجھے بھی نعمان سے شادی کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی کیونکہ وہ ایک بدماش لڑکا تھا، میں نے اسے اکثر فو ن پر لڑکیوں سے باتیں کرتے ہوئے سنا تھا پتا نہیں اس کی زندگی میں کتنی لڑکیاں تھیں اور وہ ان سب کو سبز باغ دکھاتا رہتا تھا۔ اس دن کے بعد تو چاچی نے مجھے پر مزید سختیاں کرنا شروع کر دیں،
ر کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ جب نعمان گھر پر ہوتا تو چھی کسی نہ کسی بہانے سے گھر سے چلی جاتی تھی اور نعمان مجھے ہے بے معنی باتیں کرنا شروع کر دیتا تھا، وہ ویسے بھی ایک گھٹیا انسان تھا اس لیے میں اس کی باتوں پر دھیان نہیں دیتی تھی، جب بھی چھی باہر جاتی تھی تو میں کمرے میں جا کر اندر سے کنڈی لگا دیتی تھی جب نعمان دروازہ کھٹکھٹا کر دروازہ کھولنے کا کہتا تو میں دروازہ نہیں کھولتی تھی، مجھے اس کے ارادے اچھے نہیں لگتے تھے وہ میری عزت لوٹنے کے درپے ہوتا تھا میں اسے دھمکی بھی دیتی تھی کہ اگر تم باز نہ آئے تو میں چچا سے تمہاری شکایت کر دوں گی لیکن وہ کوئی ڈھیٹ انسان تھا کہتا تھا کہ ہاں ہاں جا کر ابا کو بتا دو میں بھی کہوں گا کہ تم نے مجھے خود اپنے کمرے میں بلایا تھا، اس کے اس بہتان پر تو میں پریشان ہی ہو گئی تھی، سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ فرخ اتنا گر ا ہوا انسان نکلے گا، میں چپ رہی، پھر ایک دن تو اس نے حد ہی کر دی تھی، ایک رات میں گھر میں اکیلی تھی ہمارے رشتے داروں کے ہاں فوتگی ہو گئی تھی، چچا اور چی تو وہاں گاؤں میں چلے کے تھے جبکہ نعمان بھی گھر میں نہیں تھا، رات کا ایک بج رہا تھا کہ اچا نک بیرونی دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، مجھے لگا کہ چچا اور چی آگئے ہوں گے جب دروازہ کھولا تو چاچی کی بجائے نعمان کھڑا تھا، وہ نشے میں دھت تھا شاید وہ شراب پی کر آیا تھا، وہ لڑ کھڑا کر اندر آگیا میں دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں چلی گئی
وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آیا میں دروازہ بند کرنا چاہتی تھی کہ نعمان دروازے کو دھکا دے کر میرے کمرے میں گھس آیا، اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی، وہ اس وقت سراپا شیطان بنا ہوا تھا میں اس کی حالت دیکھ کر گھبراگئی، میں نے اسے باہر دھکیلنا چاہا تو اس نے میرا بازو پکڑ لیا اور مجھ سے دست دراز شروع کر دی، میں نے اسے دھکا دیا تو وہ لڑکھڑا کر فرش پر گرا اور پھر اٹھ کر میری طرف بڑھا اور کہنے لگا کہ میں آج تمہیں نہیں چھوڑوں گا آج تمہیں مجھ سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا، میں نے نعمان کو خدا اور رسول کے واسطے دیئے کہ میری عزت داغ دار نہ کرو، میرے کمرے سے چلے جاؤ لیکن اس پر شیطان سوار تھا، وہ کسی طرح بھی مجھے چھوڑنے والا نہیں تھا مجھے فرار کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، آخر مجھے کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو میں ٹیرس کی طرف بڑھ گئی، میں جلدی سے ٹیرس پر چڑھ کر بیٹھ گئی اور اس کو وارننگ دی کہ اگر تم میرے کمرے سے نہ کئے تو میں باہر کود جاؤں گی، فرخ نے سمجھا کہ شاید میں مذاق کر رہی ہوں ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر نعمان کمرے سے نہ گیا تو میں واقعی اپنی عزت بچانے کے لیے باہر کی طرف چھلانگ لگانے سے گریز نہیں کروں گی،
