امیر کی غربت

ماریہ اپنے باغ میں ٹہلتی ہوئی صبح کی تازہ ہوا کا استقبال کر رہی تھی۔ کچھ دیر ٹہلنے کے بعد وہ وہی کرسی پر بیٹھ گئی، اتنے میں خالدہ کو اپنے پاس کھڑا پایا۔ بی بی جی آپ کی کافی، خالدہ نے کہ کر ترے میز پر رکھی اور چلی گئی۔ ماریہ اپنی سوچوں میں گم … کافی کا مگ اٹھائے پھر سے ٹلنے لگی.
تم نے ابھی تک چینج نہیں کیا؟؟ مسز ریاض کی آواز پر وہ چونکی نہیں موم میں بس ایسے ہی یہاں ماریہ کچھ کہنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ ایسا کب تک چلے گا ڈئیر ؟؟ کب تک گھر میں بند رہو گی ، لائف کبھی کسی کے لئے نہیں رکتی، اس کا کام ہے چلتے رہنا ، اور ہمیں بھی اس کے ساتھ چلنا ہے،،، مسز ریاض روز کی طرح
پھر اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگیں، اپنے فرینڈز سے ملو ، پارٹیز ار پیج کرو وہ اس کے بال سہلاتے ہوئے لاڈ سے کہہ رہیں تھیں مجھے آفس کے لئے لیٹ ہو رہا ہے میں نکلتی ہوں pleasetake care of yourselfdear !!! وہ اس کے سر پہ بوسہ دیتی ہوئی چلی گئیں
ماریہ مسلسل فیضان کے بارے میں ہی سوچے جارہی تھی۔ مجھے یہ رشتہ یوں ختم نہیں ہونے دینا چاہیئے، پر غلطی اس کی ہے اور وہ منانے بھی نہیں آیا کم از کم ایک کال تو کر ہی سکتا تھا۔ ماریہ کے خود سے سوال جواب جاری تھے ، کہ فون کی گھنٹی بجی ، سکرین یہ نام دیکھ کر ماریہ کے چہرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی
کہ اب کی بار انا آڑے آئی، چاہتے ہوئے بھی کال ریسیو کی۔ مسلسل کال آتی رہی مسلسل اگنور …. پھر میسج آیا. مجھ سے ایک بار مل لو ، پھر جو تمہارا فیصلہ، فیضان کے ٹائپ کئے کئے میسج سے اس کی التجا جھلک رہی تھی۔ موم وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے ، ماریہ نے ڈائینگ ٹیبل پر کچھ سوچتے ہوئے بات شروع کی.
مسز ریاض کھاتے کھاتے رک گئیں اور ماریہ کو دیکھنے لگیں۔ دیکھو بیٹا تم پہلے بھی اپنی مرضی کر چکی ہو مجھے تو شروع سے ہی فیضان پسند نہیں۔۔۔ وہ ہماری کلاس کا نہیں، تم اپنی مرضی کا نتیجہ دیکھ چکی ہو ، وہ پھر سے تمہیں اپنی باتوں میں لائے گا یہاں تمہیں کس چیز کی کمی ہے نوکر چاکر سب سے بڑھ کر فریڈم۔
ماریہ جواب میں کچھ کہہ ہی نہیں سکی وہ رات بھر نہیں سوئی وہ ان دنوں کو یاد کرتی رہی ، کالج کے دنوں میں جب وہ ملے تھے ، فیضان پورے کالج میں سب سے سمارٹ تھا ، کالج کی کتنی لڑکیاں اس پہ مرتی تھی پر وہ ماریہ کو امپریس کرنے میں لگا رہتا تھا …. اخر کار وہ ماریہ کا دل جیتنے میں کامیاب ہو گیا،،،،
کالج کے فوراً بعد انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا دونوں کے گھر والوں کو اس رشتے پر اعتراض تھا،،،، پر دونوں نے گھر والوں کے خلاف جاکر شادی کی، شروع شروع میں سب ٹھیک تھا پھر آخر وہی مسائل کا سامنا تھا، جن کا فیضان کے گھر والوں کو خدشہ تھا کہ ماریہ امیر گھر کی لڑکی ہے ،، وہ ہمارے طور طریقے نہیں اپنا سکتی،
