علی نے کہا اظفر یار تمہارے تو مزے ہیں

اظفر کو اپنے آپ پر شدید غصہ تھا کیونکہ وہ اپنی بھابھی کی ٹورنامنٹ سے آج بھی محروم رہ گیا تھا۔ جبکہ اس کے دوست علی نے اظفر کے سامنے اس کی بھابھی کو وہ تھا۔ جبکہ اظفر پچھلے 8 مہینے سے بھابھی کے ساتھ ٹورنامنٹ کرنے کے خواب دیکھتا رہا تھا جبکہ بھا بھی اپنی جگہ اظفر سے ٹورنامنٹ کے لیے تمام طریقے استعمال کر چکی تھی۔ اظفر کی بھا بھی ندا نرم نازک سی قدرے موٹ کی اوزار والی لڑکی تھی۔ اظفر سے عمر میں چار پانچ سال بڑی تھی۔ جبکہ اپنے شوہر سر فراز سے
عمر میں دس سال چھوٹی تھی۔
صرف بھابھی ہی نہ تھی بلکہ اظفر کی خالہ زاد بھی تھی۔ اظفر گزشتہ ایک سال سے اپنے بھائی کے گھر رہ رہا تھا۔ جب سے اس کا اسلام آباد کے کالج میں داخلہ کروایا گیا تھا۔ جبکہ بھائی بھا بھی کی شادی کو دو سال ہو چکے تھے۔ شادی کے بعد بھائی بھابھی کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے آئے تھے۔ یہاں اظفر کے بھائی سرفراز محکمہ صحت میں ملازم تھے۔ ان کو تین کمروں کا فلیٹ سرکاری رہاش ملا ہوا تھا۔ جب اظفر نے میٹرک پاس کر لیا تو بھائی اس کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے
آئے تھے۔
کالج میں علی اظفر کا دوست بن گیا تھا۔ ایک دفعہ علی اظفر کو ملنے گھر آیا تھا۔ علی نے اظفر کی بھابھی کو دیکھ کر اپنے اس پر زبان پھیری تھی جب بھا بھی چائے رکھ کر چلی گئی تو علی نے اظفر سے کہا یار تمہاری بھا بھی تو قیامت ہے۔ اظفر نے غصے سے علی کو دیکھا اور کہاش رم کرو علی میری بھائی ہے۔ علی نے کہا ہاں بھا بھی ہے تو تمہارے لیے ہے۔ اتنی رومینچک اور خوبصورت بھا بھی مجھے تو ملے گی نہیں۔ مگر تم تو مزے کر لو اور بھابھی کو بھی کروالو۔ اظفر نے غصہ کر کے علی کو چپ تو کر وا دیا تھا۔ مگر اس کے دماغ میں بھابھی کا سراہا گھومنے لگا
اس رات اظفر نے بھابھی کے خواب دیکھے مگر وہ اپنے خوابوں سے خود ہی خوف زدہ ہو گیا تھا۔ دوسرے دن کالج میں علی نے پھر سے بھا بھی کی بات شروع کر دی۔ علی نے کہا اظفر یار تمہارے تو مزے ہیں۔ اتنی رومینچک اور خوبصورت بھا بھی۔ یار تم تو دن رات گھر کا کام کرو تب بھی بھا بھی تھکے گی نہیں اظفر کے غصہ کرنے کے باوجود علی بار بار بھابھی ہی کی بات کرتا۔ آج بھا بھی نے کون سی ڈریسنگ کی تھی؟ کبھی پوچھتا بھا بھی گیلے بالوں کے ساتھ تو قیامت لگتی ہو گی۔ کبھی کہتا بھا بھی ش اور میں جاتی ہو گی تو پانی میں آگ لگ جاتی ہو گی۔
علی اظفر کی بھابھی کا اتنا دیوانہ ہو گیا تھا کہ بھابھی کے علاوہ کچھ سوچتا ہی نہ تھا۔ وہ گاوں کا رہنے والا تھا۔ اور ہاسٹل میں رہتا تھا۔ علی کی ایک اچھی بات یہ تھی کہ وہ اظفر کے علاوہ کسی کے سامنے بھا بھی کا ذکر نہ کرتا تھا ایک دن علی کی ملاقات اظفر کے بھائی سرفراز سے بھی ہو گئی۔ اس دن علی نے اظفر کو بتایا پیارے تمہارے بھائی تو بہت بڑی عمر کے ہیں۔ بھا بھی چھوٹی سی لڑکی۔ اس کا مطلب ہے کہ آگ ضرور لگی ہوئی ہے۔ یار تو نہیں کر گا گا تو بھا بھی کسی اور سے ٹورنامنٹ کرل گی۔ اظفر کو اب بھا بھی پر خود بھی پیار آنے لگا تھا۔ گھر میں بھا بھی عام سے حلیے میں موجود ہوتی تھی