وہ ٹیرس گلی کی طرف تھی اور گرل تین فٹ کی لگی ہوئی تھی وہ شیطان نعمان ٹیرس پر آگیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم میرے ساتھ مذاق کر رہی ہو، تم مجھے دھمکی دے رہی ہو تا کہ میں واپس چلا جاؤں میں تمہاری دھمکیوں میں نہیں آوں گا، میں نے گلی میں جھانکا تو مجھے خوف محسوس ہوا ٹیرس اور گلی کی زمین تک کا فاصلہ 15 سے 20 فٹ تھا میں سمجھ گئی تھی کہ میری دھمکیوں کا اس پر اثر نہیں ہوا تھا تبھی میں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر گلی میں چھلانگ لگا دی، میں گلی میں گری لیکن خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ کرنے کے باوجود مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا تھا ، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو نعمان آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہا تھا پھر وہ مڑ کر چلا گیا، میں سمجھ گئی کہ وہ میرے پیچھے آرہا تھا ہے میں اٹھ کر اندھیری گلی میں دوڑ پڑی، سردیوں کا موسم تھا لیکن میں سردی کی پرواہ کیے بغیر دوڑتی جاری تھی، میں بغیر دوپٹے کے تھی پیروں میں بھی جوتی نہیں تھی، میں سڑک پر پہنچی تو مجھے تین مرد دکھائی دیئے، انہیں دیکھ کر مجھے خوف آنے لگا، ہا تھیں کپکپانے لگیں لیکن میں نے بہت کی اور ایک طرف چل دی تھوڑی دور جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرے پیچھے کوئی آ رہا ہ ے میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو میر ادل اچھل کر حلق میں آگیا، وہ تینوں آدمی بھی میرے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے آرہے تھے، خوف سے میر ابراحال ہونے لگا سڑک سنسان پڑی تھی، کہیں کہیں بلب جل رہا تھا وہ تینوں مرد بھی میرے قریب پہنچ گئے تھے اور ایک نے تو آواز دے کر مجھے رکنے کا کہا تھا میں گھبراگئی تھی بہت پریشان اور کبھی ہوئی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کدھر جاؤں؟
جب کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے ایک طرف دوڑ لگا دی ، وہ تینوں بھی میرے پیچھے دوڑ پڑے کافی دور آنے کے بعد مجھے ایک ہوٹل دکھائی دیا، مجھے کچھ نہ سوجھا تو میں چھپی چھپی ہوٹل میں چلی گئی، ہوٹل میں کوئی بھی موجود نہیں تھا میں ایک کمرے میں گھس گئی اس کمرے میں آٹے کی بوریاں پڑی ہوئی تھیں، ایک سائیڈ پر فریزر بھی پڑا ہوا تھا میں جلدی سے آٹے کی بوریوں کے درمیان چھپ گئی میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، سر دی لہریں مجھے اپنے وجود میں سرایت کرتی محسوس ہو رہی تھیں، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مجھے باہر مردانہ آوازیں سنائی دیں ایک آدمی کسی سے پوچھ رہا تھا کہ کیا تم نے یہاں کسی لڑکی کو دیکھا؟ دوسری آواز سنائی دی جو یقینا کسی نوجوان کی تھی، اس نے کہا کہ نہیں میں نے تو یہاں کسی لڑکی کو نہیں دیکھا رات کے تین بچے کسی لڑکی کا یہاں کیا کام ؟ اس کی بات پر تینوں نے یقین نہیں کیا تھا انہوں نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو ، تم نے لڑکی کو کہیں چھپا دیا ہے جو کہاں ہے وہ لڑکی ؟ نوجوان بولا کہ کیا بکواس کر رہے ہو ؟ میں کیوں کسی لڑکی کو چھپاؤں گا جاؤ یہاں سے ورنہ میں پولیس کو کال کر دوں گا، تینوں مرد پولیس کا سن کر گھبراگئے تھے اور نوجوان سے لڑتے جھگڑتے چلے گئے تھے ، ان کے جانے کے بعد میں نے سکون کی سانس لیے میں نے سوچ لیا تھا کہ میں باقی رات وہیں گزاروں کی صبح ہوتے ہی میں یہاں سے نکل کر کسی محفوظ جگہ پر پہنچوں گی ، بیٹھے بیٹھے مجھے نیند بھی آرہی تھی اس لیے میں آٹے کی بوریوں پر سر رکھے سو گئی
