دلچسپ و عجیب

میں ایک بنگلے میں ڈرائیور تھا۔ دو مہینے سے مالک اور مالکن امریکہ گئے ہوئے تھے

میرا نام مراد تھا اور آزاد کشمیر کے ایک گاؤں کا رہائشی تھا۔ نوکری کی غرض سے میں لاھور آگیا تھا اور کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا کہ جب میرے ایک دوست نے نے مجھے پر رحم کھایا اور اور مجھے گاڑی چلانا سکھا دی۔۔ اسے دوست کی بدولت مجھے ایک بنگلے میں ڈرائیور کی نوکری مل گئی۔ گھر میں صرف مالک مالکن اور ان کی بیٹی تھی۔۔ جب میرے دوست نے میری ذمہ داری لی تو مالک نے مجھے اپنی بیٹی کی گاڑی پر ڈرائیور رکھ لیا ۔۔ مالک کی بیٹی ایک بڑے کالج میں پڑھتی تھی اور میں اس کی گاڑی چلایا کرتا

تھا۔

روز صبح اسے کالج چھوڑتا اور واپسی میں کالج سے لے کر بنگلے میں پہنچاتا ۔ اکثر وہ شام میں اپنے دوستوں کی طرف نکل جاتی تو میں ہی اسے لانے لے جانے کا کام کرتا۔۔ ایک گاؤں والا ہونے کی وجہ سے میں عزت کے معاملے میں بہت ہی زیادہ حساس تھا میں نے کبھی نظر اٹھا کر مالک کی بیٹی کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ مالک کی بیٹی کا نام کنزا تھا۔ اور وہ ایک حسین لڑکی تھی لیکن میں ہمیشہ ہی نظر جھکا کر اس سے بات کرتا۔ میرے لئے تو میرے مالک اور مالکن قابل احترام لوگ تھے جنہوں نے مجھے کام دے کر میری مشکل آسان کر دی تھی۔ میں مالکن اور مالک سے بہت زیادہ عقیدت رکھتا تھا کیونکہ وہ دونوں ہی بہت نیک تھے۔۔ کنزا یہی راستے میں مجھ سے باتیں کرتی اور بہت ساری باتیں مجھے بتا تیں۔ لیکن میں سوائے سر ہلانے کے اور کوئی جواب نہ دیتا۔۔ وہ بلا وجہ کی ذہین تھیں اور ہر کلاس میں اول آتی تھیں۔۔ کنزا بی بی منہ میں سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہوئی تھیں۔

مالک ان کی ہر بات فورا ہی پوری کر دیتے۔ کنزا بیبی نے نئی گاڑی کی فرمائش کی تو مالک نے فورا ہی انہیں نئی گاڑی خرید کر دے دی۔ کنزا بیبی مجھے کہنے لگی کہ دیکھو میں نے تمہارے لئے نئی گاڑی لے لی ہے۔ ان کی بات سن کر میں مسکرا دیا۔۔ وہ اکثر ہی باتوں باتوں میں مجھے چھیڑ تھیں اور میرے ساتھ فری ہونے کی کوشش کرتی لیکن میں کبھی اپنی حد سے تجاوز نہ کرتا۔ کنزو بی بی جب بھی خریداری پر جاتی تو وہ میرے لئے۔ بھی کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتی۔ کنزا بیبی کو معلوم تھا کہ میری بہن کی شادی ہونے والی ہے۔ وہ میری بہن کے لئے بھی کچھ نہ کچھ خرید کر دیا کرتی تھی کہ یہ اس کی شادی کے لئے ہے گاؤں بھجوا دو۔۔ میں ان کی عادت اور اخلاق سے بہت متاثر تھا۔۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ یہی کنز اہی ایک دن میرے کردار کو پاش پاش کر دیگی۔۔۔ کنزا بیبی کی کم عمری میں ہی شادی ہو گئی تھی اور وہ شادی ہو کر اپنی خالہ کے گھر جانے والی تھی۔۔۔ کنز انہی گاڑی میں اکثر ہی فون پر اپنے دوستوں سے باتیں کر رہی ہوتی جس میں ان کے منگیتر کا بھی کہیں نہ کہیں نام آتا لیکن میں کبھی ان کی بات سننے کی کوشش نہیں کرتا اور اپنا دھیان ادھر اُدھر لگائے رکھتا۔۔

