سال بھر گھر بیٹھ کر کھانے کے بعد جب جمع پونجی ختم ہو گئی

زہرا چار برس کی تھی جب اس کا باپ ایک حادثے میں فوت ہو گیا۔ زہرا کا بھائی احمد اور امی ردا ہی اب اس کی کل کائنات تھے ۔ شوہر کے جانے کے بعد بچوں کی اور گھر کی تمام تر ذمہ داری اب ردا پر تھی۔ رشتہ دار بھی اس مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ کئے تھے ۔ زہر اجب بھی اپنی امی کو پریشان دیکھتی
تو ننھے ننھے ہاتھوں سے ماں کے چہرے سے آنسو صاف کرنے لگتی۔ احمد ابھی چھ ماہ کا تھا، ردا یہ سوچ کر پریشان ہوتی کہ اتنے چھوٹے بچوں کے ساتھ وہ کوئی کام کاج کرنے کا سوچے بھی تو کیسے ؟ اسکے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ اگر سلائی کڑھائی آتی تو گھر بیٹھے ہی کچھ پیسے کما لیتی مگر اب کرے بھی تو کیا کرے؟
ردا کے پاس جو بھی جمع پونجی تھی اسے استعمال کر کے ایک سال جیسے تیسے گزر گیا۔ مگر اب جب کہ فاقوں کی نوبت آنے لگی تو ر دانے ٹھان لیا کہ کچھ بھی ہو وہ کام کے لیے ضرور جائے گی۔ یہ سوچ کر زہرا کو سمجھانے لگی دیکھو بیٹا تمہارا بھائی ابھی بہت چھوٹا ہے میں اسے باہر کام پہ ساتھ نہیں لے جاسکتی۔ ما
تم سمجھدار ہو میں جب کام یہ جاوں تو اپنا اور بھائی کا خیال رکھ لینا زہرا نے پر اعتمادی سے کہا ” امی آپ فکر نہ کریں میں اپنا اور بھائی کا بہت اچھے سے خیال رکھوں گی “زیرا کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر روا کے دل میں امید کی کرن روشن ہوئی اور اسی امید کے سہارے وہ محلے کے پاس ہی ایک سوسائیٹی میں
گھر گھر جا کر دستک دیتی رہی اور کام کے لیے پوچھتی رہی۔ مگر کسی نے بھی مثبت جواب نہ دیا۔ مایوسی ابھی ردا کا دامن تھامنے ہی والی تھی کہ ایک خاتون اسے دکھائی دیں۔ ردا نے سوچا آخری بار ان سے پوچھ لیتی ہوں ورنہ گھر کی راہ لیتی ہوں۔ باجی کیا آپکو گھر کے کام کاج کے لیے کام والی کی ضرورت ہے؟
ہاں مجھے کھانا پکانے کے لیے باور چین چاہیے۔ کیا تم اچھا کھانا بنا لیتی ہو ؟ جی ہاں باجی آپ فکر ہی نہ کریں میں بہت اچھا کھانا پکا لیتی ہوں ! ردا خوش ہو کر بولی ٹھیک ہے کل سے آجانا ! پانچ ہزار روپے دوں گی، مہینے کے پانچ ہزار ؟ جی ٹھیک ہے باجی۔ ردا خوشی بھرے لہجے میں بولی گھر جا کر روانے زہرا کو
یہ خوشخبری سنائی تو وہ بہت خوش ہوئی۔ اگلے ہی روز سے زہرا نے احمد کی ذمہ داری سنبھال لی ، ننھے سے کندھوں پر بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی مگر زہر اہر پل اسے بخوبی نبھاتی رہی احمد کو کھانا کھلانا، کپڑے تبدیل کرنا، اس کے ساتھ کھیلنا، روئے تو بہلانا نیند آئے تو سلا دینا یہ سب ننھی زہرا کے لیے
بہت مشکل تھا مگر بھائی کی محبت میں چند ہی دنوں میں سب کام اچھے سے کرنے لگی۔ کبھی کبھار بھائی کو سنبھالتے ہوئے خود کھانا کھانا بھی بھول جاتی۔ دن یونہی گزرتے کئے۔ اب احمد کی اسکول جانے کی عمر ہو گئی تو ردا کے دل میں خیال آیا کہ احمد کو کسی اچھے اسکول میں داخلہ دلوا دے۔ زہرا بھی اب بڑی ہو گئی ہے
