دلچسپ و عجیب

میرے شوہر اور بچے باہر کے ملک ہوتے ہیں

میر انام مسز رشید ہے میں شادی شدہ ہوں میرے دو بچے ہیں میری شادی کم عمری میں ہو گئی تھی اور ساتھ ہی میرے دو بچے بھی ہو گئے تھے جس کے بعد میرے شوہر باہر چلے گئے تھے میں نے خود اپنے بچوں کی پرورش کی تھی اس کے بعد جیسے ہی میں 34 سال کی ہوئی تھی تو میرے بچے بھی پڑھائی کرنے میرے شوہر کے ساتھ باہر ہی چلے گئے تھے مجھے سب لوگوں نے بہت روکا تھا کہ پہلے میرے شوہر کی کمی ہوتی تھی اور میں انہیں کافی مس کرتی تھے لیکن وہ مجھے چھوڑ کر باہر چلے گئے پر اب تو میرے بچے بھی باہر چلے گئے جو اس وقت میر اسہارا بنتے تھے لیکن میرے لیے میرے بچوں کی پڑھائی ضروری تھی

اس لیے میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر یہ مشکل فیصلہ کیا میں اب زیادہ تر اپنی امی کے گھر رہنے لگی تھی لیکن میری بھا بھی میرے روز آنے جانے سے موڈ بنالیتی تھی اسی وجہ سے میں فوراً اپنے گھر چلی جاتی تھی میں رات کو اپنے گھر ہی سویا کرتی تھی مجھے ڈر بھی لگا تھا اس لیے میں نے اپنی ایک میڈ کو مستقل اپنے پاس رکھ لیا تھا تا کہ وہ میر اسہارا بن سکے کچھ دنوں تک میری اور اس کی اچھی خاصی بن گئی تھی لیکن پھر اس نے آنے سے منع کر دیا تھا اور مجھے کہنے لگی کہ اس کے شوہر نے تنخواہ بڑھانے کا کہا ہے میں اسے پہلے ہی تیس ہزار دیتی تھی اس سے زیادہ میں اسے نہیں دے سکتی تھی اس لیے میں نے بھی اس کی کوئی منت نہیں کی اور سوچ لیا تھا

کہ اب گھر کا سارا کام خود ہی کروں گی اب میں ہر روز صبح سویرے اٹھتی تھی اور پہلے سارے گھر کی صفائی کرتی تھی یہ گھر میرے شوہر کے نام تھا اور ہمارا ذاتی گھر تھا اس وجہ سے یہ کافی بڑا تھا میں تین گھنٹے میں صفائی کر کے تھک جایا کرتی تھی اور میری عم بھی اب بڑھ گئی تھی جس کیوجہ سے یہ کام میرے لیے کافی مشکل ہوتے تھے کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں اپنے کپڑے ہاتھ سے دھوتی تھی کیوں کہ وہ برانڈڈ کپڑے ہوتے تھے اور مشین میں دھونے سے ان کا رنگ خراب ہو جاتا تھا اسی طرح دو پہر ہو جاتی تھی تو میں کچن کا رخ کر لیتی تھی میں اپنے فیگر کاکافی خیال رکھتی تھی تو اس لیے مجھے اسپیشل ڈائیٹ چاہیے ہوتی تھی

تقریباً ایک مہینہ میری یہ ہی روٹین رہی تھی اس کے بعد سے اچانک میری کمر میں درد ہونا شروع ہو گیا تھا پہلے تو میں نے بہت سے گھریلو نسخوں پر عمل کیا تھا کیوں کہ میں کم ہی ڈاکٹر کے پاس جاتی تھی پر وہ درد تو بڑھتا جارہا تھا اب مجھے بھی فکر ہونے لگی تھی کیوں کہ مجھ سے کوئی کام نہیں ہوتا تھا اور میں سارا دن گھر میں بستر پر پڑی رہتی تھی میرے شوہر نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں اچھے فزیو تھراپسٹ سے چیک کر والوں میں نے اس بارے میں سوچنے کا فیصلہ کیا تھا اور ایک دن اپنی امی کو ساتھ لے کر میں فزیو تھیراپسٹ سے چیک کروانے چلی گئی تھی میں اس کے کلینک گئی جو کہ میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا

وہ ایک پرائویٹ کلینک تھا پہلے تو میں نے اپنی پر چی بنوائی اور پھر اپنے نمبر کا انتظار کرنے لگی تھی جب کچھ دیر کے بعد میر انمبر آیا تو میں اپنی امی کو ساتھ لے کر ڈاکٹر کے آفس میں چلی گئی تھی وہ ڈاکٹر پچیس سال کا جوان لگ رہا تھا اور ایسالگ رہا تھا جیسے وہ نیا یا اس فیلڈ میں آیا ہے اس کا انداز بھی کافی مہزب تھا میں اس کی ہر ادا میں فدا ہو رہی تھی جب اس مجھ سے میری ساری ہسٹری لی اور میں نے اسے بتایا کہ میری کمر میں درد ہے کچھ دیر بعد ہی وہ مجھے پردے کے پیچھے لے گیا تھا لیکن میری امی آفس ہی بیٹھ کر میرا انتظار کر رہی تھی اب ڈاکٹر نے میری کمر کا معائنہ کرناتھاتا کہ وہ جان سکے کے درد کس جگہ ہے