سردیوں کے دن تھے کے جب مالک اور مالکن کو اچانک ہی امریکہ جانا پڑا تھا کیونکہ مالک کے بڑے بھائی جو امریکہ میں رہائش پذیر تھے ان کی حالت بہت ہی نازک تھی اور وہ اپنے آخری وقت میں اپنے بھائی کو اپنے پاس دیکھنا چاہتے تھے۔۔ کنزا بیبی کے امتحانات سر پر ہونے کی وجہ سے مجبورا وہ دونوں اپنی اکلوتی بیٹی کو گھر پر ہی چھوڑ کے۔۔ مالک نے جاتے جاتے مجھے یہ ذمہ داری سونپ دی تھی کہ میں کنز ا بیبی کو کالج لانے لے جانے کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ کروں اور ان کا خیال رکھوں۔۔ کیونکہ مجھے مالک کے ساتھ کام کرتے ہوئے دو سال ہونے والے تھے اسی لیے وہ لوگ مجھ پر بہت ہی زیادہ بھروسہ کرنے لگے تھے۔۔ مالک کو اچھے سے علم تھا کہ میں نے کبھی نظر بھر کر بھی ان کی بیٹی کی طرف نہیں دیکھا۔۔ مالک اور مالکن دو مہینے کے لیے امریکہ چلے کئے اور میں ان کے پیچھے پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھانے لگا۔۔ کچھ ہی عرصے بعد میری چھوٹی بہن کی شادی تھی اور اسی لیے مجھے بہت زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی میں کنزا بیٹی کو کولج چھوڑ کر قریب ہی ایک میکینک کی دوکان پر چلا جاتا اور وہاں بیٹھ کر کام سیکھتا تا کہ فارغ وقت میں یہ کام بھی کر سکوں۔ مالک کے پاس سے آٹھ بجے میری چھٹی ہو جایا کرتی تھی اور میں چاہتا تھا کہ اس کے بعد میکینک کی دکان پر بیٹھ کر کام کروں۔ تا کہ جلد سے جلد میرے پاس اتنے پیسے جمع ہو جائیں کہ میں اپنی بہن کی شادی کے لئے یہ ہے۔ گاؤں بھجوا سکوں۔۔

جتنا عرصہ مالک موجود نہیں تھے مجھے کام سے جلدی فراغت مل جایا کرتی تھی۔ کیونکہ کنزا بیبی زیادہ تر گھر میں ہی رہا کرتی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مہینے کا عرصہ گزر گیا اور مالک کے بڑے بھائی اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔۔ اس رات ہی میرے پاس کنز ایبی کا فون آیا کہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے اور میں ان کے پاس آجاؤں شاید انہیں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے۔ بیبی جی کی کی بات سن کر میں پریشان ہو گیا رات کے اس پہر میرا بنگلے کے اندر جانا کچھ مناسب نہیں تھا لیکن بیاری کی حالت میں میں بھی جی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ جب کہ وہ اپنے تایا کی موت کے غم میں تھی۔۔ پوری رات میں ان کے ساتھ ہی رہا اور ان کا خیال رکھتا رہا وہ شدید بخار میں تپ رہی تھیں اور ساری غنودگی میں رہی تھیں۔۔ ساری رات کو ان کے پاس بیٹھا رہا اور صبح تک ان کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو میں واپس اپنے کو رٹر میں چلا آیا۔۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور اس دن کے بعد سے کنزا بیبی کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہنے لگی۔ وہ بہت ہی زیادہ زیادہ کھوئی کھوئی سی رہنے لگی ۔۔ مجھے لگا شاید وہ اپنے ماں باپ کے جدائی میں پریشان ہو گئیں ہیں۔۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ دراصل حقیقت کیا ہے۔۔۔۔ مالک نے مزید ایک مہینہ اور اپنے بھائی کے بچوں کے پاس گزارا اور پورے دو مہینے بعد وہ دونوں گھر واپس آئے تو میں انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن اس وقت میرے قدموں تلے زمین نکل گئی جب مالک نے پاس پڑا ڈنڈا اٹھا کر مجھے بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔۔

وہ مجھے گندی گالیاں دیتے جارہے تھے اور مارتے جارہے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھ سے ایسی کونسی غلطی ہو گئی ہے جو مالک اس قدر غصہ ہیں کہ میری بات بھی سنے کو تیار نہیں۔۔۔ اور جب مجھے پوری بات بتا چلی تو ایسا لگا جیسے کسی نے میرے قدموں تلے زمین صنیع لی ہے۔ کنزہ بی بی نے مجھ پر یہ الزام لگایا تھا کہ کہ میں نے ان کے ساتھ زبردستی کی ہے اور وہ اب امید سے ہے اور یہ بات ڈر کے مارے انہوں نے اپنے ماں باپ کو فون پر نہیں بتائی کہ میں انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دوں ۔ میں نے حیرت سے کنزا بی بی کو دیکھا جو کمال ڈھیٹائی سے جھوٹ پر جھوٹ بول رہی تھی میں تو کنزہ بی بی کو بہت ہی سیدھا سادہ اور معصوم سمجھتا تھا لیکن انہوں نے تو میرے ہی کردار کو داغدار کر دیا تھا۔۔ مالک میری کوئی بات سننے کو راضی نہیں تھے اور کنزابی بی آپنے جھوٹ سے پیچھے بنے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ کہہ رہی تھی کہ جس رات تایا کا انتقال ہوا ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ انہوں نے مجھے کمرے میں بلایا تھا۔ اُنھیں لگا تھا کہ شاید انہیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے لیکن میں اسپتال لے جانے کی بجائے ان کے ساتھ غلط کام کر بیٹھا۔ مالک نے پولیس کو بلا کر مجھے جیل میں ڈلوانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن کنزا بیبی نے انھیں روک دیا تھا۔ کنز اسی نے اپنے والد کو کہا کہ ایسا کرنے سے ان کی عزت پر آنچ آئے گی۔۔

کنزا بہی کے والد مجھے نوکری سے نکال چکے تھے اور میں بہت ہی زیادہ پریشان تھا۔۔ میرے پاس کرنے کے لئے کوئی کام نہیں تھا اور اتنی جلدی مجھے دوسری نوکری بھی نہیں مل رہی تھی جبکہ میری بہن کی شادی سر پر آگئی تھی۔ میں مالک کے دیئے ہوئے سرونٹ کوارٹر میں رہتا تھا اور اب میرے پاس رہنے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں بھی اسی لیے میں مجبور ہو کر کر دوبارہ مالک کے در پر گیا اور انہیں اپنی بے گناہی کا یقین دلانا چاہا۔۔۔ لیکن مالک نے میرے سامنے ایسی شرط رکھی کہ میرے ہوش اڑ کے۔۔ مالک نے مجھ سے کہا کہ تمہیں کنزا سے کچھ مہینے کے لیے شادی کرنی ہو گی جب بچے کی پیدائش ہو جائے تو پھر تم اسے چھوڑ کر چلے جانا ۔۔ ہم نے بچہ ضائع کروانے کی بہت کوشش کی لیکن سب ڈاکٹروں نے یہی کہا کہ اس عمل میں کنزا کی موت ہو سکتی ہے اور میں اپنی اکلوتی بیٹی کو کھونا نہیں چاہتا۔ کنزہ کا منگیتر بھی اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس سے پہلے کے زمانے میں ہماری بد نامی ہو ہم کنزا کو تمہارے ساتھ رخصت کر دیں گے اور تم اسے اپنے ساتھ اپنے گاؤں لے جانا۔ جب بچے کی پیدائش ہو جائے گی تو اس کے بعد ہم کنزا کو واپس لے لیں گے۔۔۔ میں جانتا تھا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے اور کنزا نے جھوٹ بولا ہے لیکن اس کے باوجو د میں اس پر راضی ہو گیا تھا کیونکہ مجھے اپنی بہن کی شادی کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اور قلبال اتنے پیسے مجھے صرف مالک ہی دے سکتے تھے۔ اسی لیے میں نے کنزا سے شادی کرنے کے لیے حامی بھر لی اور اس کے ساتھ نکاح کر کے اُسے گاؤں لے آیا۔۔ کنزا بہت خاموش تھی۔

