دلچسپ و عجیب

میں بہت آزاد خیال لڑکی تھی میری زندگی میں تین لڑکے آئے اور تینوں ہی

میں بہت آزاد خیال لڑکی تھی میری زندگی میں تین لڑکے آئے اور تینوں ہی مجھے اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر دھو کہ دے کر چلے گئے میں اپنے محلے میں بری طرح بد نام ہو چکی تھی میرے والدین نے لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر میری زبر دستی شادی کروادی شادی کی رات جیسے ہی میرے شوہر نے میرا گھونگھٹ اٹھایا تو اسے دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کیونکہ وہ تو میرا۔۔۔۔۔۔ والدین نہایت ایماندار اور کھلے ذہن کے تھے۔ سکول کی تقریبات میں حصہ لینے سے منع نہیں کرتے تھے. انہوں نے ہم کو اچھا کھلایا پہنا یا جس چیز کی خواہش کی پوری ہوئی کسی قسم کی کوئی حسرت نہ رہی تو طبیعت میں اطمینان آگیا۔ سکول میں ایک لڑکا زبیر نام کا تھا۔ اس کا گھر ہمارے پڑوس میں تھا۔

دل اور ہمدرد قسم کا تھا، جب بھی باہر نکلتی محلے کے چند بد معاش لڑکے آواز میں کہتے یا چھیڑنے کی کوشش کرتے تو زبیر جو قریبی کہیں موجود ہو تا باہر آجاتا اور ان لڑکوں سے جھگڑ پڑتا۔ ان کی بے عزتی کر دیتا۔ دو چار بار جب اسی طرح ہوا تو دل میں زبیر کی قدر و قیمت بڑھ گئی۔ ہوتے ہوتے اس ہمدردی نے دوستی کا روپ دھار لیا لیکن ہمارے گھر کا ماحول ایسانہ تھا کہ لڑکوں سے دوستی کی جاسکتی کیونکہ اس قسم کی دوستی کو نبھانا مشکل تھا سو میں نے قدم آگے نہ بڑھایا بس دل ہی دل میں زبیر کا احترام کرتی اور اس کو یاد کرتی تھی ایک روز لبنہ نے زبیر کا نمبر دیا کہ ذرا اس سے بات کر لو منتیں کر رہا ہے کہ نمبر پہنچا دو میں نے دو روز تک بات نہ کی تو وہ بولی تم کو نمبر دیا تھا

اس بار بات کیوں نہ کی زبیر بیمار ہے یہ بات سچ ہے کہ سہیلیاں ہی زندگی میں انقلاب لاتی ہیں. کبھی کامیابی تو کبھی تباہی اور بربادی کا سبب بنتی ہیں جب لبنہ نے کہا کہ زبیر بیمار ہے تو میں فکر مند ہو گئی اور بے اختیار فون ملا لیا۔ یوں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے بات ہو گئی. اس نے بتایا کہ میں نے لبنہ کو نمبر نہیں دیا تھا کیونکہ تمہارے گھر کے ماحول کو جانتا ہوں یہ کام اس نے خود کیا ہے میں بیمار بھی نہیں ہوں بہر حال تم نے فون کیا تو مجھے خوشی ہوئی ہے اور اب تم مجھے فون کرتی رہا کرو تا کہ خیریت معلوم ہوتی رہے۔ پھر میں امی سے چوری چھپے فون کرنے لگی لیکن ایک دن انہیں پتہ چل گیا کہ میں فون پر کسی لڑکے سے باتیں کرتی ہوں۔

انہوں نے نگرانی شروع کر دی اور فون کرنے سے منع کر دیا۔ تبھی ایک روز لبنہ آئی اور کہا کہ زبیر بہت پریشان ہے. اس نے پوچھا ہے کہ تم فون کیوں نہیں کرتی ? خیریت تو ہے امی کو پتہ چل گیا ہے ۔ وہ فون تالے میں رکھتی ہیں. میں نے بتایا. لبنہ زبیر کے پڑوس میں رہتی تھی. میں اس کو پیغام دینے لگی یہ اس کے اور میرے درمیان وہ رابطہ بن گئی وہ مخلص نظر آتی تھی صرف اپنی باتوں کی وجہ سے لیکن دل سے مخلص نہ تھی میں اس کو قابل اعتماد سمجھتی تھی یہ بعد میں پتہ چلا کہ وہ کتنی منافق ہے پہلے پہل وہ اچھی بنی رہی اور پھر رفتہ رفتہ میرے اور زبیر کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہو گئی۔ ایک دن امی نے لبنہ اور میری باتیں سن لیں. انہوں نے جو تا اٹھالیا اور خوب مارا لبنہ سہم گئی۔ بہر حال اس بات کا اس نے فائدہ اٹھایا۔