میری آنکھ اس وقت کھلی جب فجر کی آذائیں ہو رہی تھیں اور میرے پاس ہی ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا، کمرے کی لائٹ جل رہی تھی، جب رات کو میں کمرے میں چھپی تھی تو اس وقت اور میرا تھا اس لڑکے نے کمرے میں آکر لائٹ جلائی تھی اور مجھے حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اس کے دیکھنے کا انداز کیا تھا جیسے اس نے زندگی میں پہلی بار کوئی لڑکی دیکھی ہو، اس نے پوچھا کہ اے لڑکی تم کون ہو اور یہاں کیسے آئی؟ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے بتایا کہ میر انام سلینہ ہے اور میرا چچازاد میری عزت لوٹنا چاہتا تھا، میں عزت بچانے کی خاطر گھر سے بھاگ نکلی، راستے میں کچھ بد معاش میرے پیچھے لگ گئے تھے میں ان سے بچنے کے لیے آپ کے ہوٹل میں آکر چھپ گئی، وہ کہنے لگا کہ اچھا وہ تم ہو جس کی ملاش میں رات کو تین بنے آئے تھے ؟ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا ہے، اب تم کہاں جانا چاہتی ہو آد میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں، میں نے کہا کہ نہیں میں اب گھر نہیں جانا چاہتی میرے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ، آپ مجھے اپنے گھر لے چلیں میں آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں مجھے وہ لڑکا اچھا لگا تھا وہ میرا ہی ہم عمر تھا، اس کی نظروں میں کوئی ہوس نہیں تھی کہنے لگا کہ کیا تم میرے گھر چلنا چاہتی ہو لیکن میں تو اپنے گھر میں اکیلا رہتا ہوں میں یہاں اپنے ماموں کے پاس ملازمت کرتا ہوں رات مجھے گھر جانے میں دیر ہو گئی تھی اس لیے میں ہوٹل پر ہی رک گیا تھا مجھے اس کی بات سن کر بہت پریشانی ہوئی تھی مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں اب کیا کروں؟
میں واپس گھر نہیں جانا چاہتی تھی مجھے نعمان سے ڈر لگنے لگ گیا تھا، کل رات اس نے شراب کے نشے میں دھت ہو کر مجھ سے دست درازی کی تھی اسے پھر موقع ملا تو وہ میری عزت تار تار کرنے میں دیر نہیں کرے گا ویسے بھی میری چچی کون سی اچھی تھی وہ مجھے بھی برباد کرنا چاہتی تھی۔ میں سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اس لڑکے نے مجھ سے پوچھا کیا سوچ رہی ہو ؟ میں نے کہا کہ میں اپنے گھر نہیں جانا چاہتی آپ مجھے اپنے ساتھ لے چلیں میں آپ کے ساتھ شادی کرنے کے لیے تیار ہوں، میری بات سن کر وہ لڑکا ہکا بکا ہی رہ گیا تھا وہ یوں خاموش ہو گیا جیسے میں نے یہ بات کر کے اسے خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہو کچھ دیر بعد کہنے لگا کہ ٹھیک ہے میں تم سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں کیونکہ اس دنیا میں ماموں کے علاوہ میرا بھی کوئی نہیں ہے، میں یتیم ہوں اور میری شادی نہیں ہوئی، ماموں مجھے جو تنخواہ دیتے ہیں میں اس سے گزار اوقات کرتا ہوں، اس نے مجھے ایک چادر پہنائی، جوتی دی اور میں اس کے ساتھ روانہ ہو گئی ، وہ مجھے ایک محلے میں اپنے گھر میں لے گیا اس کا گھر تین مرلے کا تھا اس نے بتایا تھا کہ اس نے کچھ عرصہ پہلے ہی یہ گھر خریدا تھا۔ ہم نے اس شام ہی شادی کر لی تھی شادی کے بعد میری نئی زندگی شروع ہو گئی تھی اور میں اپنے شوہر کے
