بھائی کو ایک لڑکی بہت پسند تھی بھائی اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے جب ہم اس کا رشتہ لینے

رضوان کو ساتھ والے گاؤں کی زمیندار کی بیٹی پسند آگئی وہ اپنے باپ کی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی رضوان نے والد سے کہا کہ وہ صائمہ سے شادی کرنا چاہتا ہے باپ راضی ہو گیا وہ زمیندار اشرف کے پاس گیا جو با اخلاق شخص تھا بیوی جوانی میں فوت ہو گئی تھی اور اس نے بچے کی خاطر دوسری شادی نہیں کی تھی اب یہ بچی جو ان ہو گئی تھی ۔ اشرف زمیندار کی نور نظر صائمہ گاؤں کی خوبصورت لڑکی تھی کھلتی ہوئی رنگت گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ سرو قدس کے کہہ کے گاؤں کی پکڈنڈیوں پر اس طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے ہوا پھولوں کی خوشبو کو فضاؤں میں کھیر دیتی ہے اس حور شمائل میں کسی خوبی کی کمی نہ تھی وہ جب ہستی تو لگتا جیسے سفید موتیوں سے بھرے سیب کا منہ کھل گیا ہو وہ اگر حور شمائل تھی تو رضوان بھی حسن میں کسی سے کم نہ تھا اس کے ساتھ وہ محنتی اور خوش گفتیر بھی تھا اس کے گھرانے کے لوگ تعظیم کیا کرتے تھے رضوان کا باپ علاقے میں با عزت شخصیت جاتا جاتا تھا ۔ جب ہی رضوان کا رشتہ لینے رضوان کے والد اور اس کی بہن گئے رضوان کی بہن بھی خوبصورتی میں باکمال تھی جسے دیکھتے ہی ملک صاحب کی آنکھیں چار ہو گئیں رضوان کے والد نے اشرف زمیندار سے بیٹے کے رشتے کی بات کی تو وہ خاموش ہو گیا ۔ ملک صاحب نے خاموشی کی وجہ پوچھی تب وہ گویا ہوا کہ میں مجبور ہوں وجہ برادری سے مشورہ کیے بغیر آپ کو کوئی جواب نہیں دے سکاک
مجھے کچھ وقت چاہیے تا کہ اپنے بھائیوں سے بات کر سکوں۔ زمیندار اشرف نے روایت سے ہٹ کر دے دیں ہاں اگر وہ لڑکی کے اپنی برادری کو بلایا۔ انہوں نے کہا کہ رحمت زمیندار لاکھ اچھا مگر ہم اپنی لڑکی کا رشتہ کیسے روایت سے ہٹ کر دے دیں ہاں اگر وہ لڑکی کے بدلے اپنی لڑکی کا رشتہ ہمیں دے دے تو پھر بات ہو سکتی ہے بھائیوں کے مطالبے کو لے کر اشرف نے ملک رحمت سے ملاقات کی کہ میری برادری اسی صورت راضی ہو سکتی ہے۔ اگر آپ اپنی لڑکی کا رشتہ بدلے میں مجھے دیں۔ آپ کس لڑکے کے لیے بدلے میں رشتہ لینا چاہتے ہیں؟ ملک نے سوال کیا۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی لڑکا تو موجود نہیں ہے اور میری ایک ہی لڑکی ہے جس کو آپ ہو بتاتا چاہتے ہیں سو یہ شرط برادری کی اس صورت پوری ہو سکتی ہے کہ میں صائمہ کو آپ کی ہو بتا منظور کر لوں اور آپ اپنی لڑکی کو میرے ساتھ بیاہ دیں دوسری صورت میں ہماری طرف سے انکار سمجھیں۔ رحمت کو اشرف کی بات ناگوار گزری۔ تاہم وہ مصلح خاموش ہو گیا کیونکہ اس کو بیٹے کی خوشی ہر حال مقدم تھی۔ اس نے گھر آکر بیٹے کو لڑکی والوں کی شرط سے آگاہ کر دیا بیٹے نے برا ماننے کے بجائے باپ سے کہا بابا جان آپ نے مذابی بی کی شادی بھی تو کرتا ہے اس کی عمر
کافی ہو چکی ہے