ہمارے ہاں آنا چھوڑ دیا۔ زبیر سے خوب دوستی ہو گئی. مجھے کانوں کان خبر نہ ہوئی اور لبنہ نے میرے خلاف باتیں کر کے مجھے کو خوب بد نام اور سب کو بد ظن کر دیا. جب اس کی سہیلی رافعہ نے مجھے بتایا کہ لبنہ تمہارے بارے میں ہر قسم سے کیا کہتی پھرتی ہے مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے موقع ملتے ہی زبیر کو فون کیا کہ اس کو یہ سب بتاؤں مگر اس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ لبنہ غلط نہیں کہتی . تم واقعی بری لڑکی ہو سب ہی تو گلی محلے کے لڑکے تم کو چھیڑتے تھے، وہ لعنہ یا اور کسی لڑکی کو کیوں نہیں چھیڑ تے جب لڑکی خراب ہوتی ہے جب ہی خراب لڑکے اس کے پیچھے پڑتے ہیں ایسا ساتو میر ادل پھٹنے لگا وہ شخص جو مجھ کو محلے کی سب سے اچھی لڑکی سمجھتا تھا

وہی آپ سب سے بری کہہ رہا تھا اف میرے خدا کیا لوگ اتنی جلدی دوسروں کی باتوں میں آ جاتے ہیں تو پھر اعتبار کس کا ایک جنسی میرے دل سے نکل گئی عہد کیا کہ خود کو مٹا دوں گی کلیجے پر پتھر رکھ کے سر رکھ لوں گی مگر اب کسی سے دوستی کا خیال بھی دل میں نہ لاؤں گی۔ بس ایک دوستی ہی کافی ہو گئی تھی۔ کم سنی میں اگر کوئی اچھا لگے تو دل اور ذہن میں انقلاب بر پا ہو جاتا ہے۔ یہ زخم ایسے ہوتے ہیں کہ گھاؤ پھر کبھی بڑھتے ہی نہیں اسے جتنا بھلانا چاہانہ بھلا سکی، کاہل دل کامل رہا اب لبنہ مجھے زہر لگتی تھی۔ میری کلاس فیلو تھی مگر اس کے ساتھ بات کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ وہ ابھی جب کلاس میں آتی دور بیٹھتی مگر زیر لب مسکراتی تھی۔ میٹرک کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئی۔ کہتے ہیں عورت پہلی محبت کو بھلانے کے لیے دوسری محبت میں بھی پہلی محبت کے آثار تلاش کرتی ہیں۔

مگر میں نے زبیر کی بے وفائی کو ایسے دل سے لگا لیا کہ بیمار پڑ گی انہی دنوں میٹرک کا رزلٹ آگیا اور میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی ماں باپ نے مجھے اداس دیکھا بہت سمجھایا کہ زندگی کی حقیقتوں کو سمجھو اور اپنے مستقبل کے متعلق سوچو اسی دوران میرے تایا زاد ذیشان نے ایل ایل بی کر لیا، مجھ کو بچپن سے پسند کر تا تھا۔ اس کارشتہ میرے لیے آیا مگر میں نے انکار کر دیا، کیونکہ میر ادل زبیر کو یاد کر کے روتا رہتا تھا۔ میں بری لڑکی نہیں تھی محنتی بھی بہت تھی . زبیر سے شدید محبت کی تھی پھر میں مجرم بن گئی۔ محض لبنہ کی وجہ سے جب کالج میں قدم رکھا تو کچھ دل بہل گیا۔ ایک سال تو آرام سے گزر گیا مگر دوسرے ہی سال میری زندگی میں عجب موڑ آیا۔ میں ان میں انگریزی میں چل نہ پارہی تھی۔