میں ایک چھوٹے سے بیڈ پر منہ کے بل لیٹ چکی تھی کب وہ مجھ سے میر اوہ پوائنٹ پوچھنے لگا جدھر مجھے درد ہو رہا تھا اب وہ اپنے ہاتھ سے مجھ سے پوچھنے لگا تھا میرے اندر ایک عجیب سا احساس جاگ رہا تھا اس کے ہاتھ بہت نرم تھے جیسے ان کے چھونے سے ہی مجھے آدھی شفامل گئی تھی ڈاکٹر نے مجھے باہر آنے کا کہا اور ہم واپس آفس آگئے تھے اس نے مجھے ورزش کرنے کا کہا اور بہت سی ورزش بھی بتائی تھی جنہیں میں نے صبح اٹھ کر کرنا تھا اور پھر ایک ہفتے کے بعد دوبارہ ڈاکٹر کور پورٹ بھی دینی تھی میں واپس گھر آگئی تھی وہ ورزش میں نے انٹرنیٹ پر سرچ کی تو وہ بہت ہی مشکل تھی مجھ سے وہ لاکھ کوشش کے باوجود نہیں ہو رہی تھی

اس لیے ایک ہفتہ میں نے ایک بغیر ورزش کے گزار لیا تھا اگلے ہفتے میں نے امی کو اپنے ساتھ آنے سے منع کر دیا تھا کیوں کہ پچھلی دفع وہ بہت زیادہ تھک گئی تھی اسلیے اب میں خود ہی چلی گئی تھی ڈاکٹر نے مجھ سے پچھلے ہفتے کی رپورٹ مانگی تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ وہ ساری ورزش خود سے نہیں ہو رہی تھی اس لیے میں نے کوئی ورزش نہیں کی جب کہ اس وجہ سے میری کمر کا درد مزید بڑھ گیا تھا ڈاکٹر بھی پریشان ہو رہا تھا جب میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ مجھے روز گھر آکر کروادیں تو میں ان کی شکر گزار ہوں گی کیوں میں روز کمر کا در دلگ کران کے پاس نہیں آسکتی تھی ڈاکٹر نے بھی میری بات مان لی اور میں واپس گھر چلی گئی

میں نے اسے گھر کا اڈریس بھی سمجھا دیا تھا اگلے دن میں سورہی تھی جب ڈاکٹر صبح سویرے بیل بجانے لگا تھا میں جلدی سے اٹھی اور دروازہ کھول کر ڈاکٹر کا ولیکم کیا اس کے بعد فریش ہو کر واپس آئی اب وقت آگیا تھا کہ ڈاکٹر مجھے ورزش کرواتا اس نے پہلے مجھے ایک اسٹیپ سکھایا اور میرے بازو کو کھولنے لگا میں بھی اس کی ہر بتائی ہوئی بات پر عمل کرنے لگی تھی اور اسی طرح ورزش کرنے لگی تھی وہ میرے ہاتھ اب اوپر کی جانب لے گیا اور مجھے گہر اسانس لینے کے لیے کہنے لگا تھا جس کی وجہ سے میں بہت ہی واضع ہو رہی تھی پر میں جانتی تھی کہ یہ

سب اپنی صحت کو اچھا کرنے کے لیے کرنا پڑے گا کچھ دن تک ایسے ہی ڈاکٹر نے مجھے

ورزش کرنا سکھایا میں بھی اب اس سب کی عادی ہو گئی تھی میں نے ایک بات یہ بھی نوٹ کی تھی کہ وہ مجھے ورزش سکھانے کے چکر میں جگہ جگہ چھوتا تھا پہلے تو میں نے اس بات پر غور نہیں کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ اس نے اپنی وہ حرکت بڑھادی تھی اور میں بھی اس کو محسوس کرنے لگی تھی کبھی وہ مجھے پیچھے سے ورزش کرواتا تھا تو میں اچھی طرح محسوس کرنے لگتی تھی اور مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ سب وہ جان کر کروا رہا ہے اس چبھن سے میں بھی جوش میں آ جاتی اور اس طرح میری ورزش میں ایک نیا تڑ کا لگ گیا تھا اب میں بس صبح کا انتظار کرتی تھی

وہ بھی عجیب قسم کی ورزش کروانے لگا تھا میری کمر کا درداب پہلے سے بہتر ہو گیا تھا

پر مجھے اس ورزش کی عادت ہو گئی تھی اس لیے میں ڈاکٹر سے کچھ بھی نہ کہتی تھی ایک دن ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تھا کہ اب وہ اس ورزش کو اور بھی آگے لے کر جانا چاہتا ہے اور اس کے مشکل اسٹیپ کو فالو کرنا چاہتا ہے میں اس کی بات سمجھی نہیں تھی جس پر وہ سمجھانے لگا کہ یہ ا پیش ورزش ہے جس سے میرے اور میری شادی شدہ زندگی بھی سنور جائے گی اور کمر کا درد میری شادی شدہ زندگی پر کوئی اثر نہیں کرے گا میں نے اس کی بات کو مان لیا تھا کہ اگر مجھے اس ورزش سے فائدہ ہوگا تو میں وہ کرنے کے لیے تیار ہوں ڈاکٹر نے اس کے لیے مجھے کوئی چست ساڈر میں پہنے کو کہا تھاتا کہ مجھے ورزش کرنے میں آسانی ہو

