ٹیچر بولا بسمہ میں آپ کی کمر پر کریم لگاتا ہوں

میں بہت غریب تھی اور پڑھائی میں بہت لائک تھی پھر ایک دن ایک ٹیچر کہتے کہ میں تمہیں فری میں ٹیوشن پڑھا دیا کروں کا ایک دن میں نیچر کے گھر بیٹی پڑھ رہی تھی کہ ٹیچر نے مجھے بہانے سے وہ کام کرنے کا اشارہ کیا گھر پہ کوئی نہیں تھا میں نہ سمجھ تھی ٹیچر کی باتوں میں آکر اس کے ساتھ ۔۔ ناظر من کہانی میں آگے کیا ہوا جاننے کے لیے کہانی کو آخر تک لازمی سنیں اور میرے چینل کو بھی سبسکرائب کر دیں تا کہ اس طرح کی کہانیاں آپ کو ڈیلی میرے چینل پر ملتی رہیں چلیں کہانی شروع کرتے ہیں میر انام بسمہ سے اور میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ میں دسوس
جماعت کی طالبہ ہوں گھر والے میری پڑھائی گاز مادہ خرچہ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے مجھے سرکاری سکول میں داخل کر واد یا۔ میری عمر انیس سال ہے اپنی عمر کے حساب سے میں دو جماعتیں پیچھے ہوں پیسے نہیں ہونے کی وجہ سے ابو نے مجھے سکول نہیں جانے دیا تھا۔ میں نے نو میں جماعت میں اپنے سکول میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں دسویں جماعت میں ہمارے ایک نئے استاد آئے وہ بہت جوان اور قابل استاد تھے اور سب سے اچھی بات وہ ہمارے گھر کے نزدیک ہی رہتے ہیں۔ میں اپنی کلاس میں سب سے آگے والی سیٹ پر بیٹھی تھی جب استاد جی ہمیں بڑھارہے
تھے میرے ہاتھ میں اٹھایا بین ان کے قدموں میں جا گرا میں نے جھک کر ان کے قدموں سے پن اٹھایا۔ جب نظر میں اٹھا کر سر کی جانب دیکھا تو ان کا چہرہ پسینے سے تر تھا اس دن گرمی بھی بہت زیادہ تھی اور بجلی بھی نہیں تھی۔ میں اپنی کلاس میں لگے تم رومت میں پڑھائی میں تمہاری مدد کرد و نگا تم شام کے وقت میرے گھر آجایا کرو میں تمہیں پڑھا دیا کروں گا۔ سرنے کہا اور میں نے مان لی ان کی بات۔ مجھے ان کا گھر معلوم تھا اس لیے شام پانچ بجے سر کے گھر چلی آئی۔ وہ گھر پر اکیلے تھے۔ ان کا زیادہ بڑا گھر نہیں تھا۔ لاونج میں گرمی ہے کمرے میں آجاؤں اے سی لگا ہوا ہے ٹھنڈی
ہوا میں پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ سرنے کہا اور میں ان کے ساتھ بیڈ روم میں چلی گئی۔ سمیری عمر ضر ر زیادہ تھی عقل کم ہی تھی۔ سر مجھے پڑھا رہے تھے جب اچانک انہوں نے اپنی شرٹ اتار دی۔ ان کا گور اسفید بدن دیکھ کر میں نے گردن جھکادی۔ بسمہ میری کمر پر یہ کریم لگامیر اہاتھ نہیں پہنچتا۔ انہوں نے مجھے کریم لگانے کا کہا مجھے شرم آرہی تھی مگر پھر بھی میں لگانے لگی سر الٹا لیٹے ہوئے تھے اور میں ان کے اوپر جھلی ہوئی تھی۔ کریم لگا کر میں دوبارہ پڑھائی کرنے لگی۔ بسمہ آو تمہیں بھی کریم لگادوں بہت سکون ملے گا تمہیں گرمی ختم ہو جائے گی تمہاری۔۔ سر اپنا ہاتھ میری کمر پر رکھ
