شادی شدہ بیٹی کو تباہ کرنے والی ماں کی باتیں

وہ ایک معصوم اور بھولی بھالی لڑکی تھی.. شادی ہوئی تو ماں کا دن میں دو بار فون آتا، ہاں کیا کر رہی ہو ؟؟؟ کس ٹائم اٹھی؟؟؟ ناشتے میں ساس نے کیا کھایا؟ سر نے کیا کھایا؟ نندوں نے کیا کھایا ؟؟ اچھا تو سارا کچھ تم نے پکایا۔ کیسے فرمائشیں کر کر کے پکواتے ہیں میری بچی سے۔۔اسے حیرانی ہوتی ماں کو میری
اتنی پرواہ شادی سے پہلے تو نہیں تھی۔ وہاں تو خود کہا کرتی تھی کہ سب بہن بھائیوں کا ناشتہ بنادے … اور اب یہاں ساس کہتی ہے تو امی کو برا لگتا ہے۔۔۔ لیکن سسرال میں اسے احساس ہوتا تھا کہ کوئی پرواہ نہیں کرتا تو ماں کا پر واہ کرنا اچھا لگتا۔ پھر رات کو جیسے ہی میاں نے گھر آنےا۔ اس نے کھانا وغیرہ دینا
اور ساتھ ہی امی کا فون آجانا۔ میاں کا مزاج کیسا تھا۔ آتے ہی کس سے ملا؟؟ کیا بات کی ؟؟؟ میں کچن میں مصروف تھی تو وہ اپنی امی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ پاگل نہ ہو تو ماں کے ساتھ اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟؟؟؟ تنی بار سمجھایا ہے کہ جب وہ گھر آیا کرے اسکے ساتھ ساتھ رہا کر پتہ نہیں ماں بہنوں نے
کیا کیا پٹیاں پڑھائی ہو گی تجھے تو عقل ہی نہیں آتی. وہ پھر حیران کہ میں کھانا بناؤں یا میاں اور اسکی ماں کی جاسوسی لیکن پھر والدہ نے ہی حل بتایا کہ کھانا پہلے سے تیار کر دیا کر اور پھر ان دونوں کے پاس پاس رہا کر ۔ آہستہ آہستہ وہ میاں کی پہرہ داری کرنے میں ٹرینڈ ہو
گئی تھی۔ ساس نے ماں کے ہر وقت کے
فون پر اعتراض کیا تو اسنے ماں کو بتایا۔ ماں نے اگلے ہی دن بھائی کو لینے بھیج دیا کہ جاؤ بہن کو لے آؤ۔ شروع میں دو ہفتے رہتی پھر تین ہفتے اور پھر کئی کئی مہینے ماں کے گھر گزارنے لگی۔ اسے ماں کے آئے دو ہفتے ہو چکے تھے۔ میاں لینے آیا ہوا تھا وہ تیاری کر رہی تھی۔۔۔ جب اسکامیاں تھوڑی دیر کو اٹھ کر باہر گیا۔
تو اسکی ماں اندر آئی اور چھوٹی سے کہا کہ دروازے میں کھڑی ہو جاؤ۔ جیسے ہی کوئی آئے تو تب ماں نے اسے پھر سے پٹی پڑھانی شروع کی. ساس کوئی کام کہے تو کہنا اس حال میں مجھ سے زیادہ کام نہیں ہوتا۔ کمر درد کا بہانہ کر کے پڑی رہنا۔ زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
ر تمہیں کیا پڑی ہے نندوں کے لیے پکاؤ۔ اور
اپنا خود پکا لیں۔ تمہاری کیا ذمہ داری۔اتنے میں کسی کے آنے کی آواز آئی۔ تو ماں نے جلدی سے موضوع بدلا. دیکھ بیٹا۔ ساس بھی ماں جیسی ہوتی ہے۔ اسکی خدمت کرنا تمہارا فرض ہے۔ جیسے وہ کہیں ویسے ہی کرنا۔ دونوں بہنوں نے ماں کو پینترا بدلتے دیکھا۔ اتنے میں آآنے والا کمرے میں داخل ہوا تو چھوٹی کھی کھی کرنے لگی۔
