میرے والد ایک دن کھیتوں سے کام کرکے لوٹے .

ایک روز میں اور امی کھانا کھا رہے تھے۔ ابو اپنے ساتھ ایک شخص کو گھر لے آئے۔ وہ آدمی میرے ابو کی عمر کا تھا۔ اور شکل سے شریف آدمی لگتا تھا۔ آتے ہی ابو نے کھانے کا پوچھا؟ امی نے سرسوں کا ساگ اور مکئی کے آٹے کی روٹی بنائی تھے ، ابو سے کہا آپ ہاتھ منہ دھولیں، میں کھانا ابھی لاتی ہوں۔ اماں نے جلدی جلدی ساگ کو لکھن اور لہسن کا تڑکا لگایا اور کھانا لگانے چلی گئی۔ امی نے روٹیاں اور ساگ ان کے درمیان رکھ دیا۔ وہ دونوں ہی صبح سے بھوکے تھے۔ کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے۔ ہم ساری بہنیں مہمان کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر کمرے میں چلی گئی تھیں۔ لوگھر جب والد کھانا کھاچکے تو خالی برتن اٹھا کر کچن کی طرف آئے تو امی نے ابو سے پوچھا یہ مہمان کون ہے؟
ابو نے جب امی کو بتایا تو امی حیران رہ نہیں وہ حص ابو کا بھائی تھا۔ مدت بعد اچانک مل گیا۔ ابو نے ہمیں آواز دی ادھر آؤ تمہارے چاچا آئے ہیں، انہیں سلام کرو۔ ہم نے چچا کو پہلی بار دیکھا تھا، ادب سے سلام کیا چچا نے کہا جیتی رہو۔ انہوں نے پیار سے جواب دیا۔ ہم سلام کر کے دوبارہ اپنے کمرے میں آکر پڑھنے بیٹھ گئیں۔ مغرب ہو چکی تھی۔ سب نے نماز پڑھی، ہمارے گاؤں میں ان دنوں بجلی نہ تھی، لالٹین جلا کر کمرے میں رکھی تھی اور اسے بجھا کر اپنے اپنے بستروں پر لیٹ گئیں۔ ہمارے گھر میں دو کمرے تھے، ان کے آگے برآمدہ تھا۔ صحن کی دوسری جانب ایک اور بھی کمرہ تھا جو نسبتاً چھوٹا تھا اور اکثر بند رہتا تھا۔ اس کمرے کا ایک دروازہ باہر کی طرف بھی کھلتا تھا۔ چچا کو کمرہ کھول کر والد نے وہاں ٹھہرا دیا۔ دودھ کا گلاس بھر کر لے گئے اور کہا ،
بھائی اگر کچھ اور ضرورت ہو تو بتا دینا اور رات کو یہ دودھ پی لینا۔
جب مہمان داری سے فارغ ہوئے تو ابا اپنے کمرے میں آئے۔ امی عشاء کی نماز پڑھ چکی تھیں. اور ابو کی منتظر تھیں۔ ابو کے آتے ہی پوچھا یہ مہمان کون ہے … پہلے تو کبھی نہیں دیکھا۔
آہستہ بولو، ابا نے کہا۔ یہ میرا کچھ نہیں ہے۔ آج صبح اسکول سے کھیتوں میں گیا تھا، یہ وہاں پر بیٹھا مل گیا۔ بہت بھوکا پیاسا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر میں نے پوچھ لیا تھا ، بھائی
راستہ بھول گئے ہو۔ اس گاؤں میں کس کے پاس آئے ہو۔
اس آدمی نے کہا نور دین کے پاس آیا تھا ، اس سے میری رشتے داری ہے۔ ابو نے بتایا اسے مرے ہوئے دس برس ہوچکے ہیں۔ کیا تم کو اس بات کی خبر نہیں تھی۔ نہیں، اگر ہوتی تو یہاں کیوں آتا۔ اس کا تو گھر بھی بک گیا۔ اس کا ایک بیٹا تھا جو سعودیہ چلا گیا اور پھر نہیں لوٹا۔ شام ہورہی تھی ابو نے کہا اب تم کدھر جاؤ گے۔ اس شخص نے کہا بڑی دور سے آیا تھا۔ یہ آخری سہارا بھی ہاتھ سے نکل گیا، کیا بتاؤں کہ اب کدھر جاؤں گا، اس نے کہا بے بسی سے کہا تو مجھے اس پر ترس آگیا۔ میرے ساتھ چلو میرے گھر ۔ یہ میرے ساتھ میرے گھر آگیا۔ راستے میں اس نے بتایا کہ میرا اب اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اولاد نہ تھی ۔ بیوی مرحمی۔ شہر میں نوکری کرتا تھا، بوڑھا ہوا تو