روز امی ابو سے کہتی کہ مجھ کو ٹیوشن لگوادیں ورنہ فیل ہو جاؤں گی . تب انہوں نے اکیڈمی میں داخلے کے لیے اجازت دے دی۔ یہاں کا ماحول کھلا تھا مگر میں اپنے کسی کلاس فیلو سے فری نہ تھی۔ بس ضرورت کے تحت بات کر لیا کرتی تھی۔ مگر ایک لڑکا تھا جو مجھ سے بات کرنے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ اتفاق یہ کہ وہ زبیر کا ہم شکل تھا اور بولنے کا انداز بھی بالکل اس جیسا تھا۔ اسی لیے میری نظر میں بار بار اس کے چہرے کی طرف اٹھتی تھی اس کو گٹار بجانے کا شوق تھا اور میں نے پیانو سیکھا تھا ہماری دلچسپی مشترک تھی میں اس کی باتوں کا جواب دینے لگی ہماری اکثر بر یک میں موسیقی پر بات ہونے لگی یوں آہستہ آہستہ ہماری دوستی ہو گئی ہم بہت خوش تھے۔ شاہ زمین نے اپنی ماں سے بھی مجھے ملوا دیا اور وعدہ کیا کہ وہ اپنی ماں کو رشتے کی بات کرنے ضرور بھیجے گا۔

یہ ایک سیدھی سادھی سچی دوستی کی ابتدا تھی۔ جس میں شاہ زین کی طرف سے شادی کا تصور بہت واضح تھا۔ اس کے والد امریکہ میں تھے وہ ایک لائیک آدمی تھے بہت اچھا ان کا بزنس تھا اور کافی رقم اپنی فیملی کو بھجواتے رہتے تھے شاہ زمین پر سکون ماحول کا پروردہ اور مثبت سوچوں کا حامی لڑکا تھا۔ کافی خوش مزاج تھا۔ تب ہی ہمارے دو سال ایک خوشگوار تعلق کے ساتھ گزر گئے اور وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا۔ اب میں بی اے میں تھی اور شہر کے بہترین کالج میں پڑھ رہی تھی۔ میں نے بی اے اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ اچانک ایک دن شاہ زین نے مجھے کو ایک بری خبر سنادی جو اس کے لیے اچھی تھی کہ وہ سکالر شپ پر پڑھنے بیرون ملک جارہا تھا اس خبر سے میرا پریشان ہو نالازمی تھا کیونکہ زبیر کی یاد کی تاخیر نے میر اسانس بند کیا ہوا تھا ایسے جس کے عالم میں شاہ زین کا ساتھ ایک خوشگوار جھونکے کی مانند تھا، اس کی دوستی میں میں نے زبیر کو

بھلا دیا تھا۔

شاید مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ بھی ایک روز مجھ سے دور چلا جائے گا۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ خط لکھے گا فون بھی کرے گا میں نے امی کو اس کے متعلق بتا دیا کہ وہ اپنی والدہ کو رشتے کے لیے بھیجے گا مگر وہ تو چلا گیا اور میں منہ دیکھتی رہ گئی شروع میں بے شک اس نے مجھ کو نہیں بھلایا اور اپنے وعدے پر قائم رہا با قاعدگی سے خط لکھتا تھا فون بھی کر تھا۔ لیکن پھر اس کی خط کم ہونے لگے۔ فون بھی کم ہوتے جارہے تھے۔ ان دنوں میں سخت مضطرب تھی اور کسی نئی دکھ سے آشنائی کے خوف سے کبھی رہتی تھی. پھر وہ دن آہی گیا جب اس نے مجھے ایک آخری خط لکھا جس میں التجا تھی کہ تم مجھے بھول جاؤ۔ میری بہت مجبوریاں ہیں اور میں تم کو دھو کے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ میں طویل عرصے تک پاکستان نہیں آسکوں گا اور تم سے شادی بھی اب نہ ہو سکے گی۔ لہذا میرا انتظار مت کرنا اور مجھے معاف کر دینا میں نے تو زندگی بھر اس کا انتظار کرنے کی ٹھان لی تھی۔

اس کی خاطر بہت سے رشتہ داروں کو ناراض کیا جو مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے. میرے لیے خود کشی کرنے کو تیار تھے ۔ ماں باپ الگ ناراض تھے کہ میں اتنی اچھی رشتوں سے انکار کر دیتی تھی اور یہ کہ جانے میں کون سی خوابوں کی دنیا میں رہتی تھی. ایسے کرتے ہی میرے ان گنت رشتے آنے لگے، ہر رشتے پر والدین کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ ظاہر ہے سبھی والدین چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کسی اچھی فیملی میں بیاہی جائے۔ اور ان کے کندھوں سے اس کا بوجھ اتر جائے، جس بوجھ سے ماں باپ کی راتوں کی نیند میں حرام ہو جاتی ہیں. میں لیکن بہت دکھی تھی، لگتا تھا کہ شاید اب میری خوشی کے سارے راستے بند ہو چکے ہیں جن دنوں بی اے کے امتحانات دے رہی تھی میں شام کو کمپیوٹر کالج جوائن کر لیا۔ کیونکہ مجھے اس میں دلچسپی تھی۔ کالج میں ہمارا ایک گروپ بن گیا۔

