دلچسپ و عجیب

جب ایک لڑکی کی میت کو غسل دیا تو اسکے جسم پر نمایاں ہمارے محلے کی ایک نوجوان

مدرسے کی ایک مڈل لیول طالبعلم لڑکی کا انتقال ہو گیا۔اس کی عمر ابھی بہت تھوڑی تھی اور وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ ہی رہی تھی کہ وہ فوت ہو گئی ۔ اس کا نام نوف تھاجب اس کی وفات ہوئی تو اس کی ماں اور بہنیں اسے میرے پاس لائیں کہ تم اسے غسل دواور کفن پہناؤ۔شدت غم سے اس کی ماں کار ور و کر برا حال تھا وہ اپنی بیٹی سے چپٹی ہوئی تھی اور اس سے جدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔

میں نے بڑی مشکل سے اسے علیحدہ کیا اور غسل خانے کادرواز دیند کردیاتاکہ اسے اچھے طریقے سے غسل دے سکوں۔جب میں نے اس کے چہرے سے کپڑا ہٹایاتو میں دیکھ کر حیران ہو گئی اس کے چہرے سے نور کی شعاعیں ایسے اٹھ رہی تھی جیسے نجف کی خوب تیز روشنی ہے۔میں اس کے نورانی چہرے کی تابانی دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئی ۔ کیونکہ میرے پاس فصل کے لئے جو بھی لڑکیاں لائی جاتی تھی

ان میں سے کسی کا چہرہ مر جایاہواہوتا تھا اور بعض سے تو بہت زیادہ ناگوار بواٹھ رہی ہوتی تھی ۔ مگر اس لڑکی کا تو معاملہ ہی الٹ تھا۔اس کا چہرہ توروشنی سے دمک رہا تھا۔دوران غسل میں نے دیکھا کہ اس کے دائیں اور بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی بھی اٹھی ہوئی تھی جیسے تشہد میں اٹھائی جاتی ہے ۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ ایک پاکیزہ سیرت لڑکی ہے جسے اللہ نے اس کے کسی عمل کی وجہ سے اسے عزت سے نوازا ہے

مجھے اس کی خوش قسمتی پر شک آیا ۔ میں نے بلند آواز میں اس کی ماں اور بہنوں کو بلایاور دروازہ کھول دیا ۔ اس کی ماں اور بہنیں دوڑ کر غسل خانے میں آئیں۔میں نے اس کی ماں کو مبارکباد دی اوران تمام حیرت انگیز باتوں سے مطلع کیا جن سے مجھے غسل کے دوران واسطہ پڑا۔اس کی ماں نے اپنے تمام مادرانہ جذبات نچھاور کرتے ہوۓ اس کی پیشانی کوچوں اور ساتھ ساتھ روتے ہوۓ اللہ کی تعریف بھی کی

دودن بعد اس کی ماں نے مجھے بلایا اس نے میر اشکر یہ ادا کیا۔اور کہامیں آپ کو اپنی بیٹی کے کپڑے اور اس کی پرسنل چیزیں بھجواتی ہوں ۔ کیونکہ آپ غریبوں اور مسکینوں کے گھروں کو جانتی ہیں ۔ آپ یہ چیزیں غریبوں میں تقسیم کر دینامیں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ آپ اس کی تمام چیزیں مجھے بھجوادینا میں غریبوں میں تقسیم کر دوں گی۔جب اس کی چیزیں میرے پاس آئیں تو وہ چار کار ٹنوں میں پیک تھیں ۔

جب میں نے پہلا کار ٹن کھولاتواس میں اس کے نقاب اور عبایا تھے۔وہ سب کے سب لمبے چوڑےاور ڈھیلے ڈھالے تھے۔نہ تنگ تھے نہ باریک تھے نہ ہی چھوٹے تھے۔جب میں نے دوسراکار ٹن کھولا تو اس میں اس کے کپڑے تھے۔ وہ بھی پورے بازوؤں والے ڈھیلے ڈھالے اور مکمل جسم کو ڈھانپنے والے تھے۔اورانتہائی سادہ تھے۔نہ کوئی لیس لگی ہوئی تھی نہ وہ بریک تھے کہ جسم نظر آۓ۔میں جوں جوں کارٹن کھول رہی تھی

میری حیرت میں اضافہ ہورہا تھا ۔ ایک کارٹن میں اس کا اسکول کا سامان تھا ۔ اس میں ایک ڈائری تھی جس کے اکثر اوراق خالی تھے۔اور ایک قلم کاڈبہ تھاجب دو بہ کھولا تو اس میں مسواک بھی تھی ۔کاٹن بیند کرنے کے بعد میں جلدی سے اپنی کپڑوں والی الماری کی طرف گئی میں نے اسے کھولا اور وہ تمام کپڑے نکال کر باہر پھینک دیے جو تنگ باریک اور چھوٹے تھے۔اور پھر اپنے آپ سے وعدہ کر لیا کہ آج کے بعد

میں بھی ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنوں گی ۔ جیسے یہ لڑ کی پہنا کرتی تھیں ۔ میں نے اس کی ڈائری کو اپنے پاس رکھ لیا کہ اس میں میں اپنے لیکچرز لکھا کروں گی جو اس لڑکی کے لئے صدقہ جاریہ بن جائیں گے ۔ میں نے پھرام اوف کو فون کیا اور اسے ماڈرن دور میں بھی اپنی بیٹی کو مکمل اسلامی کپڑے پہنانے پر مبار کباددی۔اس کی ماں نے کہا کہ اس کے اندرایک اور بھی خوبی تھی۔اس کا دل ہر وقت نماز سے لگار ہتا تھا ۔

جو نہی موزن اذان دیتاوہ سارے کام کاج چھوڑ کر اپنے رب کے ہاں سجدہ کرتی۔اس واقعے سے میری امت کی ان ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے لئے حوصلہ افنرائی کاسامان ہے جو زمانے کوخوش کرنے کی بجاۓ اپنے پروردگار کو خوش کرنے کی فکر میں رہتی ہیں ۔اور شریعت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارتی ہیں۔اور جو عور تیں تنگ اور بار یک لباس پہنتی ہیں معاشرے کی نظر میں

اچھا بننے کے لیے اور اپنے رب کو ناراض کرتی ہیں ان کے لئے نصیحت بھی ہے کہ وہ بھی اپنی زندگی کو اسلامی طریقوں کے مطابق بسر کریں ۔ اس طرح اللہ بھی راضی ہو جائے گا اور آخرت بھی سنور جاۓ گی

Sharing is caring!

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button