میرے شوہر کا نام نبیل تھا، وہ بہت ہی اچھا انسان تھا اس نے مجھے پلکوں پر بٹھایا تھا کہتا تھا کہ میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے تم جیسی خوبصورت اور پیاری لڑکی مل گئی ہے ، میں شرم سے سرخ ہو جاتی تھی ہماری زندگی بہت اچھی گزرنے لگی، نبیل صبح ہوٹل جاتا تھا اور شام کو واپس گھر آتا تھا، دن گزرتے رہے ، ہماری شادی کو دو ہفتے گزرے تھے کہ ایک دن میں گھر کی صفائی کرتی ہوئی ایک کمرے میں گئی، اس کمرے کی جب میں نے الماری کھولی تو میں دنگ رہ گئی ، اس الماری میں زنانہ کپڑے، جوتے اور میک اپ کا سامان موجود تھا یہ سب دیکھ کر میرے دل کو کچھ ہوا مجھے یوں لگا جیسے نبیل نے میرے ساتھ دھو کے سے شادی کرلی ہے وہ پہلے سے شادی شدہ تھا اور اس نے مجھ سے جھوٹ بولا کہ میں شادی شدہ نہیں ہوں، میں کافی دیر صدمے کی حالت میں کھڑی رہی، مجھے اپنا وجود بے جان محسوس ہو رہا تھا پاؤں من من کے بھاری محسوس ہو رہے تھے میں بڑی مشکل سے خود کو کھیلتے ہوئے بیڈ روم میں آئی اور بیڈ پر بیٹھ کر سوچنے لگی، میری آنکھوں سے آنسو بھی نکل آئے تھے ، شام کو
جب نبیل آیا تو میں نے خود کو نارمل کر لیا تھا، میں نے اس کو محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ میں نے دوسرے کمرے کی الماری میں زنانہ چیزیں دیکھ لی ہیں،
مجھے تجس ہو گیا تھا کہ آخر وہ ان کپڑوں کا کیا کرتا ہے ؟ ممکن ہے وہ آن لائن کام بھی کرتا ہو ، میں منتظر تھی کہ وہ خود ہی اس بارے میں بتا دے گا، دو دن ہی گزرے تھے کہ ایک رات نبیل اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا، تھوڑی دیر بعد وہ کمرے سے باہر آیا تو میں اسے دیکھ کر حیرت سے اچھل پڑی، اس نے زنانہ لباس پہنا ہو ا تھا اور چہرے پر خوب میک اپ کیا ہوا تھا، وہ ویسے بھی کلین شیو تھا میک اپ کرنے کی وجہ سے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ مرد ہے یا عورت، میں اسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی میں اس سے پوچھنے ہی لگی تھی کہ اس وقت پیرونی دروازے کی گھنٹی بھی، میں جانے لگی تو اس نے مجھے روک لیا اور کہنے لگا سلینہ تمہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے، میں جارہا ہوں اور صبح واپس آؤں گا۔ مجھے پتہ ہے تمہارے دل میں بہت سے سوالات ہو گے، میں واپس آکر تمہیں سب سوالوں کے جواب دوں گا، پھر وہ چلا گیا، جب وہ دروازہ بند کر رہا تھا تو میں نے دیکھا تھا باہر ایک کار کھڑی تھی اور وہ اس کار میں بیٹھ کر چلا گیا تھا، میں ساری رات جاگ رہی تھی، اس کی باتوں نے مجھے الجھا دیا تھا، جاگتے اور سوچتے سوچتے صبح ہو گئی تھی آذان ہوئی تو میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی اب مجھے نیند آرہی تھی اس لیے میں جا کر سو گئی مجھے نہیں معلوم کہ نبیل کب آیا تھا جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ نبیل بھی سو رہا تھا، اس نے لباس بدلا ہو ا تھا اور چہرے پر میک اپ بھی نہیں تھا۔