اور اس گروپ کے ایک لڑکے نے میری اداسی کی وجہ دریافت کی۔ میں نے ٹال دیا وہ باز نہ آیا روز ہی سوال کرنے لگا۔ احسن کے انداز گفتگو میں اس قدر اپنائیت ہوتی تھی کہ ایک دن بالآخر مجھے اس کو اپنی ساری کہانی سنانا پڑی۔ اس نے نہایت ہمدردی سے میری کہانی کو سنا اب وہ میرا بے حد خیال رکھنے لگا جب میں کلاس میں ہوتی اس کی ساری توجہ مجھ پر رہتی لگتا تھا کہ اس کی زندگی مجھ سے جڑ گئی ہے خدا نے میری قسمت ہی ایسی بنائی تھی جب میں اس کی توجہ سے متاثر ہونے لگی تو اس نے مجھے فون کیا کہ ابھی تم کو ایک اور فون آئے گا وہ سن لینا میں خوش تھی کہ شاید احسن کے گھر والوں کا ہو گا اور میری بے کیف زندگی کے دن تمام ہو جائیں گے مگر وہ احسن کے ایک دوست کا تھا

جس نے مجھے پہلے سلام کیا اور احسن کے بارے میں بتایا کہ وہ پڑھنے کے لیے آیا ہے اور پڑھ کر چلا جائے گا اب اس کے خیال میں اپنا قیمتی وقت برباد نہ کریں آپ کون ہیں اور ایسا کیوں کہہ رہے ہیں اس سوال پر اس نے کہا کہ بات تھی کہ جب آپ کو اداس دیکھا تو ہم سب دوستوں میں شرط لگی کہ کون اس لڑکی سے بات کرے گا اور اس کو اپنا بنائے گا تو احسن نے کہا تھا کہ میں تین ماہ لگ کئے مگر احسن یہ شرط جیت گیا یعنی اس نے آپ کو جال میں پھنسا لیا ہے یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی اور میں بے ہوش ہو گئی امی ابو فورا اٹھا کر ہسپتال لے کئے جہاں دو دن میں گھم سوم رہی ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو کوئی ذہنی مسئلہ ہے مگر گھر آکر بہت روئی کہ آخر یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ؟ پھر میں نے ہر کسی سے کلام کرنا چھوڑ دیا

مجھ کو چپ لگ گئی میں ذہنی مریضہ ہو گئی۔ کوئی بات کرتا جواب نہ دیتی لیکن اکیلے میں خود سے باتیں کرتی لوگ مجھے اچھے نہ لگتے تھے بس اپنی ہی دنیا میں رہنے لگی تھی ذہن میں ایک ہی سوال ابھرتا تھا آخر کیوں ہمیشہ میں ہی ٹھکرائی جاتی ہوں جب کہ میں بری لڑکی نہیں ہوں اس سوال کا جواب میں ڈھونڈ نہیں پاتی تھی شاید اس وجہ سے میں ذہنی مریض ہو گئی۔ لگتا تھا جینے کی اس ختم ہو گئی ہے مرد ذات کا اعتبار ختم ہو گیا تھا۔ زبیر سے ملے ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے جو میری زندگی میں پہلی بار کا پہلا خنک جھو نکا تھا اس کے پیار کی خنکی کو آج بھی میر اول محسوس کرتا تھا۔ امی ابو میری حالت پر ترس کرتے تھے۔ سخت پریشان رہتے تھے۔ کبھی کبھی ان کی پریشانی محسوس کر کے مجھ کو شدید دکھ بھی ہوتا۔ پھر آخر میرا ایک رشتہ آیا لڑکا بہت خوبصورت اپنا بزنس کر تا تھا اور یہ لوگ بڑی چاہت سے آئے تھے