گھر کے کام بھی دیکھ لے گی ۔ احمد اسکول جانے لگا واپس آتا تو زہرا نے کھانا تیار رکھا ہوتا کھانا کھلا کر بھائی کو آرام کا کہتی اور شام میں جب وہ ہوم ورک کرتا تو اسکے پاس بیٹھ کر رنگ برنگی کتابوں میں کھو جاتی۔ احمد نے محسوس کیا کہ آیا انتہائی دلچسپی سے اس کی کتابوں کو دیکھتی ہے تو پوچھا”
آپا آپ اسکول کیوں نہیں جاتی ؟ زہرا نے اداسی بھرے لہجے میں جواب دیا ” احمد اگر اسکول جاوں گی تو تمہارا اور گھر کا خیال کون رکھے گا؟ اور اماں کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ میری بھی فیس ادا کر سکیں۔ آپا جو کام تم دن میں کرتی ہو وہی رات میں کر لیا کرنا جیسا کہ کھانا پکانا ہم اگلے دن وہی کھا لیا کریں گے
اور یہ تو اماں بھی کر سکتی ہیں۔ اماں شام کو کام سے تھک کر آتی ہیں وہ کیسے اتنا کام کریں گی ، احمد چھوڑو تم اپنی میڑھائی پر دھیان دو، احمد یہ سن کر خاموش تو ہو گیا مگر مطمعن نہ ہو سکا۔ کچھ روز بعد احمد کے اسکول سے پیغام آیا اور اسکی اماں کو اسکول میں بلوایا گیا۔ ردا جب احمد کے اسکول گئی تو پرنسپل نے بتایا
کہ کافی دنوں سے احمد اسکول نہیں آرہا۔ ردا یہ سن کر پریشان ہو گئی۔ اور بولی کے وہ تو سارا دن کام پر ہوتی ہے اسے یہی لگا کہ وہ اسکول آرہا ہو گا ر دا جب گھر واپس آئی تو احمد بہت خوش تھا۔ مگر ردا نے پریشانی کے عالم میں احمد کو بازو سے پکڑا اور جھنجوڑ کر بولی کہاں جاتے ہو تم؟ میں پورا دن محنت کر کے
تمہارے لیے کماتی ہوں مگر تم ہو کہ اسکول سے غیر حاضر ہو کئی دنوں سے احمد کا چہرہ جو خوشی سے منور تھا اب ماں کی ڈانٹ سے سہا اور رنجدیدہ ہو گیا۔ اب اس کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے اور جیب سے کچھ پیسے نکال کرماں کے ہاتھ پر رکھے ۔ اور بولا اماں میں اسکول سے چھٹی کرتا اور سکنل پر
گاڑیاں صاف کرنے چلا جاتا تھا تا کہ کچھ پیسے کما سکوں اور آپا اسکول جاسکے۔ ردا نے یہ سن کر احمد کو گلے سے لگالیا۔ زہرا جو باورچی خانے میں بیٹھی یہ سب باتیں سن رہی تھی اب خود پہ ضبط نہ رکھ سکی اور آکر بھائی سے لپٹ گئی۔ “احمد” میں نے کہا تھا نہ تم میرا مت سوچو اپنی پڑھائی پر دھیان دو
زہرا نے آبدیدہ ہو کر کہا ” آپا تم بھی تو میرا ہر وقت خیال رکھتی ہو مجھے کھانا کھلا کر خود کھانا بھول جاتی ہو ” جب تم اماں کی طرح مجھے سنبھال سکتی ہو تو میں ابا کی طرح تمہارا کیوں نہیں سوچ سکتا۔ احمد روتے ہوئے زہر اسے لپٹ گیا۔ ردا نے زہرہ کو پیار کیا اور بولی میری بچی مجھے معاف کر دینا
میں نے فکر معاش میں یہ نظر انداز کر دیا کے بیٹی کے لئے بھی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی کے بیٹے کے لیے۔ میں آج ہی اپنی باجی سے بات کروں گی اور کل سے تم دونوں اسکول جاؤ گے۔ ردا کی یہ بات سن کر دونوں بچے خوش ہو گئے۔ اور کچھ ہی دنوں بعد دونوں
بہن بھائی ہاتھ تھامے سکول جانے لگے۔۔۔
Sharing is caring!