کہانیاں

ایک سوداگر کی بیوی بہت ہی خوبصورت تھی جب وہ کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر جانا تھا تو

پرانے وقتوں میں ایک سودا گر تھا جس کا نام زاہد بن قیس تھا اس کی بیوی بہت ہی خوبصورت تھی شہر کے بڑے بڑے سودا گرو یہاں تک کہ وزیر بھی اس کی ایک جھلک عالم کے لئے ترستے تھے لیکن وہ کسی کی دسترس میں نہیں تھی ۔ سودا گر کو تجارت کے معاملات کی وجہ سے کئی کئی سال شہر سے باہر رہنا پڑتا تھا اسی طرح ایک دن اسے تجارت کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑاد جانے سے ۔

پہلے وہ رات کو اپنی بیوی کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا کہ میں تمہارے لئے ایک خوبصورت تحفہ لایا ہوں جسے دیکھ کر تمہیں میری یاد آتی رہے گی اور تم مجھے نہیں بولوں گی یہ کہہ کر اس نے ایک لوہے کا تالا اس کی کمر سے باندھ دیا اور چابی اپنے پاس رکھ لی اس پر اس کی بیوی بہت ناراض ہوئی اور کہنے لگی آپ کو مجھ پر اتنا بھی بھروسہ نہیں رہا ۔ یہ سن کر سودا گر مسکرایا اور کہنے لگا مجھے تم پر

بھروسہ ہے لیکن اس دنیا پر نہیں ۔ یہ اکیلی عورت دیکھ کر کچھ بھی کر سکتی ہے ، میں نے اب تمہیں اس دنیا سے محفوظ کر لیا ہے یہ کہہ کر وہ اپنے سفر پر روانہ ہوا ۔ سودا گر کی بیوی اس تالے کی وجہ سے بہت پریشان اور تکلیف میں تھی ۔ ایک دن اس نے ایک آواز سنی ایک فقیر اس کے دروازے پر آیا اور اس نے صدا لگائی ، اس کی آواز میں ایسا جادو تھا کہ سوداگر کی بیوی کو اس کی

آواز بہت پسند آئی ۔ اس نے فقیر کو اندر بلایا اور پھر سے صدا بلند کرنے کو کہا ۔ فقیر نے اس کے کہنے پر پھر سے آواز لگائی سوداگر کی بیوی نے اسے کچھ پیسے دیے اور کہا علمی کہ تم کل پھر میرے پاس آ جانا اور اپنی آواز مجھے سنا دینا ۔ یہ سن کر وہ فقیر چلا گیا اور اگلے دن پھر سوداگر کی بیوی کے پاس آیا سوداگر کی بیوی نے پھر سے اسے پیسے دیے اور پھر اس سے اگلے دن آنے کو کہا ۔ فقیر واپس چلا گیا

اور اگلے دن پھر سوداگر کی بیوی کے پاس آ گیا اسی طرح آہستہ آہستہ دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی اور ایک دن فقیر عورت کی طرف بڑھنے لگا تو اس نے روک دیا اور اسے سارا ماجرا سنایا  کہ کیسے اس کے شوہر نے اسے تالے میں جکڑ دیا ہے ۔ وہ فقیر پہلے تو مایوس ہوا لیکن پھر وہ سوداگر کی بیوی سے کہنے لگا کہ تم فکر مت کرو تم میرا انتظار کرو میں تالا کھولنے کا ہنر سیکھ کر تمہارے پاس

ضرور آؤں گا اور تمہارا تالا کھول کر تمہیں یہاں سے آزاد کر کے لے جاؤں گا ۔ سودا گر کی بیوی نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور وہ فقیر تالا کھولنے کا ہنر سیکھنے کی غرض سے وہاں سے چلا گیا ۔ وہ فقیر کچھ دن غائب رہا تو سودا گر کی بیوی بڑی پریشان ہوئی پھر ایک دن اسے اس فقیر کی آواز سنائی دی وہ آواز سنتے ہی خوشی سے دروازے کے قریب گئی ، جب عورت فقیر کے قریب ہوئی تو

قیر نے بتایا کہ وہ تالا کھولنے کا ہنر سیکھ چکا ہے اور اب ۔ وہ اسے اس قید سے آزاد کر کے لے جائے گا ۔ یہ سن کر وہ عورت بہت خوش ہوئی اور اسے تالا کھولنے کی اجازت دے دی جیسے ہی وہ فقیر تالا کھولنے لگا تو اچانک ایک شخص سوداگر کی بیوی کے پاس آیا اور اس نے بہت سارا مال و اسباب عورت کے حوالے کیا اور کہنے لگا یہ وہ مال و دولت اور جواہر ہیں جو تمہارے شوہر کی ملکیت تھے ۔ راستے میں

ایک حادثے میں تمہارے شوہر کے موت ہو گئی اور اس نے آخری وقت میں یہ مال تمہارے حوالے کرنے کی وصیت کی تھی ۔ اس شخص نے وہ سارا مال اس عورت کے حوالے کیا اور چلا گیا اس کے جانے کے بعد سوداگر کی بیوی کچھ دیر کے لیے ایک جگہ پر ساکت ہو گئی اور پھر کچھ دیر کے بعد ۔ ہوش میں آ کر رونے لگی وہ یہ سوچ کر رونے لگی کہ میرا شوہر مرتے دم تک میرے ساتھ وفادار رہا لیکن میں اس کی

امانت میں خیانت کرنے والی تھی ۔ اپنے اس عمل پر وہ بہت شرمندہ ہوئی پھر اس نے اس فقیر کو کہا تم واپس چلے جاؤ ۔ میرا شوہر میری بے وفائی کی وجہ سے اس دنیا سے چلا گیا اب میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی ، میں اپنی باقی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ وفادار رہ کر گزارنا چاہتی ہوں یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی فقیر کچھ دیر اس کے دروازے پر کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا لیکن پھر وہ بھی وہاں سے چلا گیا ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button