میری بڑی بہن چھپ چھپ کر کسی لڑکے سے ملتی تھی

وسیم ہمارے ابا کے پرانے ملازم کا بیٹا تھا۔ جب یہ گیارہ سال کا تھا اس کے ماں باپ زلزلے میں مکان کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گئے. اللہ کی قدرت کے یہ لڑکا زندہ بچ گیا۔ والد صاحب اسے گھر لے آئے اور اس کی پرورش کرنے لگے . وہ صرف آٹھویں تک پڑھ سکا گھر کے برابر والد صاحب کا گودام تھا جہاں وہ دکان کا مال سٹوک کرتے تھے۔ وسیم کو گودام میں رہنے کے لیے جگہ دے دی گئی۔ کھانا وہ ہمارے گھر سے کھاتا۔ گودام کی صفائی اور رکھوالی کے علاوہ گھر کا سودا سلف بھی اس کے ذمے تھا۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ وسیم گیر و جوان ہو گیا اس نے قد کاٹھ شکل و صورت خوب نکال لی تھی۔ والد صاحب کو ایک معاون کی ضرورت تھی اس لڑکے کا بھی کوئی نہ تھا۔ تب ہی یہ اب ہمارے کنبے کے لیے لازمی ہو گیا تھا۔ پاؤں کی جوتی کو کوئی سر پر نہیں رکھتا۔ یہ میری امی جان کے الفاظ تھے۔ وہ خدمت گار کا بیٹا تھا اور اسے خدمت گار ہی رہنا تھا لہذا والدہ وسیم سے فاصلہ رکھتی تھی۔ کہتی تھی میرے گھر میں بچیاں ہیں اور غیر لڑکے کو دہلیز سے باہر ہی کھڑا رکھوں گی۔
اسے گھر کے اندر آنے کی اجازت دینا غلط ہو گا۔ والد صاحب کو تاکید کر دی کہ اب اندر نہیں آئے گا جوان ہو گیا ہے جو کام ہو گا اس کو باہر سے ہی بتادیں گے اور کھانا بھی دروازے کے پاس رکھ دیں گے اٹھالے گا اور برتن واپس دروازے کے پاس رکھ کر دستک دے گا۔ میں تھا کہنا تو ہم خود بعد میں اٹھا لیں گے والد صاحب وسیم سے پیار کرتے تھے لیکن والدہ کی رضا کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری تھا۔ پس جیسا اماں نے کہا ویسا ہی کیا۔ تاہم کبھی کبھار ہم کو اس لڑکے کی ضرورت پڑ ہی جاتی تھی جب کبھی بھاری سامان ادھر سے ادھر کرنا ہو تا چھت کے جالے صاف کرانے ہوتے یا پھر کوئی سو بیچ و غیره. درست کرانا پڑتا ای وسیم کو گھر کے اندر بلاتی لیکن باجی کو منع کرتی کہ تم نے اس لڑکے کے ساتھ زیادہ بات نہیں کرنی باجی بھی ایک کا یا تھی۔ امی کی نظر چھتی تو وسیم سے باتیں کرنے لگتی۔ وہ ماں کی بات نہ مانتی۔ ماں کو غصہ آجاتا اور اکیلے میں سمجھوتی غیر لڑکوں سے زیادہ بات نہیں کرتے۔ تم اس سے پر وہ کیا کرو باجی تہمینہ ان دنوں ایف اے میں تھی۔ امی جان بیمار ہو گئی۔ اور یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ بلڈ پریشر کے باعث والدہ کے گردے خراب ہو کے