کر بولے۔ نہیں سر مجھے نہیں لگوانی۔ میں نے منع کر دیا تو وہ کہنے لگے۔ تم جانتی ہو سر کی بات کو نہ مانا کتنی بری بات ہے۔ میں ناراض ہو جاؤں گا اور پھر اچھے سے پڑھاوں گا بھی نہیں پھر تم پیپر میں پاس کیسے ہو گی۔ سرنے مجھے پیپر کہ دھمکی دیتے ہوئے کہا میں پیپر کے فیل ہونے کے ڈر سے ان کی بات مان گئی پھر انہوں نے میری کمر میں پر بھی ویسے ہی کریم لگائی جیسے میں نے ان کی کمر پر لگائی تھی میر ابدن دودھ جیسا سفید اور ملائی جیسا نرم ہے سر میری کمر پر ہاتھ وہ پھسل جاتا وہ کافی دیر تک زور لگا کر میری کمر میں کریم لگاتے ہوئے مجھے بہت پر سکون محسوس ہورہا تھا۔ میری یہ بہت خاص
کریم ہے میں نے جرمنی سے منگوائی ہے اس کریم کو لگانے سے دماغ تیز ہوتا ہے اگر تم کہو تو ہر دن لگا کروں۔ مجھے کچھ عجیب لگا کہ کمر پر کریم لگانے سے دماغ کیسے تیز ہوتا ہے۔ مگر میں چاہتی تھی میر ادماغ زیادہ تیز ہو اس لیے میں نے ہامی بھر دی۔ رات کے آٹھ بج کئے تھے اور مجھے پتاہی نہیں چلا میں نے پڑھائی بھی بہت کم کی تھی۔ سر مجھے اب چھٹی دے دیں مجھے گھر جانا ہے مجھے دیر ہورہی ہے امی پریشان ہورہی ہوں گی۔ میں اپنی بک بیگ میں ڈالتے ہوئے بولی۔ اچھا ٹھیک ہے تم گھر چلی جاو باقی پڑھائی ہم کل کر لیں اور ہاں امی کو یہ مت بتانا میں نے تمہیں اور تم نے میری مالش کی ہے۔ سر
نے کہا۔ ہم کمرے سے نکل کر لان میں آئے وہاں ہر طرف اند میر اتھابلب روشن نہیں تھا اچانک میں کسی چیز سے ٹھکر اکر زمین پر گری اور میرے اوپر سر کر کے میں زور سے چینی کیونکہ مجھے درد محسوس ہوا تھا کچھ دیر بعد سر میرے اوپر سے اٹھے۔ اور کہنے لگے کیا بسمہ آپ بھی دیکھ کر چلا کر میں خود بھی گری ہیں اور مجھے بھی اپنے اوپر گراد یا۔ سرنے سخت لہجے میں کہا میں تیز قدموں سے اپنے گھر چلی آئی۔ امی ابو نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ میں دیر سے گھر کیوں واپس آئی یوں میں اپنے کمرے میں آگئی اور پڑھائی کرنے لگی مجھے پڑھتا ہوادیکھ کر امی کہنے لگی تم ابھی بھر پڑھ رہی ہو ٹیوشن
میں نہیں بڑا کیا۔ میں اب ان کو کیا بتائی کہ میں آج صرف کریم لگواکر سکون حاصل کرتی رہی ہوں۔ سرنے ٹیسٹ دیا تھا اور کہا تھا اسے یاد کر کہ صبح آنا اسی لیے میں سبق یاد کر رہی ہوں میں نے جھوٹ بول کر کہا۔ چلو تم اپنا کام کرو میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں امی اپنے کمرے میں چلی گئیں وہ مجھ پر اتنا دھیان نہیں دیتی تھیں ہر وقت ابو کے ساتھ کمرے میں ہی رہتی تھیں۔
Sharing is caring!