نوکری سے نکال دیا۔ میں گاڑی چلاتا تھا، ایک روز رات کے وقت سامنے سے آتی گاڑی نظر نہ آئی، آنکھوں میں لائٹ پڑی تو ٹکر مار دی … گاڑی کا کافی نقصان ہوا، جان بچ گئی ۔ لیکن مالک نے نوکری سے فارغ کر دیا۔ کافی دن بیمار رہا۔ جب ٹھیک ہو کر اسپتال سے نکلا تو رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ سوچا نور دین کے پاس چلا جاتا ہوں، میری چچا زاد تھا۔ ابو امی سے کہنے لگے۔ بچارا بہت دکھی تھا۔ اسے گھر لے آیا ہوں، امی نے پوچھا یہاں کب تک رہے گا ۔ ابو نے کہا کچھ دن آرام کرلے۔ ۔ اس وقت اس شخص کی حالت ایسی ہے یہ کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں ۔ یہ باتیں سن کر اماں کے دل میں بھی رحم آگیا۔
امی اور ابو عشاء کے فوراً بعد سوجاتے تھے۔ میری بہنیں بھی سو گئی تھی لیکن میں جاگ رہی تھی، جانے کیوں دیر تک نیند نہ آئی۔ بار بار اس شخص کا خیال آتا رہا جس کا کوئی نہ تھا
اور ہمارے گھر آکر پناہ لی تھی … ابا نے اسے بھائی بتاکر تعارف کروایا تھا جبکہ وہ ہمارا کسی رشتے سے بھی چچا نہیں تھا۔ کچھ وقت ہمارے گھر میں رہنے کے بعد چچا ہم سے اور ہم ان سے مانوس ہوتے گئے۔ انہوں نے جانے کا نام نہ لیا اور میرے والدین نے بھی جانے کو نہ کہا۔ وہ ہمارے گھر کے ایک فرد کی طرح رہنے لگے۔ والد اور والدہ بھی سادہ مزاج ہیں، وہ چچا کی عزت کرتے تو ہم بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ ہمارا کوئی چچا، تایا یا ماموں نہ تھا ۔ والد صبح سویرے اٹھ کر مسجد چلے جاتے، نماز پڑھ کر لوٹتے،امی ناشتہ تیار
کر چکی ہو تیں، وہ ناشتہ کر کے اسکول چلے جاتے ہم بھی ان کے جانے کے بعد ناشتہ کر کے اپنے اسکول چلی جاتیں۔ امی گھر کے کاموں میں مصروف ہو جاتیں جبکہ چاچا اپنے کمرے
میں لیٹے رہتے۔ کچھ دن بعد انہوں نے والد سے کہا، آپ اسکول پڑھانے کے بعد اپنے کھیتوں میں کام کرنے نکل جاتے ہو اور میں سارا دن بیکار رہتا ہوں۔ مجھے بھی کھیتوں میں کسی کام پر لگا دو
تا کہ کچھ کام کاج کر کے بیکاری سے نجات پالوں۔ ابو نے چچا سے کہا کھیتوں کا کام بے حد محنت والا ہوتا ہے۔ بہتر ہے فی الحال گھر پر آرام کرو، ٹانگ بلکل ٹھیک ہو جائے وہ کام بھی کر لینا۔ یہاں گھر میں بھی چھوٹے موٹے بہت سے کام ہوتے ہیں تمہاری بھابھی جن سے پریشان رہتی ہے تم وہ کام کردیا کرو۔ اس کے بعد چچا بھینسوں کو چارہ ڈالتے
اور ماں کو لکڑیاں کاٹ کر دیتے تھے، وہ گھریلو کاموں میں
امی کا ہاتھ بٹانے لگے۔
ایک دن امی اور بہنیں خالہ کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ ابا گھر آئے تو ان کے گردے میں درد ہونے لگا۔ چچا نے کہا چلو میں اسپتال لے چلتا ہوں۔ پڑوسی سے گاڑی مانگ لو ، میں ڈرائیونگ کر لیتا ہوں۔ والد کو ورد میں شدت محسوس ہونے لگی تو انہوں نے مجھے کہا۔ جاکر پڑوسیوں سے کو کہو کہ اپنی گاڑی دے دیں۔ ابو کو اسپتال جانا ہے ۔ پڑوسیوں سے جالی