میں ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئی، جب تک میں نے ناشتہ تیار کر لیا تھا نبیل بھی جاگ گیا تھا، ہم نے خاموشی سے ناشتہ کیا میں دراصل اس کے بولنے کی مختصر تھی میں جانا چاہتی تھی کہ وہ عورتوں کا لباس پاکن کر اور میک اپ کر کے کہاں جاتا ہے، پھر اس نے خود ہی باتوں کا آغاز کیا، کہنے لگا کہ سلینہ جان تم جانتی ہو کہ آج کے دور میں کتنی مہنگائی ہے، دو وقت کی روٹی پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں ماموں کے ہوٹل پر جاب کرتا ہوں جنی وہ مجھے تنخواہ دیتے ہیں اس سے میں اکیلے تو گزارہ کر ہی لیتا تھا لیکن سوچتا تھا کہ جب میری شادی ہو جائے گی تو کیا میں اس تنخواہ سے گزارہ کر سکوں گا؟ میں اسی سوچ میں ہوتا تھا آخر مجھے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اگر میں لڑکی بن کر کسی طوائف کے کوٹھے پر جا کر مجرا کروں تو اس طرح میں اچھے خاصے پیسے کمالوں گا، اس طرح میں اپنی شادی سے پہلے بہت سارے پیسے بھی جمع کر لوں گا اور اپنا ایک الگ سے ہوٹل کھول لوں گا چناچہ میں نے ایسا ہی کیا، میں نے کچھ پیسے جمع کیے ان پیسوں سے زبانہ کپڑے خریدے میک اپ کا سامان لیا اور پھر ایک دن لڑکی کا روپ دھار کر میں ایک طوائف کے کوٹھے پر گیا، اس طوائف کے پاس مجرا کرنے والی کئی لڑکیاں تھیں، میں اسی طرح کئی کو ٹھوں پر گیا اور کام مانگا، آخر مجھے ایک کوٹھے پر مجرا کرنے کا کام مل گیا، اس کو ٹھے پر ہر ہفتے ساری رات مجمر ا ہوتا ہے
لڑکیوں کا مجرا دیکھنے کے لیے شہر کے بڑے بڑے رئیس آتے ہیں، کئی بار تو میں نے شادیوں میں بھی جا کر مجرا کیا ہے اور مجھے اچھے خاصے پیسے ملے تھے مجھے یہ کام کرتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے اور اب تک میں نے اچھے خاصے پیسے جمع کر لیے ہیں، میرے ماموں کو بھی میرے اس کام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے میں نے ان سے خفیہ رکھا ہوا ہے ، اس کی باتیں سن کر میں ہکا بکا سی رہ گئی تھی، میں تو یہ بکھتی رہی تھی کہ نجبیل شاید پہلے سے شادی شدہ تھا یا اس کے غیر عورتوں سے تعلقات تھے اس لیے اس نے الماری میں زبانہ کپڑے اور میک اپ کا سامان رکھا ہوا تھا، یہ باتیں بتانے کے بعد نبیل شرمندہ بھی ہوا تھا، میں چپ سی بیٹی اسے ہی دیکھ رہی تھی، تم کچھ کہو گی نہیں، مجھے خاموش پا کر اس نے پوچھا میں نے کہا کہ نبیل میں کیا کہوں، مجھے تو آپ کی باتیں سن کر شاک ہی لگ گیا ہے ، ٹھیک ہے آپ نے پیسے کمانے کے لیے یہ پیشہ اختیار کیا اور لڑکی بن کر مجرا بھی کیا لیکن میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ یہ پیشہ چھوڑ دیں، میں آپ کے ساتھ مل کر کوئی چھوٹا موٹا کام کر لوں گی جس سے ہم دونوں پیسے کمائیں اور اپنا ہوٹل کھول لیں،
پہلے تو وہ نہیں مان رہا تھا لیکن جب میں نے اسے فورس کیا تو بالآخر اس نے میری بات مان لی اور مجھ سے وعدہ کیا کہ میں دو مہینے بعد یہ پیشہ چھوڑ دوں گا، میں نے ہامی بھر لی، نبیل ہر ہفتے لڑکی کا روپ دھار کر کار میں بیٹھ کر چلا جاتا اور صبح ہی واپس گھر آتا تھا، مجھے صدمہ تو ہوتا تھا لیکن میں کیا کرتی نبیل نے طوائف سے دو مہینوں کا کنٹریکٹ کیا ہوا تھا، جب اس کا کنٹریکٹ ختم ہو گیا تو اس نے یہ پیشہ چھوڑ دیا، اس کے پاس اچھا خاصا پیسہ جمع ہو چکا تھا ہم دونوں نے مل کر چھوٹا سا کاروبار کھول لیا اور ہماری زندگی جنسی خوشی گزرنے لگی، اس بات کو گزرے آج دس سال ہو گئے ہیں، ہمارے تین بچے ہیں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ، مجھے جب بھی یہ یاد آتا ہے تو میں سوچتی ہوں کہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں، شکر ہے کہ نبیل نے میری بات مان لی تھی اور وہ پیشہ چھوڑ دیا تھا۔