جب میں ایک پرائیویٹ ادارے میں بطور ریسپشیٹ کام کرتی تھی چاۓ کے وقفہ کے دوران ایک صاحب میرے پاس آ کر

یہ اسوقت کی بات ہے جب میں ایک پرائیویٹ ادارے میں بطور ریسپنشٹ کام کرتی تھی ۔ آفس میں کام کرنے والے ایک صاحب چاۓ کے وقفے دوران میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے ۔ کہنے لگے کہ آپ رائٹر ہے اور بہت حساس موضوعات پر لکھتی ہے تو کچھ سوالات و جوابات کرنا چاہتا ہوں ۔ ان سوالات و جوابات کی تفصیل کافی لمبی چوڑی ہے ۔ مختصراً ان کی بحث کا موضوع بد کردار عورت تھا ۔ میں نے ایک دم اس سے سوال پوچھا کردار جانچنے کا آل کہاں سے ملے گا ۔ وہ میرے بے تکے سوال پہ ہنس کے بولا ۔ ” یہ کیسا سوال ہے ۔ ؟ میں نے کہا ۔
سوال تو انتہائی آسان ہے ۔ کہنے لگا کہ کردار جانچنے کا آلہ تو کسی کے پاس نہیں ہے۔لیکن کچھ واضح نشانیاں ہوتی ہیں۔جو بتاتی ہیں کہ کون کیسا ہے ۔ کیسی نشانیاں ۔ ؟ میں نے ایک اور سوال داغا ۔ بھئی ! اٹھنا ، بیٹھنا ۔ چلنا ، پھرنا ۔ بات کرنا ۔ یہ چیزیں انسان کے کردار کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں ۔ بہت اطمینان سے اس نے جواب دیا ۔ چلو ۔ ! یہ بتاؤ ۔ کسی بد کردار مرد کو جانتے ہو ۔ میرے اس سوال پر اسکے چہرے پر عجیب سے تاثرات امڈنے لگے ۔ بتاؤ ۔ میں نے ایک اپنے الفاظ پر زور دے کر کہا ۔ اچھا مجھے سوچنے دو وہ سر کھجاتے ہوئے بولا ۔ سوچ لو
سوچ لو ۔ میں اپنا فون دیکھنے لگی ۔ پھر اس کی جیسے دور سے آواز آئی ۔ میں جن مردوں کو بد کردار کا ٹیگ لگانے کا سوچ رہا ہوں ، وہ سب اب سدھر چکے ہیں ۔ میرے دوست فہیم کی مثال لے لو ، شراب مچوڑ دی ، اب باقاعدگی سے نماز پڑھتا ہے ۔ شادی سے پہلے ارسلان لڑکیوں کے چکر میں رہتا تھا ۔ ہر دوسرے دن ڈیٹ پہ جانا ، ، یہ سب اسکی ڈیلی روٹین کا حصہ تھا۔لیکن اب وہ پوری طرح سے بدل چکا ہے ۔ نوید کا بڑا بھائی چرس کی لت میں تھا ۔ ہر طرح کے برے کام کرنا ، لیکن ایکسیڈنٹ کے بعد وہ بھی راہ راست پر آگیا۔وہ ایک ایک
کر کے اپنی جان پہچان کے سبھی لوگوں کے حالات زندگی بتانے لگا لیکن ایک لمبی لسٹ چھاننے کے بعد ابھی تک اسے بد کردار مرد نہیں ملا تھا ۔ اچھا چھوڑو یہ بتاؤ ۔ کہ کسی بد کردار عورت کو جانتے ہو ۔ ؟ میرے سوال پر اسکا معنی خیز قہقہہ میری سمجھ سے باہر تھا ۔ میں حیران ہوکے اسکی طرف دیکھنے لگی ۔ یار ! تم کس بحث میں پڑ گئی ہو ۔ دفع کرو یہ سب ۔وہ بیزار ہو کے بولا ۔ بس اس آخری سوال کا جواب دے دو ۔ ہمارے آفس میں کسی ایسی لڑکی کا نام بتاؤ جس کا کردار تمہیں مشکوک لگتا ہے ؟ میں نے بھی ضد ٹھان لی ۔ اچھا بابا .. پیچھے ہی پڑ گئی
ہو ۔ وہ آنکھیں دکھاتے ہوۓ بولا ۔ جلدی سے بتاؤ ، پھر چلتے ہیں ۔ دیر ہو رہی ہے ۔ میں نے زور دیا نادیہ کو جانتی ہو ۔ ؟ کون نادیہ .. ؟ وہ۔۔جو آفس میں لمبا سا عبایہ پہن کے آتی ہے ۔ وہ ۔ ؟ اچھا وہ ۔۔۔۔ اوہ .. تو تمہیں اسکا کردار مشکوک لگتا ہے ۔ ؟ وہ تو بہت اچھی لڑکی ہے ۔ ، میں نے ابھی تک اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ یار ! تم لڑکی ہو ۔ تم اسے اس نظر سے نہیں دیکھ سکتی جس سے ہم دیکھتے ہیں ۔ میں نے اسے بڑی دفعہ نوٹس کیا ہے ۔۔ یہ بات کہتے ہوۓ اس کی آنکھوں میں چمک ابھری ۔ اچھا تو تم نے کیا نوٹس کیا ۔ ؟ میں نے تفصیل جاننی