لیکر میں نے ابا کو دی۔ انہوں نے چچا کو کہا، گاڑی پڑوس سے اپنے دروازے پر لے آؤ۔ چاچا نے سہارا دے کر ابا کو اس میں بٹھایا، اور شہر کے اسپتال لے گیا۔ دو گھنٹے کے بعد چچا آگیا مگر ابا ساتھ نہیں تھے۔ بولا، ڈاکٹر نے ان کو داخل کر لیا ہے کل ایکسرے وغیرہ کریں گے پھر دیکھیں گے کہ آپریشن کرنا ہے کہ نہیں۔
والدہ شام کو لوٹیں تو بہت پریشان ہوئیں۔ چچا سے کہا کہ مجھے ابھی اسپتال لے چلو۔ وہ بولے۔ ابھی جانے کا فائدہ نہیں، درد کم کرنے کا انجکشن ان کو لگا دیا تھا، سو رہے ہوں گے تم رات کو بچیوں کو اکیلے چھوڑ کر اسپتال کیوں جارہی ہو، وہاں کیا کروگی جاکر، اور ابھی ڈاکٹر ملنے بھی نہیں دیں گے۔ صبح میں خود چلا جاؤں گا۔ بچیوں کو اکیلے گھر میں چھوڑ کر تمہارا جانا مناسب نہیں ہے۔ حجا کی مات امی کے دل کو لگی،
بولیں۔ بھائی کہتے تو آپ ٹھیک ہو۔ اللہ ان کو شفا د
اماں رات بھر اپنے شوہر کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔ ہم بہنوں کو کچھ دیر بعد نیند آگئی۔ چچا آج کمرے میں سونے کی بجائے دروازے کے پاس چار پائی ڈال کر سوگئے جیسے ہمارے گھر کی نگرانی کر رہے ہوں۔ صبح سویرے وہ اسپتال چلے گئے۔ قریب ہی اڈا تھا۔ شہر کو جانے کے لیے گاڑی آسانی سے مل جاتی تھی۔ دوپہر تک ہم اور والدہ بے چین رہے، بے قراری سے چچا کا انتظار کرتے رہے ۔ دو پہر کے بعد نہیں وہ آئے ہوئے۔ چھوٹا آپریشن ہوا ہے، درد گردے میں نہیں تھا۔ بلکہ اپنڈکس کا آپریشن ہوا ہے۔ دو چار روز میں ٹھیک ہو کر گھر آجائیں گے۔ ان کے لیے یخنی وغیرہ تیار کردیں تو میں جاکر دے آتا ہوں۔ رات وہاں رک جاؤں گا صبح آؤں گا آپ لوگ اپنا خیال رکھنا۔
امی نے چچا سے کہا۔ گاؤں میں کسی بات کا ڈر نہیں ہے ۔ آپ کل مجھے اسپتال لے چلنا۔ امی کی بات سن کر چچا ئینی کا ٹفن لے کر چلے گئے۔ وہ رات بھی ہم نے دعائیں مانگتے گزری۔
بھرا اور صاف جوڑا پہن کر تیار ہو گئیں۔ وہ چچا کے ساتھ اڈے چلی گئیں۔ دو گھنٹے بعد چچا لوٹ آئے۔ کہا کہ آپ کے والدین نے مجھے بھیج دیا ہے، آپ بچیاں اکیلی ہو ۔ آج تمہاری امی وہاں رک گئی ہیں، میں نے بہت کہا وہ نہ مانیں ۔ امی نے چچا سے کہا پھوپھی کا گھر قریب ہے۔ ان کو رات کو بلا کر گھر میں بچیوں کے پاس سلا لینا۔ یہ سن کر میں دوڑی ہوئی پھپھو کے گھر میں گئی۔ پھپھو آج تم ہمارے پاس ہمارے گھر سونا امان ابا دونوں اسپتال میں ہیں۔ پھپھو میرے ساتھ ہمارے گھر آگئیں۔ اور رات کو ہمارے پاس رہیں ۔ جبکہ چچا گھر کے باہر دروازے پر چار پائی ڈال کر ہوگئے۔ صبح سویرے میں اٹھ گئیں۔ پھپھو اپنے بچوں کو ناشتہ دینے اپنے گھر چلی گئیں۔۔ اور میری بہن کرن نے ناشتہ
بنایا۔ ابو کے لیے کھچڑی بنائی اور لفن میں بھر کر چچا کو دے دی کہ آپ اسپتال جاکر دے آئیں۔
