میری دوست ہر روز میرے ساتھ کالج جاتی مگر وہ ہمیشہ کالج سے غائب رہتی

میر انام مہوش ہے میری عمر اٹھارہ سال ہے میں امیر گھر سے تعلق رکھتی ہوں میرے والد اور میری والدہ بیٹیوں سے بہت پیار کرنے والے تھے میں چونکہ سب سے چھوٹی تھی اس وجہ سے مجھے سب سے زیادہ پیار ملا ابا تو بیٹیوں سے بہت پیار کرتے تھے ان کے لاڈ اٹھاتے تھے بڑی بہنوں کی شادی ہو گئی تھی اور میں سب سے چھوٹی تھی جس وجہ سے ابھی تک میری شادی نہیں ہوئی تھی میں ابھی کالج میں پڑھ رہی تھی میرے گھر میں ساری دوستیں آتی تھیں مگر جب بھی میری بیسٹ فرینڈ آتی تب میں بہت خوش ہوتی تھی کیونکہ وہ کبھی کبھی ہمارے گھر آتی
تھی
اس کے والد اس سے گھر سے نہیں نکلنے دیتے تھے بس کالج سے گھر جاتی اور گھر سے کالج کبھی کبھی میں اس سے کالج سے ضد کر کے اپنے گھر لے کر آتی تو اماں بھی مجھے ڈانٹ دیتیں اور کہہ دیتیں ایسے اس سے نہ لایا کرو گھر اس کے والد کیا سوچیں گے کیوں تم ان کی بیٹی کو اپنے گھر لے کر آتی ہو میں اماں کو کہہ دیتی وہ تو ویسے ہی اپنی بیٹی کو قید کر کے رکھتے ہیں لیکن میرے گھر آنے پر کچھ نہیں کہتے میں تو بس یہ ہی شکر کرتی ہوں ویسے بھی کبھی کبھی جو میرے گھر آتی ہے۔ آج میں کالج آئی تو میں نے حیرت سے ارد گرد دیکھا میں تو بڑی لیٹ ہو گئی تھی تو مجھے لگا میری دوست آئی ہو گی مگر وہ کالج میں تو مجھے کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی میں نے ارد گرد دیکھا سب دوستوں سے بھی پوچھا مگر کسی کو اس کے بارے میں نہیں معلوم تھا مجھے لگا شاید آج وہ چھٹی پر ہو لیکن وہ کبھی بلاوجہ چھٹی نہیں کرتی تھی اگر کرتی بھی تو پہلے مجھے بتا دیتی تھی اب مجھے اسکی وجہ سے پر شانی ہونے لگ گئی سارا دن کالج میں اسی کے بارے میں سوچتی رہی مگر جب چھٹی ہوئی تو مجھے حیرت ہوئی اس نے مجھے پیچھے سے آواز دی اور بہت گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی
اس کی پیشانی پر پسینہ بھی تھا میں نے حیرت سے پوچھا تم کالج آئی ہوئی تھی کیا اس نے پہلے نفی میں سر ہلایا پھر اثبات میں سر ہلا دیا میں اس کی وجہ سے کنفیوز ہو گئی نہ جانے وہ کہنا کیا چاہ رہی تھی نہ وہ انکار کر رہی تھی نہ وہ ہاں کر رہی تھی پھر اگر وہ کالج میں نہیں تھی تو پھر وہ کہاں تھی مجھے تو یہ ہی سوچ سوچ کر پریشانی ہونے لگ گئی تھی وہ سارے راستے میرے ساتھ خاموشی سے گھر آئی جب میں اس سے کچھ پوچھتی تو اس کی آواز یوں ہوتی جیسے وہ رورہی ہو مجھے لگا تھا اس کی اپنے ابا کے ساتھ کوئی بات ہوئی ہے مگر اس نے کچھ بھی نہ بتایا ایک مجھے یہ بات پر شان کیے جا رہی تھی کے وہ مجھے کالج میں نظر تو نہیں آئی تھی پھر وہ نہ جانے تھی کد ھر اور کہاں غائب تھی۔ رات کے وقت میں کمرے میں بیٹھی اپنی دوست کے بارے میں سوچ رہی تھی اتنے میں اس کی اکل آئی میں نے جلدی سے کال پک کی دوسری طرف سے وہ مجھے کہنے لگی کے. مجھے تم سے ملنا ہے تم میرے گھر آ سکتی ہو کیا اس کی بات سن کر مجھے پریشانی ہوئی کے وہ مجھے اتنی رات کو ملنے کا کیوں کہہ رہی ہے ضرور کوئی بات تھی مگر میں جانتی تھی اس وقت اس کے گھر مجھے اماں اور ابا دونوں نے نہیں جانے دینا مگر میں جلدی سے اٹھی اور اپنے بھائی کے کمرے کی طرف گئی اس سے بتایا تو وہ مجھے کہنے لگا کے میں نہیں جائوں گا میں نے اس کی منت کی تو کہنے لگا پانچ منٹ میں تم دوست سے مل کر باہر آؤ گی