اور کچھ دن بیمار رہ کر وہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہمارے لیے صدمہ بہت اذیت ناک تھا میں تب ساتویں میں پڑھ رہی تھی امی کی کمی باجی کی باہو میں خود کو چھپا کر پوری کرنے کی کوشش کرتی وہ بھی سمجھ دار تھی مجھ کو پیار کرتی۔ یوں بڑی بہن کی شانے سے لگ کر غم آدھا رہ جاتا تھا ایف اے کے پیپر دینے کے بعد میری یہ بہن گھر بیٹھ گئی چھوٹے بہن بھائی سنبھالنے کی خاطر قربانی دی تو ہم بھی اپنی بہن پر انحصار کرنے لگے اور ان کو بڑا سمجھنے لگے۔ وہ کھانا پکاتی ہمارے کپڑے دھو کر استری کرتی اور ہم کو تیار کر کے سکول بھیجتی۔ اپنے والد کی بھی خدمت کرتی۔ لگتا تھا کہ ماں کا خلا باجی کے پیار نے پر کر دیا ہے ورنہ تو شاید ہم کو والدہ کی محرومی ختم کر دیتی۔ آٹھویں میں ہوش ہی سنبھال لیا تو اپنی اس محسن بہن کو کسی اور کھیل میں الجھا ہوا پایا والد صبح کام پر نکل جاتے اور رات کئے لوٹتے میں اور تائمہ سکول چلی جاتی ہمارا بھائی بھی پڑھنے چلا جاتا گھر پر باچی اکیلی ہوتی تو وہ چھت سے گودام میں چھانک کر وسیم کو آواز لگا کر گھر کے اندر بولا لیتی کسی کام کے بہانے سے اور پھر وہ تنہائی میں ملاقاتیں کرنے لگے
اور ان کی ملاقاتوں نے ایک نیا روپ دھار لیا تھا اتفاقا کبھی میں اور نائمہ سکول سے جلد آ جاتے تو ہم وسیم کو گھر کے اندر بیٹھا پاتے شروع میں دھیان نہ گیا اور رفتہ رفتہ میرے دل میں عجیب وسوسے سر اٹھانے لگے کہ یہ روز کیوں گھر میں ہوتا ہے جبکہ امی ہمیشہ باجی کو منع کرتی تھی کہ اس کے سامنے نہ جایا کرو اس کے ساتھ زیادہ بات نہ کیا نہ کرو وسیم کا اس طرح ہر وقت موجود رہنا ہم کو ناگوار گزرنے لگا تھا جب ہم نہ سمجھتے کسی بات کو خیال میں نہ لاتے تھے جوں جوں عقل آتی گئی وسیم کو باچی کے ساتھ بے تکلفی سے گفتگو کرتا پات کر دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ ہم جانتے تھے کہ وہ رشتہ دار نہیں ہیں ہمارا ملازم ہے۔ کبھی امی ابو نے اسے ہم لوگوں کے درمیان گھلنے ملنے نہ دیا تھا۔ اس کی حیثیت ہمیشہ نوکر کی ہی رہی تھی ہم دونوں بہنوں سے چھوٹا تھا میں ہی بڑی تھی تبھی زیادہ فکر مجھی کو ہوئی تھی ابا کی وجہ سے چپ تھی کہ ان کو دکھ نہ پہنچ جائے لیکن باجی کی پچھن دیکھ کر دل جل کے خاک ہو ا جاتا تھا پہلے باجی ہمارا بہت خیال رکھتی تھی لیکن اب وسیم کی خاطر ہم کو بری طرح نظر انداز کرنے لگی تھی وہ ہر وقت وسیم کے آگے پیچھے پھرتی اور اس کو اہمیت دینے لگی
جب وہ ہو تا خوب اس کی خاطر تواضع کرتی اچھا کھانے کو دیتی اور ہم کو صرف ڈانٹتی رہتی تھی کہ بھوک سے تو مرے تو نہیں جار ہے۔ وہ حسین کو نوالے کھانے کو دیتی اور ہم بیٹھے منہ تک آکرتے۔ باجی کے اسی رویے نے ہم تینوں کو ان کے خلاف کر دیا۔ جس میں نویں کلاس میں تھی زیادہ الجھاؤ میں رہنے لگی۔ ایک روز جرات کر کے کو جنگلا بھی دیا کہ باچی دیکھو تم جو کر رہی ہو ٹھیک نہیں ہے باز آجاؤ ورنہ ابا سے کہہ دوں گی اس نوکر ذات کو تم گھر میں مت بٹھایا کرو اور عمدہ کھانے بھی پیش نہ کیسے کرو ورنہ یہ اپنی اوقات سے باہر آجائے گا تو ہم سب کے لیے مصیبت بن جائے گا۔ باجی نے اس دن مجھے بہت لعن طعن کی کہ افسوس ہے تمہاری سوچ پر پڑھ لکھ کر جاہل رہ گئی ہو ۔ کیا ہمارا مذہب اس بات کا درس نہیں دیتا کہ امیر غریب سبھی انسان برابر ہوتے ہیں۔ اور تم مجھے غرور سکھارہی ہو وسیم نو کر ہے تو کیا ہوا۔ ہماری طرح انسان تو ہے اتنی حقارت اچھی نہیں۔ میں حقارت نہیں کر رہی باجی بلکہ آپ کو احتیاط سے کام لینے کا کہہ رہی ہوں۔ ابا کی لاعلمی میں اس غیر آدمی کو گھر کے اندر بٹھاتی ہو ۔ جبکہ اماں بھی فاصلہ رکھتی تھی اور اس کو گھر میں نہیں گھسائی تھی۔
اپنا نہیں تو اپنی بہنوں کا خیال کر لو۔ یقینا جب ابا کو اس بات کا علم ہو گا وہ بہت ناراض ہوں گے اور بہت غصہ کرے کئے اور کبھی نہ کبھی تو ان کو علم ہو ہی جائے گا۔ ہائی پر میرے تعمیہ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ہم تو یوں بھی مجبور تھے کہ چھوٹے تھے ہم کو اور گھر کو وہی سنبھالتی تھی۔ لیکن اب جب کہ میں اچھا برا سمجھنے لگی تھی۔ تو کیسے چپ رہتی میں نے بھی کہہ دیا اگر باز نہ آئیں تو سب کچھ ابا سے کہہ دوں گی ۔ پھر تم کو وہ ماریں گے اور گھر سے نکال دیں گے . اور اس سب کی ذمہ دار تم خود ہو گی لیکن اب مجھ سے اور زیادہ کچھ برداشت نہ ہو گا جب دیکھا کہ میرے تیور کڑے ہیں، آپے سے باہر نہ ہو گئی اور وہ جو تا اٹھا کر مجھے مارنے گئی اس بار میرے دل میں تو جیسے آگ سے بھڑک اٹھی پہلے تو میں ان کو محض ڈرار ہی تھی اب قسم کھائی کہ جو ہو سو ہو ابا سے ضرور ان کی شکایت کروں گی شام کو ابا آئے تو میر امنہ سوجھا ہوا تھا۔ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ انہوں نے پیار سے پوچھا ہمارے بیٹی کو کیا ہوا ہے ؟ کیوں آنکھیں سوجی ہیں۔ میں تو بس پھٹ پڑی اور جذبات میں آکر ابا کو بتا دیا۔ کہ باجی روز و سیم کو بلا کر بٹھا لیتی ہیں اسے ابا کو بتا دیا۔
کہ باقی روز وسیم کو بلا کر بٹھا لیتی ہیں اسے کچن میں بٹھا کر گرم گرم کھانے پیش کرتی ہیں ہم تو سکول ہوتے ہیں جب آتے ہیں یہ موجود ہوتا ہے یہی بات مجھے اچھی نہیں لگتی اب وسیم جائے گا یا پھر میں اس گھر میں نہیں رہوں گی کہنے کو تو یہ سب کہہ کئے لیکن ابا کی طرف نہ دیکھا۔ وہ تو بس غصے میں آگ بگولہ ہو گئے تھے۔ اسی وقت گھر سے نکل کر گودام کی طرف کئے اور وسیم سے کہا کہ ایک منٹ میں یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ اور پھر کبھی اپنی شکل مجھے مت دکھانا۔ جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں چھید کرتے ہو نا جانے کیوں کر انہوں نے خطبہ قابو پایا جو وسیم کو جانے دیا ور نہ اتنے غصے میں تھے کہ خود میں ڈر گئی تھی کہیں اس کا خون نہ کر دیں وسیم اسی وقت چلا گیا خدا جانے کہاں گیا میں اب پچھتائی کے جلد بازی میں ابا کو بتا کر باچی کی بے قدری کرا دی تھی۔ جیسی بھی تھی ہم کو تو محبت دے رہی تھی۔ دیکھ بھال اور ہمارے سارے کام کرتی تھی۔ تعلیم ہماری خاطر چھوڑی اتنی قربانی دی تا کہ ابا کہی دوسری شادی کر کے سوتیلی ماں نہ لا بیٹھا ئیں۔ اب برے دنوں نے مجھے گھیرا، ابا کا بس نہ چلتا تھا کہ باجی کو کنویں میں دھکا دے دیتے اور وہ اٹھتے بیٹھتے مجھی کو ستی کہ کمبخت بہن ہیں کہ ڈائن مجھے سے میرے باپ کی شفقت اور محبت چھین لی ناگن میں تو ہر وقت تجھ پر نچھاور ہوا کرتی تھی اور تو نے یہ صلہ دیا ہے کہ مجھے باپ کی نظروں سے گرادیا۔