امی یہ تو بھائی ہیں۔ جیجو تو نہیں۔ ماں نے گھور کے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔ بیٹے نے اندر داخل ہوتے ہوئے ماں کی بات سن لی تھی اور وہ ماں کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہوا. اور بولا۔ ہاں ہاں امی کی باتیں غور سے سنو اور پر عمل کرد. خاندان جوڑ کر رکھو۔ ماں سمجھداری سے سر ہلاتی رہی۔ اچھا امی میں ذرا باہر جا رہا ہوں.. ان پر
پیٹا کہہ کر باہر نکل گیا. ماں نے بیٹے کے دور جانے کی تسلی کی اور پھر بیٹی کو گھورتے ہوئے بولی. کبھی عقل نا کرنا تو امی آپ نے تو اچھی اچھی باتیں جیجو کو سنانی تھی مگر وہ بھائی نکل آئے اس لیے میں ہنس رہی تھی۔ نہیں تو تمہارے بھائیوں کو یہ بتا دوں کہ میں اپنی بیٹیوں کو پٹیاں پڑھاتی ہوں؟
ان کے سامنے بھی تو خود کو اچھا دکھانا ہے نا۔ انہیں کے ساتھ تو زندگی گزارنی ہے۔ جو کچھ میں تمہاری بہن کو سکھاتی ہوں تم بھی غور سے سنا کرو۔ کل کو تم نے بھی سسرال جانا داماد اور بیٹوں کو سنانے کے لیے سب اچھی باتیں کی جاتی۔ اور تنہا بیٹیوں کے ساتھ مل کر سازشیں تیار کی جاتی۔ نئی نئی چالوں پر غور ہوتا.
بیٹی بھی باقاعدگی سے فون پر ادھر کی ساری رپورٹ ادھر دیتی رہی اور اعلی ترین مشوروں پر عمل ہوتا رہا۔ بالآخر وہ وقت آگیا جب وہ سسرال سے الگ ہو گئی۔ اندر کھاتے ماں بیٹی اپنی سکیموں کی کامیابی پر جشن منارہی تھیں۔ مگر اوپر اوپر سارے خاندان کو کہا جارہا تھا۔ ماں بیٹے کی آپس میں نہیں بنی۔
ماں نے خود ہی کہہ دیا الگ رہ لو۔ سارا سسرال برا تھا اور وہ اچھی تھی ۔ فون اب بھی چلتے تھے۔ پل پل کی خبریں اب بھی ملتی تھی۔ مگر ساری سازشوں اور چالوں کے باوجود عجیب عجیب مسائل سامنے آتے رہتے تھے۔ ماں کا سپنا کہ بیٹی رانی بن کر راج کرے… سپنا ہی رہا۔ کبھی رزق کبھی بیماری کبھی نقصان کبھی اولاد .
کسی نا کسی تنگی کارونا چلتا ہی رہتا۔ کیوں کہ رب نے اس دنیا کا نظام ایسا ہی بنایا ہے۔ آپ اپنا بویا کاٹتے ضرور ہیں لیکن ہو سکتا ہے وہ صورت بدل کے آپ کے سامنے آ جائے… اور آپ سمجھ نہ پائیں۔ جب انسان دل تنگ کرتے ہیں تو انکے لیے نعمتوں میں بھی تنگی کر دی جاتی ہے۔ جب آپ حق مارتے ہیں تو آپ کا بھی
کہیں نا کہیں حق مار دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ انسانوں سے بہتر چالیں چلنے والا اور انسانوں کی چالوں کو پلٹنے والا موجود ہے۔ اپنی بیٹیوں کو نفع کے سودے کرنا سکھائیں، خسارے کے نہیں۔