ایک لڑکی یونیورسٹی میں انگلش کا پرچہ دینے گئی کلرک لڑکی کے باپ کو فون کیا کہ آپ کی بیٹی پرچہ دینے کی بجائے

آج سے 22 سال قبل پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے انگلش کی ایک طالبہ ، وجیہہ عروج، نے یونیورسٹی پر ایک بہت دلچسپ کیس کیا۔ انہیں ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن پرچہ دے کر آئیں تھیں۔ یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔ وجیہہ اپنے والد کے ہمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں تاکہ معاملہ حل کر سکیں۔ وہاں موجود ایک کلرک نے ان کے والد سے کہا “آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ہے۔” یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی۔ انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں۔ وہ اپنے ہی گھر والوں کے سامنے
چور بن گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ بھی انہیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئیں تھیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کلرک صرف اپنے کام سے کام رکھتا۔ وجیہہ کے بارے میں اپنی رائے دینے کی بجائے وہ حاضری رجسٹر چیک کرتا یا اس دن کے پرچوں میں ان کا پرچہ ڈھونڈتا۔ لیکن اس نے اپنے کام کی بجائے وجیہہ کے بارے میں رائے دینا زیادہ ضروری سمجھا، ۔
یہ سوچے بغیر کہ اس کا یہ جملہ وجیہہ کی زندگی کس قدر متاثر کر سکتا ہے۔ وجیہہ نے یونیورسٹی پر کیس کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیس میں ان کا ساتھ ان کے والد نے دیا۔ جو کہ خود ایک جج رہ سکے
ہیں۔ کیس درج ہونے کے چار ماہ بعد یونیورسٹی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے عدالت میں ان کا حل شدہ پرچہ پیش کر دیا۔ اور انہیں روپے پاس بھی کر دیا۔ لیکن معاملہ اب ایک ڈگری سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وجیہہ نے یونیورسٹی سے اپنے کردار پر لگے دھبے کا جواب مانگا۔ لهذا سن 2000 میں پنجاب یونیورسٹی کے خلاف 25 لاکھ کا ھر جانے کا دعویٰ کر دیا۔ پاکستان میں نظام عدل سے انصاف کے حصول میں وجیہہ عروج کو سترہ سال کا عرصہ لگ گیا۔ سن 2017 میں عدالت نے وجیہہ کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو 25 لاکھ سے کم کر کے آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
برطانوی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے وجیہہ عروج نے کہا تھا کہ یونیورسٹی نے میرے خواب چکنا چور کر دیئے۔
اور کبھی معافی نہیں مانگی۔ ان کے اس عمل سے میری عزت اور وقار پہنچنے والے نقصان کی تلافی پیسہ نہیں کر سکتا۔ میں اتنا زیادہ ڈیپریشن میں گئی کہ رو رو کے میری حالت بری ہو گئی۔ ابتدائی دنوں میں اسقدر ذہنی اذیت کا شکار ہوئی کہ ذہن میں خودکشی کا خیال بھی آیا۔ اپنے تعلیمی کیریئر کیر بند میں کبھی فیل نہیں ہوئی۔ مجھے پتہ تھا میں نے کیسا پرچہ دیا ھے۔ بہت زیادہ اچھا نہیں تو اتنا ضرور تھا کہ میں باآسانی پاس ہو جاؤں۔“ وجیہہ نے اس ایک جملے کا بوجھ 17 سال تک اٹھایا۔ وہ تو جی دار تھیں،
معاملہ عدالت تک لے گئیں۔ ہر لڑکی ایسا نہیں کر سکتی۔ خاندان کی عزت ان کے بڑھتے قدم تھام لیتی ہے ورنہ یقین مانیں جو لوگ بغیر سوچے سمجھے بات کر دینے کے عادی ہیں وہ عدالت کے چکر کاٹتے پھریں اور اپنے منہ سے کسی لڑکی کے بارے میں نکلے ایک ایک جملے کی وضاحتیں دیتے پھریں۔ وجیہہ کے والدین نے ان کی ڈگری مکمل ہوتے ہی ان کی شادی کردی۔ انہیں ڈر تھا کہ بات مزید پھیلی تو کہیں وجیہہ کے رشتے آنا ہی بند نہ ہو جائیں۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں مگر اس ایک جملے کی وجہ سے انہیں وہ سب نہیں کرنے دیا گیا
Sharing is caring!