اس کو زمیندار کے نکاح میں دینے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی اس طرح اگر اشرف کی اولاد ہوئی بھی تو ملکیت ہمارے ہی پاس آجائے گی آپ اس معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کریں آیا مجھ سے دس برس بڑی ہے اور اشرف اس سے پندرہ برس ہی بڑا ہو گا کچھ دنوں کے بعد ملک رحمت راضی ہو گیا سوچا کہ رضوان صحیح کہتا ہے کب تک بیٹی کو بٹھائے رکھوں گا جبکہ اب تو مدرا کی شادی کی عمر بھی نکلی جاتی ہے اس نے اشرف کو پیغام دے دیا کہ مجھے تمہاری شرط منظور ہے میں رشتہ دینے کو تیار ہوں جب اس بات کا علم اورا کے ماموں کو ہوا وہ پریشان ہو گیا۔ کیونکہ عذرا اس کے بڑے لڑکے کی منگیتر رو چکی تھی۔ مگر اس کے بیٹے نے شہر جا کر اپنی مرضی سے شادی کر لی تھی۔ وہ بہنوئی کے پاس آگیا اور کہا کہ تم مدرا کی شادی کسی اور سے نہیں کر سکتے۔ میرے لڑکے کے نام ہو چکی ہے اور اس کے ہم رہے گی۔ کیسی بات کرتے ہو قاسم جب تمہارے لڑکے نے خود میری لڑکی کو رد کر کے دوسری جگہ شادی کرلی ہے تو پھر اس کے ساتھ منگنی کہاں باقی رہ جاتی ہے ؟ کیا اب میں اس کا کسی اور جگہ شادی نہیں کر سکنک عمر
پھر اس کو اپنے در پر بٹھائے رکھوں گا۔ اس وجہ سے کہ بچپن میں اس کی مشکلی تمہارے بیٹے سے ہو گئی تھی۔ تم جانتے ہو کہ ہمارے ہاں مرد اور جگہ شادی کر لیتے ہیں مگر وہ اپنی منگیتر سے دستبردار پھر بھی نہیں ہوتے
مرد دوسری شادی کرتے ہیں اور عذرا سے میرے مزمل کی دوسری شادی ہو گی میں ابھی جا کر برادری کو اکٹھا کرتا ہوں اگر انہوں نے اس بات سے اختلاف کیا تو پھر تمہارا اختیار ہے کہ جو چاہے کرو ماموں کی باتیں سن کر رضوان سخت پریشان ہوا کیونکہ اس کا باپ ادھر اشرف کو ہاں کہہ آیا تھا۔ اب اگر یہ لوگ عذرا کارشتہ اشرف کو دینے سے پیچھے ہے تو لازم تھا کہ ادھر سے بھی انکار ہی سننے کو ملتا تب تو رضوان کی جان پر بن جاتی اس نے باپ کو ایک بار پھر سمجھایا کہ ماموں کو من مانی کرنے دو عذرا کو وہ مزمل سے بیاہتے ہیں اور بیٹے کی دوسری شادی کرتے ہیں تو اس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے مدرا کی بجائے سلمہ کو اشرف کے عقد میں دے دو تمہاری دونوں لڑکیاں اپنے گھر کی ہو جائیں گی اور صائمہ کا رشتہ میں مل جائے گا رضوان بیٹے پہلے والی بات تو تھی تمہاری تجویز میرے جی کو لگی لیکن اس بار رشتہ مناسب نہیں رہے گا سلمہ بہت چھوٹی ہے۔ اشرف تو اسے تمھیں بتیس برس بڑا ہو گا۔ بابا جان ہم بھی ماموں سے مخالفت مول نہیں لے سکتے نہ اس کا برادری پر زور چلتا ہے۔ وہ میری شادی کبھی اشرف کی بیٹی سے نہ ہونے دے گا۔ بیٹے کی منت سماجت سے رحمت کا دل معلمی میں آگیا۔