وسیم سے تو نے اس بیچاری یتیم سے رہنے کا ٹھکانہ بھی چھین لیا اب نا جانے وہ کہاں مارا مارا پھر تا ہو گا۔ بہت گناہ ہو گا۔ آئمہ دیکھ لیتا تجھے تیرا بھی حال بر اہو گا اور تو بھی ایسے در بدر ہو گی کہ اس کی بد دعا عمر بھر تیرا پیچھا کرے گی۔ یہ ظلم بہت مہنگا پڑے گا جو تو نے اس کے کیا ہے جوں جوں وہ مجھے کو مستی میں پریشان ہو جاتی وسیم تو پھر پلٹ کر نہ آیا اور نہ کچھ اس کا اتا پتہ رہا میں نے روتے پیٹتے بی اے کر لیا تبھی ایک اچھار شتہ آگیا ابا نے جھٹ پٹ میری شادی کر دی۔ باقی بچاری ابھی تک قربانی کا بکر اپنی ہوئی تھی۔ کہ ایک چھوٹی بہن اور بھائی باقی تھے۔ جن کی دیکھ بھال انہی کرنی تھی۔ کچھ رشتہ داروں نے میرے والد کو سرا ہادی۔ اب تم سری شادی کر لو کہ گھر سنبھالنے والی آجائے اور پھر تم تہمینہ کی شادی کر دینا والد بھی چاہتے تھے کہ باجی تہمینہ کی شادی کرلے لیکن کوئی اچھا رشتہ نہیں مل رہا تھا اور وہ اسی کوشش میں تھے کہ ادھر بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہوں تو پھر اپنی شادی کے بارے میں سوچوں انسان سوچتا کیا ہے اور ہو تا کیا ہے. ابا کو کسی نے باچی کے لیے رشتہ بتایا۔ اور جس روز وہ لڑکا دیکھنے لاہور جارہے تھے۔ لاہور کے قریب ہی ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ جانبر نہ ہو سکے اور ہم کو تقریر نے ایک اور زخم لگا دیا میں تو اپنے گھر میں خوش اور آباد تھی لیکن اب بڑا مسئلہ میری بہن تہمینہ چھوٹی بہن اور بھائی کا تھا جو اکیلے نہ رہ سکتے تھے
ارسلان بہت انسان دوست تھے بہت اچھے انسان تھے وہ مجھے بے حد چاہتے تھے جب ان سے اپنے بھائی بہنوں کی مجبوری بتائی بولے کے ان سب کو یہاں لے آؤ اور اپنے پاس رکھ لو میں نے کہا کہ ایسا درست نہ ہو گا میرے والد صاحب کا ذاتی مکان ہے وہ اسی میں رہتے بھلے لگتے ہیں مکان کو تالا لگ جائے گا اور لوگ بھی آپ کو یہی کہیں گے کہ بیوی کے رشتے دار پال رہے ہو ۔ بہتر یہ ہے کہ ہم بھی کچھ عرصہ ان کے پاس جاکر رہ لیتے ہیں۔ جب تک کوئی ایسار شتہ باجی کے لیے نہیں مل جاتا کہ جس کو گھر داماد بننے کی شرط قبول ہو۔ ارسلان نے میری بات مان لی ہم اپنے گھر سے والد صاحب کے گھر منتقل ہو گئے۔ والد صاحب نے کافی رقم باچی اور چھوٹے بھائی کے نام کرائی ہوئی تھی لہذا انہیں خرچے کی تنگی تو نہ تھی لیکن تحفظ ضرور چاہیے تھا باقی میرے اور ارسلان کے ساتھ رہنے پر خوش تھی کہ اب ان کو ڈر نہ لگتا تھا اور بہت سے مسائل سے بچ کئے تھے۔ ارسلان ہر طرح سے میرے بھائی اور بہنوں کا خیال رکھ رہے تھے . میں البتہ والد کے گھر آکر کچھ بے آرام ضرور ہوئی تھی۔ کیونکہ میرا اپنا گھر آرام اور راحت کا گہوارہ تھا جہاں نوکر چاکر سبھی سہولیات میسر تھی۔ ارسلان کی مجھ سے محبت دیکھ کر ہر کوئی مجھ پر رشک کرتا تھا۔