میں نے بھی گاؤں پہنچنے تک سارا راستہ اس سے کوئی بات نہ کی تھی۔ نکاح کے فورا بعد میں ہم دونوں گاڑی کے ذریعے گاؤں آگئے تھے میری ماں اور گھر والے کنزا کو دیکھ کر حیران رہ کئے اور جب میں نے اپنی ماں کو بتایا کہ میں نے شادی کر لی ہے تو میری ماں حیران رہ گئی اور کہنے لگی کے اتنی بڑی بات تو نے مجھے بتائی بھی نہیں۔ تیری شادی کو لیکر میرے کتنے ارمان تھے لیکن پھر کنزا کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے میری ماں خاموش ہو گئی۔ اور کنزا کو پیار کرنے لگی۔ کنزا بہت ہی خوبصورت تھی۔ اتنی پیاری اور کم عمر بہو دیکھ کر میری ماں کی ساری شکایتیں دور ہو گی اور وہ کنزا کو میرے کمرے میں لے گئی اور اسے گاؤں کی عورتوں کی طرح سجانے لگی۔۔ میں بہن کی شادی کے انتظامات دیکھنے لگا اور شام ڈھلے جب کمرے میں آیا تو کنزا دلہن کے روپ میں میرے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی اسے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا وہ کوئی حور پری معلوم ہوتی تھی۔ پہلی نظر میں ہی میں اپنی بیوی پر دل ہار بیٹھا تھا لیکن میں کیسے بھول سکتا تھا کہ میری اسی بیوی نے مجھے کس طرح بد کردار ثابت کیا ہے۔ میں اس کے قریب بیڈ پر آکر بیٹھا تو وہ خوف کے مارے لرزنے لگی وہ اچھے سے جانتی تھی کہ اس نے مجھ سے کس طرح شادی کی ہے۔ میں اس سے پہلے کہ اس سے کچھ کہتا ہوں وہ خود ہی رونے لگی اور میرے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔

اس کے آنسو میرے دل پر گر رھے تھے کیونکہ می نے اسے ہمیشہ ہی بہت مخلص اور اچھا پایا تھا۔ کنزا روتے ہوئے مجھے سے کہنے لگی کہ اس نے جو الزام مجھے پر لگایا ہے اس کے لیے شرمندہ ہے اور اسے اپنی غلطی کا پوری طرح احساس ہے۔۔ لیکن یہ سب کچھ اس نے مجھے بد نام کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ بہت ہی مجبوری میں کیا ہے۔ میں نے قہر برساتی نگاہوں سے کنزا کو دیکھا اور اسے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ تم نے کتنی مجبوری میں ہی یہ سب کیوں نہ کیا ہو لیکن تمہارے اس عمل سے میری عزت دو کوڑی کی بھی نہ رہی۔۔ تم اپنے گناہ کو میرے ساتھ تھوپ کر سر خرو ہو گی اور میں بے گناہ ہوتے ہوئے بھی اپنے مالک کے نظروں میں گر گیا۔ میں چاہ کر بھی تمہیں کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا لیکن میں اتنا کم ظرف نہیں ہوں کہ اپنے نکاح میں آئی عورت کے ساتھ کوئی زیادتی کروں اسی لئے تم اس کمرے میں آسانی سے رہ سکتی ہوں تمہیں کسی چیز کی کوئی تکلیف نہیں ہو گی اور جب تم اپنے گناہ کو اس دنیا میں لے آو۔ تو یہاں سے جانے پر بھی آزاد ہو گی۔۔ میں خود تمہیں تمہاری اولاد کے ساتھ تمہارے گھر چھوڑ آؤں گا۔۔ میں کنزا کو اپنے قدموں سے اٹھا کر بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کمرے سے باہر نکلنے لگا جب کنزہ کے لفظوں نے میرے قدموں کو زنجیر کر دیا۔ وہ کہنے لگی کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے کہ جس کی پیدائش تک مجھے یہاں انتظار کرنا پڑے۔ نہ ہی میں نے آپ کو آپ کے مالک کی نظروں میں گرایا ہے بلکہ آپ کے مالک تو آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور وہ آپ پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔۔ اور اسی لیے آپ کے مالک نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی چیز آپ کو سونپ دی ہے اور مجھے یہ حکم دیا تھا کہ میں شادی کے بعد آپ کو ساری حقیقت بتا دوں۔۔۔