کالج کے فوراً بعد انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا دونوں کے گھر والوں کو اس رشتے پر اعتراض تھا، پر دونوں نے گھر والوں کے خلاف جاکر شادی کی، شروع شروع میں سب ٹھیک تھا پھر آخر وہی مسائل کا سامنا تھا، جن کا فیضان کے گھر والوں کو خدشہ تھا کہ ماریہ امیر گھر کی لڑکی ہے ،، وہ ہمارے طور طریقے نہیں اپنا سکتی،
فیضان کی فیملی گزر بسر کرنے والے لوگ تھے ، ماریہ اپنے لائف سٹائل کے ساتھ رہنا چاہتی تھی کیونکہ اسے مسز ریاض کا سپورٹ تھا، گھر میں تناو کا سا ماحول رہنے لگا، فیضان کی امی کچھ کہتی تھیں اور مار یہ کچھ ۔ اب وہ لوگ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے ، ایک دن فیضان
نے ماریہ پہ ہاتھ اٹھا دیا ، ماریہ اپنا سامان لئے
اپنی ماں کے گھر آگئی، اس بات کو بھی مہینہ ہو چلا تھا،، ماریہ فیضان سے بہت پیار کرتی تھی ،،،وہ اس رشتے کو ایک اور موقع دینا چاہتی تھی پر باقاعدہ شرطوں کے ساتھ ماریہ نے فیضان سے ملنے کا فیصلہ کیا ، ماریہ نے اسے لوکیشن ٹیکسٹ کی اور جانے کے لئے تیار ہونے لگی ، ڈرائیو کرتے ہوئے بہت سی باتیں
، اس کے ذہن میں گردش کر رہی تھیں کہ میں یہ سب کہوں گی ، یہ شرطیں لگاؤں گی ،،، وہ معافی مانگے گا تو ایسے کہوں گی، آخر وہ کافی شاپ پہنچ گئی ، وہ ایک مہینے بعد فیضان سے مل رہی تھی ،، ، دونوں کا آمنا سامنا ہوا، ماریہ نے بمشکل چھلکنے والے آنسوؤں کو روکا اور نظریں جھکالیں فرضی سلام دعا کے بعد
فیضان نے ایک کاغذ ماریہ کی طرف بڑھا دیا میری امی ٹھیک کہتی ہیں تم ہمارے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکتی ،،، میں تم سے بہت چاہت رکھتا ہوں پر میں اپنے گھر والوں کو اور دکھی نہیں کر سکتا، ہم نے جلد بازی میں فیصلہ کیا جس کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ بار بار یہ سب ہو،
اس لیے یہ طلاق کے کاغز ہیں ،،،، تمہیں تمہاری فریڈم مبارک ہو ماریہ کے اوسان خطا ہو گئے ،، وہ جاتے ہوئے فیضان کو دیکھتی رہی ،،، ایک لفظ نہیں کہہ پائی، یہاں تو سب الٹ تھا۔ کوئی معافی تلافی نہیں ہوئی۔ کوئی روٹھنا منانا نہیں تھا ،،، اور شر طیں ، وہ زار و قطار
رونے لگی ،،،، بمشکل گھر پہنچ پائی۔
مسز ریاض جو لاونج میں اس کا انتظار کر رہیں تھیں وہ ماریہ کی حالت دیکھ کر ششدر رہ گیئں۔ ماریہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر رونے لگی دیکھیں موم فیضان کتنا چاہتا ہے مجھے اسے میری فریڈم عزیز ہے وہی فریڈم جو آپ بھی میرے لیے چاہ رہی تھیں آج میں آزاد کر دی گئی موم دیکھیے میں کتنی خوش ہوں
اب وہ چلانے لگی مہینے بھر کی خاموشی دم توڑ گئی تھی سب کچھ تو ہے میرے پاس نوکر چاکر پیسہ ” ہے ناموم. مسز ریاض کے دلاسے کچھ کام نہیں آرہے تھے …. ماریہ روتے روتے بیہوش ہو گئی فورا ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں ماریہ کو پتہ چلا کہ وہ امید سے ہے ،اس امید نے اسے زندگی کی نئی امید دی۔