میری بیٹی چندہ بہت خوبصورت ہے کچھ دن پہلے ہم جنگل میں کام کررہے تھے کہ

سلطان محمود غزنوی کا زمانہ تھا ایک بوڑھا پریشان شخص اپنے گھر میں ٹہل رہا تھا اور وہ بہت بے چین تھا ۔ اتنے میں اس کا دوست محمد ابراہیم اس کے گھر آیا اس نے اپنے دوست کو پریشان دیکھا تو پریشانی کا سبب جاننا چاہا ” کیا ہوا میرے دوست تم کیوں پریشان ہو کیا سبب
ہے کہ تم اتنے بے چین ہو اس پر بوڑھے شریف نے کچھ کہنا چاہا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا اور پھر بے چینی میں ملنے لگا ” کیا بات ہے کونسی پریشانی ہے مجھے بھی تو بتائو شاید میں تمہاری کچھ مدد کرسکوں ابراہیم نے پھر اس ے پوچھا ” بات یہ ہے کہ تمہیں پتا ہوگا نا میری
ییٹی چندہ بہت خوبصورت ہے ۔ کچھ دن پہلے ہم میں کام کررہے تھے کہ سلطان کے وزیر خاص کے بیٹے کا گذر یہاں سے ہوا وہ جنگل میں شکار کرنے آیا تھا ۔ اس نے میری بیٹی کو دیکھا جو پسند آگئی ۔ وزیر کے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ وہ پانچ دن بعد آۓ گا اور میری بیٹی کو لے
جاۓ گا ۔ تب سے میں بہت پریشان ہوں کیونکہ چندہ کی منگنی اس کے چاچا زاد عبداللہ سے ہوچکی ہے اب میں اسے شہزادے کے حوالے کردوں یہ ممکن نہیں ہے ۔ اب میں پریشان اس لئے ہوں کہ میں شہزادے کو کیسے روکوں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ” شریف کی آنکھوں سے آنسو
گرنے لگے ابراہیم نے ہمدردی سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا ” بات واقعی پریشانی کی ہے میرے دوست کیا تم اس بارے میں سلطان کے پاس درخواست لیکر گئے ہو ۔ نہیں اگر لے کر جاوں بھی تو کیا سلطان مجھ سے انصاف کرے گا اور جب سامنے اس کے وزیر خاص کا بیٹا
ہو تو ممکن ہی نہیں کے سلطان میرے ساتھ انصاف کرے ۔ بوڑھے شریف نے مایوسی سے کہا ” نہیں تم مایوس نا ہو شریف سنا ہے سلطان بہت انصاف پسند ہے اس نے کئی غریب اور مسکین لوگوں سے انصاف کیا ہے ۔ تم ایک بار آزما کر تو دیکھو ۔ سلطان کے دربار تک تم میرے واسطے
سے بہت جلد پہنچ جاؤگے ” ابراہیم نے اتنی بات کہی اور شریف نے اس کی بات مان لی ابراہیم کی مہربانیوں سے وہ اگلی صبح سلطان محمود غزنوی کے سامنے تھا ۔ سلطان کے سامنے مسئلے پیش کئے جا رہے تھے ۔ اور وہ انہیں انصاف کے ساتھ حل کرتا جا رہا تھا ۔ جب اس کی باری آئی
تو اس نے کہنا شروع کیا ” سلطان عالى ! جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ” سلطان نے کہا جان کی امان دی جاتی ہے بولو کیا مسئلہ ہے تمہارہ ؟ شریف نے کہا ” عالى جان ! ہماری ایک ہی بیٹی ہے اور اس کی منگنی ہوچکی ہے بات دراصل یہ ہے کہ کچھ دنوں پہلے میں اور میری
بیٹے جنگل میں کام کررہے تھے کہ آپ کے وزیر خاص کے بیٹے کا گزر وہاں سے ہوا اس کو میری بیٹی پسند آگئی ہے اور اس نے کہا ہے کہ وہ پانچ دن بعد میری بیٹی کو لے جاۓ گا اور اگر میں نا مانا تو وہ زبردستی میری چاند جیسی خوبصورت بیٹی کو اٹھا کر لے جاۓ گا ۔ آپ سے
عرض ہے کہ ہم سے انصاف کریں اور ہمیں یقین ہے کہ آپ انصاف کریں گے کیا یہ شخص کہہ رہا ہے سلطان کے ماتھے پر تیوریاں چڑھی ہوئیں تھیں اس نے اپنے وزیر خاص سے پوچھا تو وہ کانپتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور لرزتی ہوئی آواز میں کہا ” جی حضور یہ سچ کہہ رہا ہے
لیکن سلطان نے اس کی بات کو مکمل بھی ہونے دیا اور حکم دیا کہ ” سپاہیوں آج ہی اس کے بیٹے اور اسے قید خانے میں ڈال دیا جاۓ کیونکہ جو قوم کی ماؤں بیٹیوں میں غلط نگاہ ڈالیں وہ ہمارے خیر خواہ کبھی نہیں ہو سکتے اور ایسوں کی جگہ قید خانہ ہے ” سلطان کا چہرہ سلطانی
جاه و جلال سے دمک رہا تھا ۔ بوڑھے شریف نے شکرگذاری سے سلطان کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں سے خوشی سے آنسو گر پڑے ۔ دعا ہے کہ ! ہمارے ملک میں بھی ایسے حکمران آجائیں تا کہ غریبوں کو انصاف مل سکے ۔
Sharing is caring!