لڑکیاں ہوتی کس لیے ہیں اپنے بھائیوں پر قربان ہونے کے لیے ، یہ کوئی نئی اور انہونی بات تو نہ تھی جو رضوان رہا کہہ رہا تھا کچھ کشمکش کے بعد رحمت نے سلمی کو اشرف کے عقد میں دینا قبول کر لیا کیونکہ اشرف بھی تو زمیندار تھا اور دریا میں رہ کر مگر مجھ سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سلمہ باپ اور بھائی کے اس فیصلے سے بے خبر سارا دن کھیتوں میں بھاگتی پھرتی۔ اس کے ابھی کو دھنے کھیلنے کے دن تھے سلمہ کی ماں ایسا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ اس کی شادی اپنے چھوٹے بھائی کے بیٹے سلیم سے کرنا چاہتی تھی جو گاؤں کا سنجیلا اور بہادر جوان تھا وہ بھی سلمہ کو پسند کرتا تھا تاہم چورہ برس کی سلمہ ابھی تک پسند کے مفہوم سے نا آشنا تھی سلمہ کی ماں بھی اسی نظام کی بھینٹ چڑھی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی بیٹی کی طرفداری نہ کر سکی اور یوں رحمت رضوان کی خوشی پوری کرنے کی خاطر بیٹی کو ایک بوڑھے کے عقد میں دینے پر راضی ہو گیا ہے شرط اشرف لڑکی سے عمر میں دگنے سے بھی زیادہ بڑا تھا لیکن کردار سے شریف آدمی تھا حسن کمی کی تو عمری کا خیال رکھا اس کو بہت محبت دی اور پانی کی طرح رکھا سے گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتا تھا اور گھر والوں سے اس کی عزت بھی کرواتا تھا اس کو سیر و تفریح کے لیے شہر گھمانے پھرانے لے جاتا جو زیور کپڑا سلمہ پسند کرتی وہ خرید کر دیا تھا
سلمہ ابھی پکی تھی اسکی شخصیت خود نخود اسی طرح ڈھل گئی جیسا کہ شوہر نے چاہا وہ بھی اشرف کی دل سے عزت و خدمت کرتی اس کی فرمانبردار رہتی تھی بھلا اشرف کو اور کیا چاہیے تھا سلمہ کی جب شادی ہوئی اس کے ارمان نہیں جاگے تھے من میں کوئی نہ تھا تبھی اس نے اپنے عمر رسیدہ شوہر کو بھی دیو تلمان لیا تا ہم کبھی کبھی اشرف کو یہ احساس شدت سے ہو تا تھا کہ سلمی اس کی بیٹی صائمہ سے بھی چھوٹی ہے اور یہ رشتہ بے جوڑ ہے۔ رضوان کو تو صائمہ مل گئی وہ اپنی من چاہی بیوی پا کر بہت خوش تھا اس کو اس بات سے کچھ سروکار نہ تھا کہ سلمہ عمر رسیدہ شوہر سے وہاں خوش ہے یا نہ خوش۔ اس سارے فسانے میں اگر کسی کا کچھ لٹا تھا۔ تو وہ سلیم تھا۔ جو دل سے سلمہ کو چاہتا تھا وہ بہت اداس رہنے لگا تھا رحمت کے گھر آنا جانا ہی ترک کر دیا تھا اس کو ہر لمحے سلمہ کی یاد ستاتی تھی۔ کچھ عرصے بعد جب وہ ان اداس رہنے والی یادوں سے بہت ٹوٹ گیا تو ایک دوست کے توسط سے دینی چلا گیا۔ سلمہ جو جو بڑی ہو رہی تھی وہ شعور کی منازل طے کرتی جارہی تھی اب اس کو محسوس ہونے لگا کہ اس کی زندگی میں کوئی خلا ہے وہ کچھ بے چین ہی رہنے تھی کبھی اشرف کے بڑے سے گھر میں بو کھلائی ہو کھلائی سی پھرنے لگتی یہ بات اشرف نے بھی محسوس کرلی۔ سردیوں کے موسم میں چاندنی اس کو بے قرار کرتی اور اشرف اب زندگی کے اس دور میں تھا جب یہ ساری چیزیں اس کے لیے خشش نہ رکھتی تھی
وہ چاہتی اس کا شوہر حسین موسم میں بارش کی بوندوں کو چہرے پر پڑنے دے اور اس کے حسن کی تعریف کرے لیکن سب کچھ نہیں کرتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس کی ان بچگانہ خواہشات پر سلمہ کو ڈانٹ بھی دیتا تھا۔ جب وہ دل چھوٹا کر لیتی اور کبھی خود کو ملامت بھی کرتی لیکن اس کے دل میں پھر سے نہ جانے کیسے کیسے خیالات آنے لگے تھے۔ اس کی بڑھتی عمر نے سلمی کو اور بھی حسین اور دلکش بنا دیا تھا۔ اس کو بناؤ سنگھار کا طریقہ بھی آگیا تھا۔ جب اس کے عین شہاب کے دن آئے۔ اسکا شوہر بیمار پڑ گیا اور تبھی اس کی بہاری نے تول پکڑ لیا سلمی اپنے جیون ساتھی کی بہاری سے بہت پریشان ہوئی اس نے جی جان سے اشرف کی خدمت کی سلمی چاہتی تھی کہ وہ جلد از جلد ٹھیک ہو جائے۔ خدا کی کرنی کہ جتنا اشرف کا علاج ہو رہا تھا اتنی اس کی بیماری بڑھتی جاری تھی . وہ شوہر کی حالت سے ہو اس باختہ ہو گئی۔ اس کو اپنا بھی ہوش نہ رہا۔ دن رات اشرف کی تہہ داری میں کھپتی گئی۔ اب بڑے میاں کو شدید احساس ہوا۔ اس معصوم کلی سے شادی کر کے بہت زیادتی کی ہے اپنی عمر کی عورت ہی سے دوسری شادی اس کو زیب دیتی تھی۔ اب اس نے سوچا کہ موت تو برحق ہے اگر سلمہ بھری جوانی میں بیوہ ہو گئی تو اس کی کون سی راہ ہے اسی سوچ کے پیش نظر اس نے اپنے بھائیوں اور سلمی کے بھائی رضوان کو بلوایا اور کہا کہ میں اپنی آدھی زمین سلمی کے نام کرتا ہوں۔
تاکہ میرے بعد یہ بھی اچھی زندگی گزار سکے اور سسرال میں اس کی قدر اسی طرح ہی رہے جیسے کہ اب میرے ہونے پر ہے اگر میرے بعد یہ شادی کرنا چاہے تو بھی اس کی ملکیت میں جو زمین دے کر جارہا ہو وہ زندگی بھر اس کی ملکیت رہے گی بعد میں یہ جب چاہے میری نیکی کو دے لیکن کوئی اس کے نام لکھی گئی زمین اس کی مرضی کے بغیر نہیں لے گا ور نہ قیامت کے دن میں اس کا گریبان پکڑوں کا اشرف کی زندگی کے دن گنے جاچکے تھے وہ آدمی ملکیت بیوی کے حوالے کر کے چل بسا کیونکہ سلمی کے بدن سے اشرف کی ایک بچی بھی تھی لہذا اس کو اس نھی کلی کا تحفظ بھی مطلوب تھا اشرف کی وفات کے بعد سلمہ اپنی پکی سائرہ کے ساتھ سرال میں ہی رہتی تھی کچھ وقت گزرا کہ اشرف کے بھائیوں نے زمین سلمہ سے واپس لکھوانی چاہی کیونکہ بھروسہ نہ تھا کس کو لکھ دے سلمی نے حالانکہ واضح کر دیا تھا کہ یہ ملکیت وہ سائرہ کو دے گی کیونکہ باقی آدھی میں سے جو شرعی حصہ صائمہ کو آتا ہے وہ اس کو مل جائے گا مگر لانچی دیوروں کو یہ کب گوارا تھا۔ وہ تو چاہتے تھے کہ اشرف کی بیٹیوں کو بھی اس درافت سے محروم ہی رکھیں۔ اور تمام زمین اپنے نام کر لیں۔ اس معاملے میں اگر کوئی خار بن کر کھٹک رہا تھا۔ وہ ان کی بھیجی صائمہ کا شوہر تھا۔
جو سلمی کا سگا بھائی تھا اس کے دیوروں نے تبھی رضوان کو بھی ساتھ ملا لیا کہا کہ تمہاری بیوی کا حصہ اس شرط میں ملے گا اگر تم اپنی بہن سے زمین لکھوالو ہم تمام ملکیت بانٹ لیں گے آدمی تم لے لیتا اور آدھی ہم لے لیں گے سلمہ جوان ہے اس کی شادی کرا دینی چاہیے۔ اس کی بچی سائرہ کو ہم خود پروان چڑھائیں گے . وہ ہمارے بھائی کی اولاد ہے۔ اس کی دیکھ بھال کا حق مارا ہے۔ رضوان تو پہلے ہی اسی فکر میں تھا۔ باپ کی جائیداد سے صائمہ کو اس کے حصے سے محروم کر دیا جائے گا اور اشرف کے بھائی آسانی سے حصہ لینے نہ دیں گے شاید مقدمہ کرنا ہو گا مقدے پر نہ تو صائمہ تیار تھی اور نہ رضوان میں اتنا دم تھا کہ وہ اپنے سر کے بھائیوں کے مقابل مقدمہ لڑتا کہ وہ خود آدمی ملکیت اس کی بیوی کو دینے پر راضی تھے تو رضوان اور اس کے بچے کا فائدہ اسی میں تھا کہ وہ صلح صفائی سے ان لوگوں کی بات مان لیں ورنہ یہ لوگ آسانی سے وراثت بیٹیوں اور بہنوں کو دینے والے نہیں تھے جب دیکھا کہ کام اتنا آسان ہو گیا ہے تو وہ سلمی کے دیوروں سے مل گیا۔ اس طرح ان سب نے سلمہ سے واپس ملکیت لینے کا پلین بنالیا۔ اپنے سگے بھائی رضوان اور دونوں دیوروں کے ارادوں سے بے خبر بیچاری سلمہ ابھی تک ہو گی کی چادر اوڑھے دکھ کے اور میرے میں دفن تھی وہ رو رو کر اپنی بیٹی کو گلے لگاتی جو اس کو تسلی دینے کے قابل بھی نہ تھی ایک دن سلمہ کا دیور اس کے پاس آیا کہنے لگا بھا بھی زمین بھائی نے تمہاری دل جوئی کی خاطر تمہارے ہم کی تھی شاید انہوں نے ہم پر اعتبار نہ تھا اب تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ زمین واپس کر دو
سلمہ خاموش تھی سوچا کہ پہلے رضوان بھائی سے مشورہ کر لوں تو ان لوگوں کو جواب دوں اس بات کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس کا بھائی آیا اور بہن کے پاس بیٹھ گیا. تھوڑی دیر موردی کی پھر اصل موضوع کی طرف آگیا۔ کہا کہ یہ زمین جو تمہیں ملی ہے وہ میری بیوی کے حصے کی بھی ہے میری بیوی بھی اشرف کی اولاد ہے ۔ اشرف نے اس کے حصے کی زمین تو اس کو لکھ کر نہیں دی ہے۔ اب اگر اس کے چہانے حصہ نہ دیا تو میں کہاں مقدمہ لڑتا پھروں گا۔ بہتر ہے کہ تم اپنے ھے میں سے آدمی زمین مجھے لکھے دو۔ اس کی بات سن کر وہ پریشان گی۔ ان سب کو یہ کیا ہو گیا ہے۔ یہ اس قدر لالچی ہو گئے ہیں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ زمین کسی کو نہیں لکھ دے گی بلکہ اپنا اور اپنی بیٹی کا تحفظ کرے گی بھائی نے دیکھا کہ بہن مطالبہ نہیں مان رہی وہ وہ اس کے دیوروں سے جا کر مل گیا دوسرے دن جبکہ یہ سب حال کمرے میں بیٹھے میٹنگ کر رہے تھے کہ سلمی کی زمین کیسے اسے واپس لی جائے اس کی دیورانی نے ساری باتیں سن لی وہ نیک دل صورت تھی خوف خدا کھتی تھی سلمہ کو آگاہ کیا کہ تم اگر ان کی وہ زمین لکھ کر نہ دو گی تو وہ تمھیں مار کر قصہ ختم کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں افسوس کہ تمہارا سگا بھائی بھی اس پلین میں شامل ہے اب یہ تمہارا ملکیت کا تحفظ کون کرے گا دیکھو بہن تمہاری زندگی زمین سے زیادہ قیمتی ہے اور تمہاری پکی کو زمین کی نہیں اس وقت تمہاری ضرورت ہے یہ لوگ اپنے سفاک عزائم میں کامیاب ہو گئے تو کیا ہو گا یہ سن کر سلمہ ڈر گئی۔
دوسرے دن اس نے بھائی اور دیوروں کے نام دس دس لگے زمین لکھ دی جو اس کی شرعی حق جتا تھا اور باقی ملکیت کے بارے میں کہا کہ یہ میری پکی سائرہ کی ہے۔ اور وہ تبالغ ہے جب اٹھارہ برس کی ہو جائے گی۔ اسکے نام کر دوں گی یہ میری پکی کی طاقت میرے پاس اس کا باپ رکھوا کر گیا ہے میں اس کو کسی اور کے حوالے نہیں کروں کی انہی دنوں سلیم بیرون ملک سے گاؤں لوٹ آیا اس نے جب سلمی کے بیوہ ہو جانے کا سنا تو اس کے شوہر کی تعزیت کو اس کے پاس گیا۔ سلمہ نے اس کو تمام احوال سے آگاہ کیا۔ وہ بہت سال سے بیرون ملک نوکری کر رہا تھا۔ اور کافی دولت کما کر لایا تھا۔ اس نے سلمہ کو دلاسہ دیا کہ تم حوصلہ رکھو میں پہلی فرصت میں کسی وکیل سے مشورہ کرتا ہوں ۔ دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں ابھی سلمہ پچھلے واقعے کو با مشکل بھول پائی تھی کہ اس کا جیٹھ بھی آگیا کہا کہ جب تم نے ان تینوں کو زمین لکھ دی ہے تو باقی زمین مجھے ملنی چاہیے کیونکہ میں بڑا بھائی ہوں میں ہی تمہارا اور تمہاری بیٹی کا سر پرست ہوں. تم عورت ہو تم زمین کا کیا کروگی میری بیوی وفات پاچکی ہے۔ تم مجھ سے نکاح کر لو تاکہ میں تمہیں اور تمہاری بیٹی کو تحفظ دے سکوں. جیٹھ کی بات سن کر سلمہ صدمے میں رہ گئی وہ تو جیٹھ کو بڑا
بھائی مانتی تھی۔
تو سلمی نے سلیم کو اگاہ کیا کہ بات ایسے ہوئی ہے تو سلیم کہنے لگا جیٹھ تو تمہارے مرحوم شوہر سے بھی بڑا ہے اور ابھی تمہاری عمر تیمیں بنتیں سال ہے۔ میں تمہارا ہم عمر ہوں. تم مجھ سے نکاح کر لو یہ بوڑھا کیا تمہیں تحفظ دے گام سلمہ کو بھی سہارا چاہیے تھا۔ وہ بولی ٹھیک ہے میں راضی ہوں تو پھر میں نکاح کا بندوبست کرتا ہوں کہ لیکن میرے سسرال والے ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ نکاح پہلے خفیہ ہو گا۔ بعد میں معاملات سدھار لوں گا۔ سلیم نے کہا خالہ کے بیٹے کی شادی تھی۔ سلمہ شادی میں شرکت کرنے کے لیے میکے گئی۔ ماں کو تمام احوال سے آگاہ کیک وہ ساتھ دینے کے لیے کہا وہ راضی ہو گئی اور اس نے سلیم کے والد یعنی اپنے بھائی کو راضی کیا اس طرح سلمہ کا نکاح اس کی ماں اور ماموں نے سلیم سے کرا دیا یہ کام انہوں نے بہت خاموشی اور اور رازداری سے کیا حتی کہ سلمی کے بھائیوں کو بھی علم نہ ہونے دیا تھا بہت راز داری برتنے کے باوجود گاؤں میں کسی طور یہ بات نکل گئی کہ سلمی کا نکاح سلیم سے ہوا ہے خبر اس کی جیٹھ اور دیوروں تک بھی پہنچ گئی وہ آگ بگولہ ہو گئے انہوں نے سلمہ کے والد کو بلایا اور کہا کہ تمہاری بیٹی نے نکاح کر لیا ہے اور یہ ہماری بے عزتی ہے اب تو اس کو ہماری بھیجی سائرہ اور اس کی زمین ہمارے حوالے کرنا ہو گی کیونکہ وہ اب ہماری بھا بھی نہیں رہی ہے تو اس گھر میں بھی قدم نہیں رکھ سکتی
حیرت تو یہ تھی کہ اس مخالفت میں خود رضوان پیش تھا کہ جس کی خوشی پوری کرنے کے لیے باپ نے بیٹے کو قربان کیا تھا وہ اب پچھتا رہا تھا کہ سلمہ کی زندگی برباد کی اور اب یہ لوگ اس سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں سلمہ کو سمجھایا کہ تم زمین واپس دے کر زندگی بچالو ورنہ وہ تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔ سلمی نے کہا میں نا تو بیٹی ان کو دوں گی اور تا زمین، یہ میری بیٹی کی ہے اس کو دوں گی جو میرا حصہ تھا اس سے بھی زیادہ ان کو واپس کر چکی ہوں۔ اب اگر وہ جان لینا چاہتے ہیں تو لے لیں۔ پپ بیٹی کی ضد دیکھ کر لوٹ گیا۔ کہا کہ پھر میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑتا ہوں اگر تمہاری طرف داری کی تو وہ اپنی بیٹی لے جائیں گے اور رضوان کا گھر اجڑ جائے گا۔ میں پوتے پوتیوں کو ماں سے جدائی کا دکھ نہیں دے سکتا۔ ایک رات سلمہ کو دیورانی نے جگایا اور کہا کہ اب تو یہاں کس لیے رو رہی ہے بچی میرے سپرد کرو اور اس گھر سے چلی جاؤ وہ آج رات تمھیں ختم کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ پکی تو یوں بھی تیرے بن رہ جائے گی وعدہ کرتی ہوں ماں بن کر اس کی دیکھ بھال کروں گی۔ اس نے سلمہ کو کھیتوں میں چھپانے کا انتظام کر دیا سردی میں رات بھر زندگی بچانے کی خاطر کو وہ کھیتوں میں چھپی رہی دور سے آتی کتوں کی خوفناک آوازیں اور خوف بھرا اند میرا تھا اور وہ دیورانی کے ڈرانے پر زندگی بچانے کو سردی میں ٹھٹھر رہی تھی کچھ فاصلے سے آئی
آئی قدموں کی چاپ سنی یہ موت کی آہٹ نہیں اس کے بھائی اور دیور تھے جو اسے کھیتوں میں ڈھونڈتے پھر رہے تھے مات دو ڈھائی بجے تک یہ لوگ اس کو ڈھونڈتے رہے جب تھک گئے تو گھر جا کر سو گئے جب صبح طلوع ہونے سے قریب اس کی دیورانی نے اپنے پرانے بوڑھے ملازم چراغ دین کو بھیج کر اس کو اس جگہ سے نکالا جہاں وہ چھپا دی گئی تھی نوکر نے اس کو شہر لا کر دارلامان میں چھوڑ دیا جب وہ گھر سے غائب ہوئی تو رضوان نے سلیم پر پرچہ کٹوا دیا کہ وہ اس کی بہن کو لے کر غائب ہو گیا ہے مگر اس کے دیوروں نے کھوج نکال لیا کہ سلمہ دار الامان میں ہیں وہ وہاں اس سے ملنے پہنچ گئے انہوں نے حملے کو کچھ دیر دلا کر سلمہ سے ملاقات کی اور ایک بار پھر پیشکش کی کہ اگر وہ جیٹھ سے شادی کر لے تو اس کو پھر سے عزت دیں گے اور زمین بھی واپس نہ لیں گے سلمی نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کو بتایا کہ وہ اب سلیم کی منکوحہ ہے لہذا جیٹھ سے شادی نہیں کر سکتی البتہ زمین گورنمنٹ کی تحویل میں دے سکتی ہے تا کہ جب اس کی بیٹی بالغ ہو جائے تو اس کی وراثت اس کو مل جائے اب تو دیوروں کا حصہ اور زیادہ ہو گیا تھا بہر حال سر توڑ کوشش پر بھی ان کا بس نہیں چلا کہ وہ سل می کو دار الامان سے لے آتے کیس عدالت تک پہنچ گیا۔ عدالت میں کیس کا فیصلہ سلمی کے بیانات سننے کے بعد اس کے حق میں ہو گیا۔
اور اس کو سلیم کے ساتھ جانے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق بھی مل گیا۔ عدالت نے اس کو اس کے شوہر سلیم کے حوالے کر دیا اور بچی کو بھی اس کی تحویل میں دینے کا حکم صادر کر دیا کیونکہ وہ ابھی ماں کے ساتھ رہ سکتی تھی سلمہ اور سلیم بچی کے ہمراہ کسی دور کے شہر جا کر رہنے لگے تاکہ ان سب لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں جو ان کی جان لینے کے در پر تھے اور وقت گزرنے سے ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے آج اس بات کو سات بریں گزر چکے ہیں سلیم کے ساتھ سلمی اپنی زندگی جنسی خوشی ہی رہی ہے وہ اپنی پرانی زندگی سب کچھ بھول چکی ہے سلمی کی اب ایک بیٹی سائرہ نہیں بلکہ اللہ تعالی نے اسے سلیم سے دو اور بیٹیاں بھی عطا کی ہیں اب وہ اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ اور اپنے شوہر سلیم کے ساتھ ایک جنسی خوشی زندگی جی رہی ہے۔