ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی حاضر ہوا

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی حاضر ھوا اور بادشاہ سے نوکری کا طلبگار ھوا۔ بادشاہ نے جب اسکی قابلیت دریافت کی تو اسنے بتایا کہ وہ سیاسی عربی مین سیاسی کا مطلب ہوتا ہے کہ افہام و تفہیم سے مسئلے کا حل نکالنے والا اور معاملہ فہم ہے۔
بادشاہ کے پاس پہلے ہی سیاستدانوں کی
لمبی قطار تھی لیکن اتفاق سے اسکے اصطبل کا رکھوالا فوت ھو چکا تھا چنانچہ بادشاہ نے اسے اپنے خاص اصطبل کا رکھوالا بنا دیا۔ کچھ دن بعد بادشاہ نے اس شخص سے اپنے سب سے عزیز گھوڑے کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا کہ یہ گھوڑا نسلی نہیں ہے۔ بادشاہ نے وہ گھوڑا بڑا مہنگا خریدا تھا
چنانچہ بادشاہ نے اس شخص کو حاضر کرنے کا حکم صادر کیا جو دور کہیں جنگل میں گھوڑے سدھانے اور سدھا کر بیچنے کا کاروبار کرتا تھا۔ جب وہ شخص حاضر ھوا تو بادشاہ نے اس شخص سے دریافت کیا کہ تم نے تو مجھے یہ گھوڑا اصلی اور نسلی کہ کر بیچا تھا لیکن یہ تو تسلی نہیں۔ اس شخص نے جواب دیا
که بادشاه سلامت گھوڑا ہے تو نسلی لیکن اسکی پیدائش ہے تو کے وقت اسکی ماں مرگئی تھی چنانچہ یہ گھوڑا ایک گائے کا دودھ پی کر اور اسی گائے کے زیر سایہ پلا ہے اور بچپن اپنے گائے کے ساتھ ہی گزارا ہے۔ بادشاہ نے اس شخص کو رخصت کیا اور اپنے اصطبل کے رکھوالے کو بلا کر پوچھا کہ تم کو کیسے پتا چلا
کہ گھوڑا اصلی نہیں اسنے جواب دیا کہ گھوڑا جب گھاس کھاتا ہے تو سر نیچے کر کی گائیوں کی طرح گھاس کھاتا ہے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سر اٹھا لیتا ہے۔ بادشاہ اسکی فراست سے خاصا متاثر اور حیران ھوا اور اسکے گھر میں اناج ،، گھی، بھنے دنبے اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا۔
اسکے ساتھ ساتھ اسکو اپنی بیگم کے محل میں تعینات کر دیا۔ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد اپنے اپنے مصاحب سے اپنی بیگم کے باریے میں رائے مانگی تو اسنے جواب دیا کہ اسکے طور اطور تو ملکہ جیسے ہیں لیکن شہزادی (کسی بادشاہ کی بیٹی ) نہیں ہے ۔ یہ سن کر بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ اسکی بیوی
ایک بادشاہ کی بیٹی تھی۔ بادشاہ نے اپنے حواس درس کیے اور اپنی ساس کو بلا بھیجا اور معاملہ اسکی گوش گذار کیا۔ بادشاہ کی ساس نے اسے جواب دیا کہ حقیقت یہ ھے کہ تمہارے باپ نے میرے میاں سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی اسکارشتہ مانگ لیا تھا لیکن ہماری بیٹی 6 ماہ کی عمر میں فوت ھو گئی چنانچہ ہم نے
تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے واسطے اس بچی کو اپنی بیٹی بنالیا اور اسکی پرورش کر کے تمہارے ساتھ اس کی شادی کر دی۔ بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا کہ تم کو کیسے پتا چلا کہ میری بیوی شہزادی نہیں ہے۔ اسنے کہا کہ اسکا سلوک خادموں کے ساتھ ٹھیک نہیں اور بادشاہ اسطرح نہیں کرتے۔
بادشاہ اپنے مصاحب کی فراست سے مزید متاثر ھوا اور بہت سا اناج اور بھیڑ بکریاں بطور انعام اس مصاحب کو دیے اور اسکے ساتھ ساتھ اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسنے اپنے اس مصاحب سے اپنی بارے میں دریافت کیا۔ مصاحب نے کہا کہ اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔
بادشاہ نے اس سے جان کی امان کا وعدہ کیا تو اسنے کہا کہ تم ھو تو بادشاہ لیکن نہ تم بادشاہ کے بچے ہو نہ تو تمہارا چال چلن بادشاہوں جیسا ہے یہ سن کر بادشاہ کے پاؤں تلے زمین نکل گئی امان کا وعدہ وہ پہلے ہی دے چکا تھا چنانچہ وہ اس گتھی کو بھی سلجھانے اپنی والدہ کے محل جا
پہنچاتا کہ پتا چلے کہ ماجرا کیا ہے۔
اس کی والدہ نے اسکی بات سن کر کہا کہ ہاں تم بادشاہ کے نہیں بلکہ ایک چرواہے کے بیٹے ہو۔ بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں بادشاہ کا بیٹا نہیں ہوں۔ مصاحب نے بادشاہ کو جواب دیا کہ بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں تو ہیرے موتی اور جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں
لیکن تم جب بھی کسی کو انعام و اکرام سے نوازتے ہو تو اناج اور بھیڑ بکریاں اور کھانے پینے کی چیزیں عنایت کرتے ہو یہ اسلوب کسی بادشاہ کے بیٹے کا نہیں بلکہ مله کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو سکتا ہے۔