اعجاز احمد ایک سکول ٹیچر تھا اس کی تین بیٹیاں دو بیٹے تھے۔

اعجاز احمد ایک سکول میں ٹیچر تھا اس کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ بیٹیاں ساری بڑی تھیں جبکہ بیٹے ابھی سکول میں پڑھ رہے تھے۔ چاروں بیٹیاں اعلی تعلیم یافتہ اور سگھڑ تھیں اور خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ محلے والے ان کے حسن اور اخلاق کی مثالیں دیتے تھے کیونکہ کالج سے سیدھا گھر آنا
ان کی روٹین تھی۔ سب بہنوں میں ایک خاصیت مشترک تھی کہ سب بہت کم بولا کرتی تھیں اور یہی خوبی لوگوں کو ان کی جانب متوجہ کرتی تھی۔ جب بڑی بہن کا رشتہ آیا تو اس وقت اعجاز احمد نے سکول سے پنشن لیا تھا اور کچھ اور جمع پونجی بھی جمع کی تھی۔ رشتہ
ایک اچھے خاندان کا تھا۔
انہوں نے بغیر سوچے سمجھے ہاں کر دی اور یوں ڈولی اٹھ گئی شادی پر کافی خرچہ کیا گیا تھا۔ شادی کے دن نکاح سے پہلے دلہا والوں نے جہیز کی ڈیمانڈ کر دی کہ ہمیں یہ یہ چیز چاہیے ورنہ شادی نہیں ہو گی۔ اعجاز احمد کے پاؤں تلے زمین نکل گئی کیونکہ جو ڈیمانڈ تھی اس میں اس کی ساری پینشن ختم ہو جاتی
اور ابھی دو مزید بیٹیوں اور بیٹوں کے فرض سے اسے سبکدوش ہونا تھا۔ یہ بات اس پر بجلی بن کر گری اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ساری ڈیمانڈ پوری کر دی حالانکہ بیٹی نے کہا کہ بابا میری وجہ سے میری دیگر بہنوں کا مستقبل بر باد نہ کرو مگر سفید پوشی کا بھرم تھا اور یوں اپنے بھرم کو برقرار رکھنے کے لئے
اس نے جہیز جیسے ناسور کو پروان چڑھنے دیا اور یوں شادی ہو گئی۔ جب دوسری بیٹیوں کی شادی کی باری آئی تو سب نے جہیز کی ڈیمانڈ پہلے کی بعد میں لڑکی کو دیکھتے تھے جس کی سکت بوڑھے اور ناتواں کندھوں میں نہیں تھی اور یوں ان بیٹیوں کی شادیوں کی عمریں گزر گئیں۔ ایک نے تو شادی کے نام سے ہی توبہ کرلی