ایک فاحشہ نے خوبصورت لباس پہنا اور اپنے گاہک سے ملنے کیلئے جہاز میں بیٹھ کر

اس کے سعودی گاہک نے کہا کہ تم بغیر ساز و سامان کے مختصر ترین سامان کے ساتھ جدہ آجاؤ ، وہاں ہر چیز مل جائے گی ، جب تم ائیر پورٹ پر اترو گی تو ائیر پورٹ پر گاڑی تمہارا انتظار کر رہی ہو گی۔ فکر نہ کرنا تمہارے لیے ہوٹل بک ہو گا۔ انہی ایام میں مراکش سے جدہ کے لیے حج پروازیں جارہی تھیں . سلمہ نے اپنا خو
بصورت ترین لباس پہنا ، خوب میک اپ کیا اور جہاز پر سوار ہو گئی ۔ اس نے دیکھا کہ حج کی وجہ سے بیشتر مسافروں نے احرام باندھے ہوئے ہیں ، وہ ان محدود چند مسافروں میں سے تھی ، جو حج کرنے نہیں جارہی تھی، وہ تو اپنے خاص گاہک سے ملنے اور جدہ شہر میں فسق و فجور کا بازار گرم کرنے جارہی تھی ۔ جبکہ عازمین
حج اپنے رب کریم کے گھر کی زیارت اور فریضہ حج کی
ادائیگی کے لئے سفر کر رہے تھے۔ سلمہ انگلی سیٹوں پر بیٹھی تو اس کے ارد گرد حج پر جانے والی خواتین تھیں ، جنہوں نے حجاب کیا ہوا تھا۔ کچھ دیر تو وہ کرسی کی پشت کی جیب میں رکھے ہوئے میگزین کے ساتھ کھیلتی رہی ،
جنہوں نے حجاب کیا ہوا تھا۔ کچھ دیر تو وہ کرسی کی پشت کی جیب میں رکھے ہوئے میگزین کے ساتھ کھیلتی رہی، پھر اس نے کھانا کھایا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔ نجانے وہ کب تک سوتی رہی۔ آنکھ کھلی تو جہاز کا پائلٹ اعلان کر رہا تھا کہ کچھ دیر بعد ہم لوگ میقات سے گزریں گے ، جو مسافر حج کی نیت سے جدہ
جارہے ہیں ، وہ اپنے احرام باندھ لیں . کیونکہ میقات
سے آگے بغیر احرام کے جانا جائز نہیں ہے . اعلان کے ساتھ ہوائی جہاز کے مسافروں میں ہلچل مچ گئی ۔ وہ زور زور سے تلبیہ بلند کرنے لگے : لبیک لا شریک لک لیبک ………. میں حاضر ہوں میرے رب ! میں
حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں ، بلاشبہ ہر تعریف تیرے لیے اور ہر نعمت تیری ہی طرف سے ہے اور تیری ہی بادشاہت ، ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ، میں حاضر ہوں . لبیک کے ان نعر ہائے مستانہ سے جہاز کا ماحول یکسر بدل گیا۔ سلمہ نے تلبیہ سنا تو اس کے جذبات میں بھی ہلچل مچ گئی .
میں کہاں جارہی ہوں . کس جگہ اور کیوں جارہی ہوں ؟ اور یہ لوگ کہاں جارہے ہیں ؟ کیا کہہ رہے ہیں ؟ کس شوق و ذوق سے جارہے ہیں؟ یہ سوچ کر ایک انجانی قوت نے اسے سیٹ سے اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ وہ تو سولہ سنگھار کر کے آئی تھی۔ اس نے قریب بیٹھی ہوئی خاتون سے کہا تمہارے پاس کوئی فالتو کپڑے ہیں
؟ اس نے اسے حیرت سے دیکھا اور پھر اسے فالتو
کپڑوں کا ایک جوڑا دیا۔ اب اس کا رخ واش روم کی طرف تھا۔ اس نے میک اپ اتارا ، کپڑے تبدیل کر کے اپنی سیٹ پر آئی تو ایک خاتون نے اسے سفید مراکشی حجاب اور ٹوپی دے دی . اس نے اسے پہن لیا۔
میقات آئی اور گزر گئی۔ اب سلمہ ایک نئے روپ میں تھی جہاز جدہ ایئر پورٹ پر اترا تو آواز آئی : ” سیدہ سلمہ سے گزارش ہے کہ وہ آگے آگے جائے . ” اس کے ساتھ وی آئی پی سلوک ہوا اور اسے خاص پروٹوکول دیا گیا ، کیونکہ اس کا گاہک کوئی بہت ہی امیر کبیر شخص تھا، جس نے پہلے سے یہ انتظام کر رکھا تھا. ہوائی جہاز سے
سے پہلے اترنے والی مسلمہ ہی تھی۔ نیچے اتری، امیگریشن اور کشم سے فارغ ہوئی تو خو بصورت قیمتی گاڑی اس کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ گاڑی میں
بیٹھی تو گاڑی کا رخ ہوٹل کی طرف تھا۔ اس کا کمرہ پہلے سے بک تھا۔ کمرے میں گئی تو وہ بیڈ پر لیٹ گئی ۔ لمبے تھا۔ گئی تو وہ پر سفر کی وجہ سے اسے آرام کی ضرورت تھی . وہ فورا سو گئی ۔ اس نے ایک خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنے دائیں ہاتھ میں فانوس لیے کھڑا ہے . فانوس سے نور بکھر رہا ہے ، نور سے دور دور تک روشنی پھیلی ہوئی ہے