ہوگئی وہ بولے۔ بیٹی تم بھی ساتھ چلو میں تمہارے ابا کے پاس رک جاؤں گا۔ تمہاری ماں شہر سے یہاں اکیلی کیسے آئے گی تم ساتھ ہوگی تو دونوں اکٹھی آجانا، ابا کو بھی دیکھ لوگی۔ میں تو دل سے چاہ رہی تھی کہ ابا کو اسپتال جاکر دیکھوں، فوراً تیار ہو گئی اور چچا کے ساتھ چلی گئی۔ جاتے ہوئے پھپھو کو بتاگئی کہ ہمارے گھر کا خیال رکھیں۔ میں اسپتال جارہی ہوں۔ امی کے ساتھ دو گھنٹے تک آجاؤں گی۔ اس دن کے بعد میری بہن کرن ایسی غائب ہوئی کہ ان کا کوئی نشان نہ ملا۔ امی ابو اسی شام کو گھر آگئے۔ ابا کو اسپتال سے چھٹی مل گئی تھی۔ وہ چچا کی گاڑی پر آئے تھے۔ جو ان پا کی عیادت کو اسپتال گئے تھے۔ ہم بھی اسکول سے گھر آگئی تھیں مگر کرن باچی اور چچا کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ روتے
روتے امی کو دورے پڑنے لگے، ابا بھی ماتھا پیٹ کر کہتے تھے ہائے میں نے کیوں ایک اجنبی پر اعتبار کیا۔ اب میں آپریشن کے سبب اٹھ بھی نہیں سکتا کرن کو ڈھونڈنے کے لیے۔ وہ ظالم انسان جو مظلوم بن کر آیا تھا نجانے ہماری بیٹی کو کہاں لے گیا۔ پولیس میں رپورٹ لکھوائی جہاں تک ممکن ہوسکا، باجی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی، انہیں اب کہاں ملنا تھا، ابا کی زمین بک گئی مگر بیٹی کو نہ ڈھونڈ سکے۔
وقت کے ساتھ صبر تو کر لیا مگر صبر کہاں آتا ہے ایسے معاملات میں، جیتے جی مر گئے تھے۔ یونہی دو سال گزر گئے۔ ایک دن اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک شخص کراچی شہر سے آیا تھا اس نے کرن باجی کے ٹھکانے کا بتایا۔ اور ابو
کو معلومات دیں۔ والد نے گاؤں کے دو معزز لوگوں کو ہمراہ لیا اور پولیس کو بھی اطلاع کرائی۔ سب لوگ کراچی روانہ ہوگئے۔ کچھ روز بعد اباجی، کرن باچی باری کو لے آئے۔ وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی
تھیں۔ چچا اسپتال لے جانے کے بہانے انہیں شہر لے گئے ۔ انھوں نے کرن باجی کو گاڑی میں بٹھایا۔ ان کے ساتھ گاڑی میں دو آدمی اور تھے جنہوں نے کرن باجی کو بیہوش کر دیا۔ باجی نے بتایا۔ چچا مجھے ایک فلیٹ میں لے گیا جہاں
ر لوگ تھے۔ وہاں ایک کاغذ پر میرا انگوٹھا لگوایا ۔اور ایک شخص کے حوالے کر دیا۔ کہ یہ تیرا شوہر ہے اور اب تم نے اسی کے ساتھ رہنا ہے۔ اس جعلی نکاح کے بدلے چچانے اس
آدمی سے کافی رقم لی،
دوسال تک کرن باجی اس آدمی کے پاس رہی۔ جو خود کو ان کا شوہر کہتا تھا ۔ اور میری بہن اس کے ساتھ رہنے پر مجبور تھی۔ وہ کہیں بھاگ کر بھی نہ جاسکتی تھی۔ ایک روز پڑوس میں رہنے والی عورت سے کرن باجی کو بات کرنے کا موقع مل گیا۔ کرن باجی نے اسے سب بتا دیا۔۔ اس عورت نے اپنے شوہر سے بات کی۔۔ وہ رحم دل لوگ تھے۔ انھوں نے اپنا بھروسے کا آدمی گاؤں ہمارے گھر بھیج دیا۔ وہ شخص جس نے نکاح کیا تھا، اس کے پاس نکاح نامہ موجود تھا۔ اس نے ہماری بہن کا پیچھا نہ کیا لیکن مردود شخص کا پھر کبھی پتا نہ چلا جسے ہم چچا کہتے تھے۔ ابا کہتے اگر کبھی
مل جائے تو اسے جان سے ماردوں گا لیکن اسے نہ ملنا تھا اور
نہ ملا۔ ہماری بہن ہمیں مل گئی۔۔ کرن باجی کی بہت اچھی
جگہ شادی ہو گئی۔ اور وہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ بہت
خوش ہیں۔ لیکن وہ احسان فراموش شخص زندگی بھر نہیں
بھولے گا۔۔۔۔ جسے ہم نے چچا کہ گر عزت دی۔ اور ابو نے
اپنا بھائی بنایا تھا۔