کنزا کی باتوں نے مجھے حیران کر دیا تھا میں پلٹ کر کنزہ کا چہرہ دیکھنے لگا جہاں معصومیت چھائی ہوئی تھی۔۔ وہ اس وقت ایک اٹھارہ سال کی معصوم سی لڑکی تھی جو نہ جانے کن حالات میں گزارا کر رہی تھی۔ کنزہ کہنے لگی کہ وہ حاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے والد نے مجھ سے یہ جھوٹ کہا ہے۔۔ اور اس کے والد نے یہ سب بہت مجبوری میں کیا ہے کیونکہ وہ اپنی بیٹی کی جان بچانا چاہتے تھے۔ کنزا نے میرے قریب آکر میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور مجھے اپنے ساتھ لئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کنزا بہت دھیمے لہجے میں مجھے اپنی سچائی بتارہی تھی اور میں گم سم سا اس کی بات سن رہا تھا۔۔ کنزا کہنے لگی کہ اس کی خالہ نے بچپن سے ہی اپنے بیٹے کے لئے اس کا رشتہ مانگ رکھا تھا اور کنزہ کے والد نے اپنی سالی کی کا رشتہ مانگ رکھا تھا اور کنزہ کے والد نے اپنی سالی کی اچھی عادت دیکھ کر کنزا کا رشتہ اپنی بیوی کے بھانجے سے لے کر دیا تھا۔۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کنزا کے والد کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کیونکہ کنزا کا منگیتر احمر ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے بہت ہی زیادہ بگڑ چکا تھا اس کے پاس نہ ہی پیسے کی کمی تھی اور نہ ہی کوئی روک ٹوک کرنے والا تھا۔۔ احمر کی والدہ کبھی بھی اپنے بیٹے کو غلط بات پر نہ ٹوکتی اور جیسے جیسے امر عمر کی سیڑھیاں طے کرتا جارہا تھا وہ مزید عیاش ہو تا جارہا تھا۔۔۔ کنز ابتانے لگی کہ جن دنوں اس کے ماں باپ امریکہ کے ہوئے تھے احمر نے کئی دفعہ اس کے ساتھ بد تمیزی کرنے کی کوشش کی اور ایک دفعہ تو وہ شراب کے نشے میں دھت گھر آیا اور کنزہ پر تشدد کرنا چاہا لیکن اُس نے خود کو کمرے میں بند کر کے بچالیا۔۔

اور جس رات اس کے تایا کا انتقال ہوا اس سے ایک شام پہلے بھی احمر نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کے کنزا کو ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ اور اسی خوف سے وہ بخار میں مبتلا ہو گئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے کیا کرے کیونکہ اسے خوف تھا کہ احمد اس کے اکیلے پن کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ گھر میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس نے ساری رات مجھے اپنے کمرے میں بٹھائے رکھا وہ احمر سے کہیں زیادہ میرے کردار پر بھروسہ کرتی تھی۔۔۔ اپنے ماں باپ کے واپس آتے ہی اس نے ایک ایک بات آپنے باپ کو بتائی۔ کنزا کے باپ نے احمر کی ماں سے بات کی کہ وہ اپنے بیٹے کو سمجھائیں کے جب کنزا سے شادی کرنی ہے تو اس طرح کی حرکتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔ لیکن احمد کی ماں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ احمر نوجوان خون ہے اور جذبات میں آکر جوش مارتا ہے۔ بچے ہیں تھوڑی بہت مستیاں تو کرتے ہیں کنزا کیوں اتنے پرانے خیالات کی مالک ہے کہ اپنے منگیتر کے ساتھ کچھ وقت بھی نہیں گزار سکتی۔ کنزا کہنے لگی کہ جب ابا کو احساس ہوا کہ انہوں نے کتنا بڑا غلط فیصلہ لیا ہے۔ کیوں کہ احمر کے اتنے زیادہ بگڑنے کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ اس کی اپنی ماں ہے ۔ تو وہ شادی کے بعد بھی ایسی گھٹیا حرکتیں کر سکتا ہے۔ میرے باپ نے جیسے ہی احمد کے ساتھ میرا رشتہ ختم کرنے کی بات کی تو احمر دھمکیوں پر اتر آیا اور اس نے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ وہ مجھے کسی صورت نہیں بخشے گا۔۔ ابا مجھے لے کر بہت زیادہ پریشان تھے کہ جب انہیں لاؤنج کے شیشے کے پار تم گاڑی صاف کرتے دکھائی دیے۔

