دلچسپ و عجیب

پہلی رات جب دلہن نے کہا مجھے شادی کا کوئی شوق نہیں میرے پاس میرے پہلے شوہر کی کچھ تصویر

مجھے شادی کا کوئی شوق نہیں لیکن بابا اور آپ کا اصرار ہے تو ایک شرط پر راضی ہوں ، کون سی شرط ؟ میرے پاس میرے پہلے شوہر کی کچھ رومیان تصویر میں ہیں جن کے بغیر میں نہیں رہ سکتی اور جن کے ساتھ شاید تم ندرہ سکو مجھے شرط منظور ہے ان دونوں کا رشتہ طے ہو گی اور

وہ بھیگی پلکوں سے ماضی میں بھیگنے لگی آج سے کئی سال پہلے جب ایک خوبرو لڑکا اس کارشتہ مانگنے اس کے گھر آیا تھا تو بابا نے کہا تھا ۔ میں رشتہ نہیں دے سکتا میری بیٹی اکلوتی ناز و نعم میں پلی بڑھی ہے ۔ ذات بھی ہم سے کمتر ہے اور مالی حیثیت بھی لیکن اس نے کہا تھا

میں آپ کی بیٹی کو بے انتہا چاہتاہوں روٹی کی کمی شاید ہو جاۓ لیکن عزت اور محبت کی کمی کبھی نہیں ہو گی بس اس کا یہی اس کا یہی ایک جملہ تھا جس نے مجھے ڈھیر کر دیا اور یوں میرے اصرار کی وجہ سے اس شرط پر اس کے ساتھ شادی ہو گئی کہ میں سسرال میں کسی کام کو

ہاتھ نہیں لگاؤں گی بابانے کہا تھا چار ماسیاں رکھ لو تنخواہ میں دو نگالیکن میری بیٹی شہزادی ہے شہزادی بن کے رہے گی لیکن میرے سسرال والوں کو میر اشہزادی بنا پسند نہ آیا نکاح نامے میں شرائط کے باوجود میں کام کرنے لگی صرف اپنے ہم سفر کی خاطر کہ اس کے لئے

کوئی مسئلہ نہ ہو اور اس کے گھر والے خوش رہ سکیں لیکن ادھر میرا کام بڑھتا ادھر میری ساس اور نندوں کے طعنے اور مار پیٹ بڑھتی گئی میرا کمسن بھولا شوہر میرے لئے ہر ایک سے گھر میں لڑتار ہامیری دفاع کر تار ہاکئی بار الگ ہو جانے کا سوچا لیکن اس کی والدہ اور

گھر والے نہیں مانے میں امیر گھر کی لڑکی راتوں کو روتی دن کو کام کرتی اور مجھے ٹوٹ کر چاہنے والا میر اشوہر دن بدن ٹوٹا گیا اور پھر ایک دن مانی اس نے خود کو جو ڑالیکن مجھے ہمیشہ کے لئے توڑ گیا خود تو آزاد ہوالیکن مجھے ہمیشہ کے لئے قید کر گیا ۔ میری ساس ، نندیں سسرال والے

بات بے بات مجھے رلانے تڑپانے لگے اور میراشوہر بے بسی کی آگ میں جلستار ہالیکن ایک دن ماں کے پاس آ کے کہنے لگا اماں آج تمھاری گود میں سر رکھنے کو جی چاہتا ہے رکھ لوں ۔ ماں کی گود میں اس نے ماں سے پوچھاماں میری بیوی کو کیوں ستاتی ہیں

آپ اور ماں نے میری برائیاں شروع کر دی تو اس نے کہا اگر میں کہانی مر جاؤں تو آپ میری بیوی کی جان چھوڑ دینگی ؟ اور اتنے میں جیب میں چھپاۓ پسٹل کو نکال کر ماں کی گود میں رکھی اپنی کنپٹی پر گولی چلا دی ۔ جس گود نے زندگی دی تھی میری خاطر اسی گود میں زندگی دے دی ۔

اس کا یہ فیصلہ غلط تھایا صحیح یہ تو بعد کی بات ہے لیکن مجھے آنسوؤں سے نجات دینے کے لئے شاید اس کے پاس یہی ایک راستہ تھا آج سے اس کو مرے ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن میں اس کی تصویروں کے سہارے آج بھی اس کے ساتھ ہی جی رہی ہوں میں ۔

اب بھی اس کے گھر جاتی ہوں اس کی محبت کی خوشبو کو 346 قید کرنے ، اس کی یادوں کو سمیٹنے اور جہاں جہاں ہم ساتھ بیٹھے تھے وہاں بیٹھنے ان پانچ سالوں میں بابائے دوسری شادی کے لئے ان گنت اصرار کیا بے شمار ر شتے آۓ

لیکن میں اس کے حصار سے نکل نہ سکی آج میرے کزن اور بابا کی بے حد ناراضگی اور اصرار پر اپنے کزن سے کہہ رہی تھی مجھے شادی کا ، کوئی شوق نہیں لیکن بابا اور آپ کا اصرار ہے تو ایک شرط پر راضی ہوں اور میرے کزن نے شرط منظور کر لی

یہ کوئی افسانہ یا فرضی کہانی نہیں is حقیقت اور سچ ہے جس کا ایک کردار آج بھی دوسرے کردار کی تصویروں کے سہارے زندگی جی رہا ہے ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button