میں بھی ایسا کرنے کے لیے تیار ہو گئی تھی میں نے جلدی سے اپنا الگ ساڈر میں پہنا اور اچھا سا پر فیوم لگا یاوہ پر فیوم بہت اچھی کمپنی کا تھا جو لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا تھا اور لوگ اس بندے کے دیوانے ہو جاتے تھے میں نے یہی سوچ کر اچھا خاصا پر فیوم خود پر چھڑک لیا اب مجھ سے بہت اچھی سی مہک آرہی تھی میں نے خود کا جائزہ لیا میر اوہ ڈریس کافی اچھا تھا اور اس کا گلا گہرا تھا میری خوبصورتی اس ڈریس سے کافی حسین لگ رہی تھی بلاشبہ کوئی بھی اس کا دیوانہ ہو سکتا تھا میں نے وقت ضائع کیے بغیر باہر کا رخ کیا جدھر وہ میرا انتظار کر رہا تھا اس نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو پہلے ہی اس کی نظر میرے حسن پر گئی تھی اور مجھے اندازہ ہو گیا تھا

کہ اب اس کی رال ٹپکنے لگی ہے لیکن اس نے خود پر قابو کیا تھا اور اب مجھے پھر سے ورزش کروانے لگا تھا میں بھی دوبارہ سے اسے فالو کر رہی تھی اب وہ مجھے بار بار چھو رہا تھا وہ میری خوبصورتی کو اپنے ہاتھوں سے محسوس کر رہا تھا کبھی میری پیچھے جاکر کھڑا ہو جاتا تھا تو کبھی اپنے ہاتھوں سے کام لیتا تھا میں بھی اس کے ہاتھوں کو خود پر محسوس کر کے بے چین ہو جاتی تھی اور گہری سانس لینے لگی تھی وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ میری کیفیت اس وجہ سے خراب ہوتی ہے جو وہ ورزش کے چکر میں میرے ساتھ کرتا تھا اس وجہ سے اس نے کچھ دیر کے لیے مجھے بریک دے دی میں نے خود پر قابو پایا اب وہ مجھے دیکھ رہا تھا اس کی نظروں کی چمک میں سمجھ گئی تھی

خود پر قابو نہ رکھتے ہوئے اس نے مجھے پکڑ لیا تھا تو میں حیران ہو گئی تھی کیوں کہ اس کی گرفت کافی سخت تھی اور اس کی حرکت کافی تیز تھی میں نے اسے کرنے سے روکا تھا کہ یہ کام ورزش میں بالکل شامل نہیں ہے تو وہ کہنے لگا کہ اس کام کا کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ اس کا تو فائدہ ہی فائدہ ہے پر میں یہ سب نہیں چاہتی تھی کیوں کہ مجھے عجیب سی جھجک ہو رہی تھی وہ بھی اب مجھے تیار کرنے لگا تھا میں اپنی بڑھتی ہوئی نے چینی کے سامنے ہار مان چکی تھی اور اسے پکڑ کر اپنے روم میں کے گئی تھی اس نے جلدی سے مجھ پر جھک کر اپنا کام کیا تھا میں اس کا ساتھ دینے

لگی تھی اپنے شوہر کی کمی کو میں نے بھر پور طریقے سے پورا کیا تھا

میری کمر کا درد تو پہلے سے ٹھیک تھا لیکن اب یہ روز کا معمول بن گیا تھا وہ ڈاکٹر مجھے ورزش کروانے آتا اور بعد میں ہم مل کر ایک دوسرے کا کام کرتے تھے اسی طرح میرا اکیلا پن بھی دور ہو جاتا تھا اور مجھے کمپنی بھی مل جاتی تھی میں بالکل فریش ہونے لگی تھی دو مہینے تک یہ سب چلتارہا تھا جب اس ڈاکٹر نے مجھے آکر بتایا کہ وہ اب کسی دوسرے شہر منتقل ہو رہا ہے میں بہت اداس ہو گئی تھی کیوں کہ میں دوبارہ سے بور ہونے والی تھی میں اسے روک بھی نہیں سکتی تھی کیوں کہ وہ ابھی نیا ڈا کٹر بنا تھا اور اس طرح اس کے کام میں برا اثر پڑ سکتا تھا میں نے بھی آخری دفع اس کے ساتھ جی بھر کر کام کیا تھا اور انجوائے کیا تھا

اس کے بعد وہ شہر سے باہر چلا گیا تھا پر فون پر بھی ہم لوگ انجوائے کرتے تھے اور ڈھیروں باتیں کرتے تھے

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button