اور ر قسمت باجی کی کہ ابھی تک کوئی موضوع رشتہ نہ ملا۔ لیکن چھوٹی بہن نے ایف اے کر لیا تو اس کی شادی ارسلان نے اپنی بہن کے بیٹے سے کرادی۔ عاصم نے بھی آٹھویں پاس کر لی اور اس کا سلیکشن آرمی کی اکیڈمی میں ہو گیا اور وہ جہلم چلا گیا۔ اب گھر میں باقی اور ارسلان رہ گئے۔ میں نے باجی سے اصرار کیا کہ اب آپ ھارے گھر چل کر رہو ۔ ہم بہت دن آپ کے پاس رہ لیے۔ میرا ایک یہ بھی مقصد تھا کہ وہ میرے محل نما گھر ہیں رہیں گی۔ تو میرے خاوند کے سٹیٹس کے مطابق ان کے لیے کوئی اچھار شتہ آجائے گا۔ والد صاحب کا گھر تو یک متوسط طبقے کے رہائشی علاقے میں بنا ہوا تھا. اور ان کی وفات کے بعد ان کا حوالہ بھی نہ رہا تھا۔ رشتوں میں لوگ ایسی باتوں کو بھی تو مد نظر رکھتے ہیں باجی میرے گھر ہمارے ساتھ رہنے لگے. ہمارے ساتھ رہتے ہوئے یہاں ان کو احساس ہوا کہ مجھے تو دنیا کی دولت مل گئی ہے۔ شوہر کے پیار کا خزانہ مل گیا ہے . ارسلان کی محبت میرے لیے بڑا سرمایہ تھا۔ جس سے میراگھر رشک جنت تھا وہ دل ہی دل میں کڑنے لگی اور مجھ سے حسد کرنے لگی کاریں, بنگلہ, دولت, زیور, سبھی کچھ تو میرے پاس تھا۔ وہ دل ہی دل میں کڑنے اور مجھ سے حسد کرنے لگی. میں شہزادیوں کی طرح رہنے لگی۔
نوکر چاکر میرے آگے پیچھے ہاتھ جوڑے رہتے اللہ تعالی نے مجھے دو بیٹیوں سے بھی نواز دیا لیکن میری بہن کے نصیب کے پھول نہ کھلے کئی بار رشتے کی کوشش ہوئی لیکن بات بنتی اور پھر ٹوٹ جاتی اللہ جانے کیا وجہ تھی حالانکہ میں اور ارسلان خلوص دل سے چاہتے تھے کہ باقی تہمینہ اب اپنے گھر کی ہو جائے۔ ان کی شادی کی عمر نکلی جاتی تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بہت کوششوں کے باوجود ان کا رشتہ نہ ہو سکا اور ان کی شادی کی عمر نکل گئی۔ میں تو خوش اور مطمئن اپنے بچوں کی چہکاروں میں گھومتی لیکن مجھ سے کئی برس بڑی بہن تنہائی کی آگ میں مجلس رہی تھی۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ جب میں ارسلان کے قریب ہوتی ہوں۔ اور ہم پیار محبت سے بات کرتے ہیں۔ باجی کھو سی جاتی ہیں اور اداس ہو جاتی ہیں۔ اب تو اکثر وہ ہم کو بنتے بولتے تک کر ٹھنڈی آہ بھرتی تھی اور ان کے چہرے کا رنگ ہی بدل جاتا تھا ۔ جب ہی مجھے پانی کی اور زیادہ فکر لگی اور میں نے ان کو خوش دیکھنے کی خاطر ارسلان سے کہا کہ آپ بچوں اور باچی کو لے کر سیر کو چلے جایا کریں۔ تیسرے بچے کی آمد تھی۔ اس وجہ سے میری طبیعت خراب رہتی تھی۔ اور گھر سے نکلنا میرے لیے دو بھر ہو رہا تھا۔ گرمیاں کی چھٹیاں تھیں.