ان لوگوں نے اس قدر اصرار کیا کہ والدین انکار نہ کر سکے اور مجھ سے پوچھے بغیر ہی شادی کی تیاریاں شروع کر دیں میں حواس باختہ سے گھر میں پھرنے لگی میری ماں نے مجھے لڑکے کو دیکھنے کے بارے میں کہا مگر میں نے دیکھنے سے منع کیا تو وہ نکاح نامہ سائین کرانے لائے اور میں نے والدین کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے خاموشی سے سائین کر دیے کہ مر وذات میرے لیے سب ایک جیسے تھے جو لڑکی کو بس کچھ دنوں کے لیے اپنا بناتے اور پھر راستہ بدلتے یا پھر بھلا دیتے تھے، نکاح کے بعد رخصتی کی گھڑی آگئی ایک زندہ لاش کو اٹھا کر ڈولی میں ڈال دیا گیا۔ یوں میں پیاگھر چلی گئی شادی کی پہلی رات مجھ پر بہت بھاری تھی۔ دو اجنبی ہاتھوں نے میرا گھونگھٹ اٹھایا تو خوف سے میں نے آنکھیں بند کر لی۔ کچھ لمحات کے بعد آہستہ آہستہ میں نے آنکھیں کھولی تو ایک شناسہ صورت کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔

آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ یہ واقعی زبیر ہے یا میر او ہم کیا اس کا تصور ایسا پختہ ہو چکا ہے کہ ہر صورت میں مجھ کو زبیر کی صورت نظر آتی ہے۔ یہ سب سوچتے ہوئے میرا خون تیزی سے گردش کرنے لگا۔ اور جب زبیر نے میری انگلی میں دکھائی کی وہی انگوٹھی پہنائی جو کبھی میں نے اس کو تحفے کے طور پر دی تھی تو میر ادل اچھل کر حلق میں آگیا۔ بڑی مشکل سے میں نے نگاہیں اوپر اٹھائیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، یہ خوشی کے آنسو تھے کیونکہ میرے سامنے میر از بیر ہی تھا۔ وہ جو حقیقت کے روپ میں میرے خوابوں کی تعبیر تھا۔ اور جس کے تصور میں میں سائے کے پیچھے بھاگتی رہی تھی۔ تو کیا آج واقعی میرا حقیقی ہمسفر بھی بن گیا تھا جو میری پہلی محبت تھا۔ تم نے اتنے سال مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ میں نے شکوہ کیا۔ مجھ کو بھلا دیا اور بھول جانے کو کہا تھا۔ کیوں ؟ آخر کیوں ؟ ان سوالوں کا جو اب بعد میں دوں گا۔

زبیر بولے تمہارے ساتھ کیا ہوا ہو گا جتنا میرے ہوا ہے، یہ ایک لمبی داستان ہے . تم کیا جانو غیر ملک جا کر ہم پاکستانیوں کو کتنی شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اتنے سخت دن ہوتے ہیں کہ محبوب تو کیا ماں باپ بہن بھائی دوست سبھی کو بھلانا پڑ جاتا ہے میرے دوست تم پر نظر رکھتے تھے ، میں ان سے رابطے میں رہتا تھا تو میرے لیے بنی تھی خدا سے دعا کر تا تھا کہ تمہاری کسی اور سے شادی نہ ہو اور پھر تم مجھے مل جاؤ اللہ نے یہ دعا قبول کی میں اپنے حالات سے اس دوران لڑتا رہا آج خدا نے کامیابی عطا کی ہے دولت اور تم کو بھی مجھے بخش دیا ہے جو میری زندگی کی سب سے بڑی دولت تھی میں نے بڑی مشکل سے تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد وہاں بزنس کیا ملازمت بھی کی آج میں خدا کے فضل سے ایک اعلی مقام پر ہوں

نہیں بتائیں گے کیونکہ تم ہر رشتے سے انکار کر دیتی ہو. اور لبنہ اس کا کیا بنا؟ میں نے سوال کیا۔ اس نے مجھ کو بد ظن کرنے کی کوشش ضرور کی. لیکن میں دل سے بد ظن نہ ہو سکا۔ تاہم لبنہ کو اس کے کیے کی سزا مل گئی ہے. شادی کے دو سال بعد اس کو طلاق ہو گئی تھی اور اب وہ گھر بیٹھی ہیں۔ آج میں زبیر کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں۔ دو بچوں کی ماں ہوں۔ زبیر مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں میری ہر لڑکی سے یہی گزارش ہے کہ کبھی بھی کسی پر اعتماد نہ کریں . وہی کریں جو ماں باپ کہتے ہیں. کیونکہ جو ماں باپ سوچتے ہیں وہ

ہمارے لیے سب سے بہتر ہو تا ہے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button