چاہی ۔ سیکیورٹی گارڈاسلم ہے نا۔وہ جسکی بلکی سی دھاڑی ہے , ہٹا کٹا نوجوان ، ہاں تو ؟ اسکے ساتھ نادیہ کا چکر ہے ۔ وہ آواز آہستہ کر کے بولا ۔۔ تمہیں کیسے پتا ؟ میں نے قدرے اونچی آواز میں پوچھا ۔ وہ اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر آہستہ سے کہنے لگ ، نادیہ آفس آتے جاتے اس سے بڑی سلام دعا کرتی ہے ۔ بریک ٹائم میں بھی اکثر نیچے کھڑی ہوتی ہے اسکے ساتھ ایک دو بار تو اسے اپنے کیبن میں بھی بلایا ۔ ” وہ تفصیل بتانے لگا ۔ آہاں ۔ تو کیا تمہارے علاوہ کسی اور نے اسے دیکھا۔میرا مطلب ہو سکتا ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہو ۔ او
نئیں یار .. شروع میں میں بھی غلط نہی سمجھ رہا تھا ۔ لیکن علی اور توصیف نے اس بات کی تصدیق کی ہے ، اور تمہیں پتا ہے ایک بار اس نے توصیف کو اپنا موبائل فون ٹھیک کروانے کے لیے دیا تھا۔اس میں ایسی تصویر میں اور ویڈیوز پڑی تھیں ۔ میں تو سن کے حیران رہ گیا ۔ دد ہوتی ہیں نا۔۔آئی میں ۔۔۔۔ ” اس نے ” کیسی ویڈیوز ؟ مچوڑو تم ۔ ارے بتاؤ تو سہی ۔ سرگوشی کی ” اوہ۔اچھا ۔ یہ تو تم نے حیران کر دیا مجھے ۔ ہم دونوں کیفے ٹیریا سے نکل کے اپنے اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔گھر جاتے ہی میں نے اسے میسج ٹائپ کیا ۔ تھینک یو سو
مچ۔آج تم نے میری بہت بڑی مشکل آسان کر دی ۔ میں کب سے کردار جانچنے کا آلہ ڈھونڈ رہی تھی جو بلآخر تمہاری مدد سے مجھے مل ہی گیا ۔ میں یہ جان کے خوش ہوں کہ میرے کردار سے میرے عمل اور سوچ کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ یہ پوری طرح سے اس بات پر منحصر ہے کہ سامنے والا مجھے کس نظر سے دیکھتا ہے ۔ کیا اندازہ لگاتا ہے ۔ یہ سارا اندازے کا ہی کھیل ہے ۔ اور سنو ۔۔۔ سیکورٹی گارڈ اسلم نے اپنی چھوٹی بہن کو نادیہ کے گھر کام پر رکھوایا ہے ۔ تو بھائی ہونے کے ناطے وہ ہر روز نادیہ سے اپنی بہن کی خیر خبر لیتا ہے ۔ میں ،
اس بات پر حیران ہوں کہ تم نے اسلم کو نادیہ کی گاڑی میں اسکے گھر جاتے کیسے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔ شکر ہے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔ ورنہ اب تک تو تم اس پر زنا کی تہمت بھی لگا چکے ہوتے ۔۔۔۔۔۔ اور ہاں جو موبائل فون توصیف نے اپنے بھائی سے ریپئر کرا کے دیا تھا ۔ وہ نادیہ کا نہیں تھا بلکہ میرا تھا ۔ کیوں کہ توصیف سے میری بات چیت نہیں ہے اس لیے میں نے نادیہ کی مدد لی ۔ یقین مانو اس موبائل میں چند ٹیلی فوٹوز کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔ آخر میں اس بات پر بھی مبارکباد لے لو کہ تمہاری جان پہچان کے سارے مردوں نے تمہاری نظر میں خود کو سدھار کے باکردار ہونے کا سرٹیفیکیٹ لے لیا ۔
کردار جاننے کا پیمانہ ایک مبہم اندازہ ہے۔جو کسی کو باکردار بنا -اور کسی کو بد کردار
Sharing is caring!