بہت میں نے ارسلان کو مجبور کیا بچوں کو مری کی سیر کرالائیں۔ میں نہیں جا سکتی باجی کو لے جائیں۔ انہوں نے بہت کہا کہ بغیر تمہارے سیر کا کیا لطف آئے گا۔ میں نہ مانی دراصل میں تو باجی کو خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ کیونکہ ان دنوں وہ بجھی بجھی اور اداس رہتی تھی۔ بس اسی دن سے میری خوشیوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ اور میری بربادی کا آغاز ہوا۔ سیر سے واپسی پر میری بہن کا موڈ مزاج کچھ اور تھا۔ اور ارسلان کی نظریں بھی بدلی بدلی تھی۔ وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ اس رشتے کو میں میں شک و شبہ سے بالا تر سمجھتی تھی جو میری بہن اور میرے شوہر کے درمیان تھا۔ ارسلان ایسے پیار کرنے والے شوہر جس پر ایک بیوی پورا پورا بھروسہ کر سکتی تھی۔ جبکہ باجی نے تو مجھے بہت پیار دیا تھا ۔ ماں کے گزر کے بعد ان کی یاد کو اسی بہن کی محبت میں بھرا تھا لیکن آج یہ کیا کہ دونوں ہی مجھے سے نگاہیں ملاتے ہوئے شرمار ہے تھے۔ میں حیران اور خاموش تھی تحمل سے کام لیا۔ خود کو سمجھا لیا کہ سگی بہن پر شک کرنا نا قابل معافی جرم ہے معمول کے کاموں میں لگ گئی لیکن باجی کے رنگ ڈھنگ بناؤ سنگھار سے دل کو دھڑ کا سالگ گیا خدا جانے کیوں باجی کو بے سکونی کھا رہی ہے تیسرے بچے کے جنم دن میں ہسپتال میں تھی جب گھر لوٹی تو یہ گھر میرا نہ رہا ارسلان نے معافی مانگی اور کہا تمہاری بہن کا قصور ہے میں نے تو کبھی ایسا نہ سوچا تھا لیکن اب جو
ہو چکاہے
بڑھتا جائے گا۔ تمہاری بہن کی باتوں میں میں بہک گیا تھا۔ انہوں نے جو کہا وہ سن کر میں سناٹے میں رہ گئی۔ جس قدر ماتم کرتی کم تھا کبھی بہن کی جانب قیمتی تھی تو کبھی شوہر کی طرف دیکھتی تھی۔ دکھ تو یہ تھا کہ باجی کو اپنی اس حرکت سے کوئی دکھ اور کوئی شرمندگی نہ تھی۔ دل ارسلان کو دھتکار تا تھا پھر بھی انہیں چھوڑنا نہ چاہتی تھی کہ تین بچوں کی زندگی کا سوال تھا۔ لیکن اخلاقی اعتبار سے اب مجھے ان کے نکاح میں نہیں رہتا تھا۔ کیونکہ اب میرا اپنے شوہر سے کوئی ناتا نہ رہا تھا۔ مجھے ان کا گھر چھوڑنا ہی پڑا۔ انہوں نے مجھے طلاق دی اور میں اپنے والد کے گھر آگئی کہ جہاں عرصہ سے تالا پڑا ہوا تھا اور باجی نے ارسلان سے نکاح کر کے میرا گھر سنبھال لیا۔ میری جنت پر حقدار بن گئی انہیں میرے لوٹنے کا ذرا بھی ملال نہ تھا اور نہ میرے بچوں پر ان کو رحم آیا۔ میں دن رات یہی سوچ سوچ کر حیران ہوتی اور کھلتی رہتی ہوں کہ اس قدر قریبی رشتوں کا بھی کوئی اعتبار نہیں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ شاید باجی نے مجھ سے بدلہ لیا تھا جو میں نے ابا کو اس کے اور وسیم کے بارے میں بتایا تھا