۔ اس شخص کے بائیں ہاتھ میں آگ کا شعلہ ہے ، جس سے اس کے جسم کے ایک ایک حصے کو جلایا جارہا ہے۔ سلمہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی . اسے بڑا ڈر لگ رہا تھا۔ خواب بڑا واضح تھا۔ اس کے سامنے دونوں راستے تھے ۔ خیر اور شر کا راستہ ، ایک ہدایت کا اور دوسر ا ظلمت کا راستہ ہے . اس نے آنکھیں بند کر کے اپنی سابقہ زندگی پر غور
کیا۔ اسے اپنے آپ سے گھن آئی. اس نے سوچا غور کیا
اور ایک عجیب فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا مختصر ترین سامان اپنے ہمراہ لیا ، کمرے سے نیچے اتری ہوٹل سے باہر آئی تو اسے ایک ٹیکسی نظر آئی۔ اس نے ڈرائیور سے کہا : مجھے مکہ مکرمہ جاتا ہے ، مگر اس سے پہلے میقات چلو . یہ
ان دنوں کی بات ہے جب حج کے ایام میں مکہ مکرمہ جانے والوں پر زیادہ پابندیاں نہ تھیں ، ٹیکسی ڈرائیور اسے میقات پر لے گیا۔ میقات پر پہنچ کر اس نے غسل کیا ، وضو کر کے احرام باندھا حج کی نیت کی اور تلبیہ بلند کیا۔ اللھم لبیک کہتی ہوئی ٹیکسی پر سوار ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئی تو اس کی زبان پر لیبک کی صدائیں
جاری تھیں . کعبہ شریف میں داخل ہوئی ، طواف کیا۔ سات چکر لگائے ، بچے دل سے توبہ کی ، مقام ابراہیم پر آئی، دور کعت نفل پڑھنے کے بعد زم زم پیا۔
ایسا لگا کہ اس کی تمام روحانی و جسمانی بیماریاں زائل ہو گئی ہیں۔ اب اس کا رخ صفا کی طرف تھا۔ اس نے صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگانے شروع کیے ۔ جب چھٹے چکر میں تھی تو اسے اپنی بصارت پر اعتبار نہ آیا ۔ اچانک اسے بریگیڈیر عبد العزیز سعی کرتا نظر آیا۔ ہاں وہی بریگیڈیر عبد العزیز جس کا نام اس نے ” عمید المصیبتہ ”
رکھا ہوا تھا ، جسے اس نے مراکش سے دوسرے شہر ٹرانسفر کروا دیا تھا۔ سلمہ اپنے آپ کو روک نہ سکی۔ اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ کہنے لگی : عبد العزیز ! تم یہاں پر بھی آگئے ہو ؟ عبد العزیز نے نگاہیں اٹھائیں ، اس کے سامنے سلمہ کھڑی تھی کہنے لگا : ارے تم یہاں کہاں آگئیں ! ! وہ کہنے لگی : میں بھی تمہاری طرح
رحمان کی ضیافت میں ہوں . تمہیں کیا معلوم کہ
رب نے میری توبہ قبول کر لی ہے ، اس نے مجھے ہدایت عطا کر دی ہے . وہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے. عبد العزیز نے کہا : میں بھی رحمان کی ضیافت میں ہوں . دونوں نے سعی مکمل کی۔ سلمہ نے کہا : اگر
تمہارے لیے ممکن ہو تو مناسق حج میں مجھے اپنے ساتھ رکھ لو ، میں اکیلی ہوں ، حج کیسے کر سکوں گی۔ عبد العزیز نے قافلے کے ذمہ داران سے درخواست اور سفارش کی جسے قبول کر لیا گیا۔ یوں سلمہ نے حج کے باقی ارکان اپنی قوم کے افراد کے ساتھ ادا کیے ۔ سلمہ نے حج کے ارکان پورے کیے . اب قافلہ کارخ مدینہ
منورہ کی طرف تھا۔ سلمہ بھی مدینہ پہنچ گئی۔ عبد العزیز سلمہ کو دیکھتا رہا۔ اس کا انداز بالکل بدل گیا تھا۔ حج نے اس پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ وہ اب رحمان کی
بندی بن گئی تھی۔ عبدالعزیز کی سلمہ کے بارے میں رائے تبدیل ہو چکی تھی ، وہ اس کی توبہ سے بڑا خوش تھا سلمہ نے اسے جدہ ایئر پورٹ سے اترنے کے بعد کے سارے واقعات سنائے ۔ سلمہ نے عبد العزیز سے کہا : میرے پاس مراکش میں خاصی دولت ہے جو میں نے غلط کاموں سے کمائی ہے ، میں چاہتی ہوں کہ اسے اچھے
کاموں میں لگا دوں ۔ کیا تم میری مدد کرو گے ؟ عبد العزیز نے کہا : ہاں ایک شرط پر اوہ کیا ؟ سلمہ بولی . عبد العزیز ہاں ! میں آپ کو اپنے خاوند کے طور پر قبول کرتی ہوں ۔مزید
: یہ کہ تم ہمیشہ کے لیے میرے دامن سے وابستہ
ہو جاؤ۔ سلمہ نے لحہ بھر سوچا، سر تسلیم خم کر دیا