میں نے ہاں کر دیا کیونکہ میں اس وقت اس سے ملنا چاہتی تھی ضرور کوئی بات تھی جو وہ مجھ سے چھپارہی تھی تھوڑی دیر بعد میں اس کے گھر کے باہر پہنچ گئی میں نے دستک دی تو اس نے دروازہ کھولا اور ایک دم سے میرے گلے سے لگ گئی میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا ہے مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا میں نے وہیں پر کھڑے کھڑے اس سے پوچھا وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی اتنے میں پیچھے سے اس کے ابا کی آواز آئی اس نے مجھے جانے کا اشارہ کیا میں حیران پریشان باہر آگئی مگر میر ابھائی مجھ سے پوچھنے لگا کے تمہاری دوست کو کیا ہوا ہے میں نے نفی میں سر ہلا یا وہ بار بار پوچھ رہا تھا میں نے کہا کچھ نہیں ہوا اس نے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا لیکن ایک بات مجھے پریشان کر رہی تھی میر ابھائی اتنا پریشان کیوں ہو رہا تھا اس کی وجہ سے گھر آگر میں اپنے کمرے میں آگئی مجھے لگ رہا تھا اگلے دن وہ کالج نہیں آئے گی لیکن وہ میرے ساتھ ہی کالج گئی مگر کالج جانے کے بعد وہ نہ جانے کہاں غائب ہو گئی تھی ہر کلاس میں اس سے ڈھونڈا مگر وہ مجھے کہیں نظر نہ آئی لیکن جیسے ہی چھٹی ہوئی وہ میرے بس ساتھ تھی مجھے تو اب اس سے ڈر بھی لگنے لگ گیا تھا نہ جانے وہ کیا بلا تھا۔ اگلے دن جب میں کالج آئی تو میں چھپ کر اس کے پیچھے جانے لگی آخر وہ جاتی کہاں ہے تھوڑی دیر بعد مجھے حیرت کا جھٹکا لگا جب میں نے دیکھا کے وہ تو برقعہ ڈال کر کالج سے باہر جارہی ہے مجھے تو بہت حیرانگی ہو رہی تھی
میں بھی چھپ کر اس کے پیچھے جانے لگی وہ نہ جانے کن گلیوں سے گزر کر کہاں جاری تھی آخر وہ ایک گھر میں داخل ہوئی اس گھر کو دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو کئے میں گھر میں داخل ہو گئی جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوئی اپنی دوست کی باتیں سن کر میری جان ہی نکل گئی کیونکہ میری دوست تو میرے بھائی کی بیوی تھی اور وہیں پر میرا بھائی بھی بیٹھا ہوا تھا میں آنکھیں پھاڑے دونوں کو دیکھ رہی تھی میری دوست کے جیسے ہی مجھے دیکھا ایک دم سے رو پڑی اور کہنے لگی تمہارے بھائی نے دھو کے سے مجھ سے شادی کی ہے میں تمہیں اس رات بتانا چاہ رہی تھی مگر تمہارے بھائی کا میسج آگیا تھا کچھ مت بتانا میری بہن کو میں نے اپنے بھائی کی طرف دیکھا وہ کہنے لگا میں نے اماں کو کہا تھا اس کے ابا سے رشتہ مانگیں مگر انھوں نے انکار کر دیا اور مجھے یہ ہر قیمت پر چاہیے تھی اس وجہ سے میں نے یہ سب کچھ کیا میں نے نفی میں سر ہلایا اور بھائی کا موبائل چھین کر اماں ابا کو کال کی اور سب کچھ بتا دیا انھوں نے میری دوست کے ابا کو بھی سب کچھ بتا دیا وہ اپنی بیٹی کو لے کر چلے کئے لیکن آخر میں یہ ہی فیصلہ ہوا کے دونوں کی شادی کر دی جائے پھر دونوں کی شادی ہو گئی مگر میں نے ایک بات نوٹ کی تھی میری دوست میرے بھائی کے ساتھ بہت خوش تھی میں نے اس سے کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا مگر اس کے ابا اس سے ناراض ہی تھے جو چند سالوں بعد راضی ہوئے تھے۔