میں نے ابا کو یہ بھی بتایا تھا کہ تایا کے انتقال والی رات تم نے ساری رات بیٹھ کر میری حفاظت کی تھی ابا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ تم ایک پختہ کردار کے مالک ہو۔ اس لئے ابا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ تم سے میری شادی کروادیں اور احمر سے فوری طور پر چھٹکارا حاصل کر لیں۔۔۔ لیکن احمر یہ شادی اتنی آسانی سے سے نہیں ہونے دے سکتا تھا اسی لئے ابا نے خالا کو یہی بات بتائی کہ تم نے میری عزت پر حملہ کیا ہے اور اب میں امید سے ہوں۔۔ خالا نے خود ہی یہ رشتہ توڑ دیا کیوں کہ وہ عزت دار لوگ ایسی لڑکی کو بہو نہیں بنا سکتے تھے جو شادی سے پہلے ہی حاملہ ھو چکی تھی۔۔۔ ابا تمہیں پہلے ہی روز ساری حقیقت بتا دینا چاہتے تھے لیکن ابا کو ڈر تھا کہ اگر تم نے شادی سے منع کر دیا تو وہ کیا کریں گے اسی لئے ابا نے جان بوجھ کر تمہیں دیکھتے ہی مارنا شروع کیا اور تم پر غلط الزام لگایا اور تمہیں نوکری سے نکال دیا کیونکہ ابا جانتے تھے کہ تمہیں پیوں کی بہت ضرورت ہے ۔ ابا کو یقین تھا کہ تم خود ہی پلٹ کر واپس آؤ گے تو وہ شادی کی شرط رکھ دیں گے۔۔ ابا کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا اور جب تمہیں شہر میں کوئی ٹھکانہ ملا تو تم خود ابا کے در پر چلے آئے اور ابانے شادی کی بات رکھ کر اپنا مسئلہ حل کر لیا۔۔ اور ابا نے مجھے رخصت کر کے اسی لئے تمہارے ساتھ گاؤں بھیج دیا تا کہ ان کا بیٹا ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ ابا جانتے تھے کہ تم ایک بڑے ظرف کے مالک ہو اور ساری سچائی جاننے کے بعد تم مجھے قبول کر لو گے۔۔ ابا کو دنیا کی پر کھ تھی اور ابا پہلے ہی دن سے یہ کہتے تھے کہ تم بالکل بھی لانچی آدمی نہیں ہو بلکہ ایک پختہ کردار کے نیک انسان ہو ۔۔۔

تم چاہو تو میں یہ بات ثابت کر سکتی ہوں کہ میں حاملہ نہیں ہوں اور نہ ہی کسی نا محرم نے مجھے کبھی ہاتھ لگایا ہے بہت مجبوری میں ابا نے مجھے تمہارے نکاح میں دے دیا ہے اور میں نے اپنے پورے دل سے تم سے نکاح کیا ہے کیوں کہ میں خود بھی تمہاری اچھائی کی گواہ ہوں۔۔ ہو سکے تو مجھے اور میرے باپ کو بس ایک جھوٹ کے لئے معاف کر دو۔۔ کنزا کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے اور مجھے ان آنسوؤں میں ایک باپ بیٹی کی بے بسی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے کنزہ کو فارغ نہیں اپنے سینے سے لگا لیا تھاوہ ایک بہت ہی پیاری لڑکی تھی۔ جسے شاید خدا نے اس طرح میرے نصیب میں لکھا تھا۔۔ میری ماں نے بہن کی شادی کی رسموں کے ساتھ ساتھ میری بھی شادی کی رسم شروع کی میں ہر دن اپنی بیوی کو گاؤں کے رسم و رواج کے حساب سے سجنا سنور تا دیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔ کنزہ نے اپنے باپ کو فون کر کے بتایا تھا کہ یہاں ہماری شادی کی رسمیں ہو رہے ہیں تو کنزہ کے ماں باپ بھی خاموشی سے میرے گاؤں چلے آئے تھے اور وہ بھی ہماری شادی میں شریک ہو رہے تھے۔۔۔

میرے مالک نے آتے ہی ہاتھ جوڑ کر مجھ سے اپنے کیے کی معافی مانگی تھی لیکن میں تو انہیں پہلے ہی معاف کر چکا تھا میں خود ایک بہن کا بھائی تھا اور مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ کوئی بھی بھاپ یا بھائی اپنی بیٹی کی شادی کسی بھی ایسے شخص سے نہیں کر سکتا جو بد کردار اور عیاش ھو ۔۔۔ ایک بات جو مجھے اچھی طرح سمجھ آگئی تھی کہ اپنے بچوں کی قسمت کے فیصلے ان کے بچپن میں نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ بڑے ہو کر وہ نا جانے کونسا راستہ اختیار کریں یا ان کے دل میں کسی اور کی محبت گھر جائے آپ اس بات سے واقف نہیں ہو سکتے اور اپکی بہن یا بیٹی یا اتنی ارزاں نہیں ہوتی کہ آپ اسے کسی بد کردار شخص کے ساتھ اسے بیاہ دیں جس کے دل میں کسی اور کی تصویر ہو

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button