دلچسپ و عجیب

زیتون کا تیل لگا لو پھر ڈالنا

میرا نام نعیم ہے میری عمر میں سال کی تھی جب مجھے ایک لڑکی سے عشق ہو گیا تھاوہ لڑکی اس وقت سولہ سال کی تھی اور میرے ایک سر کی بیٹی تھی میں جب بھی سر سے پڑھنے جاتا تھا تو وہ لڑکی میرے سامنے آجاتی تھی میر اپڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا اس کا نام سمرا تھا وہ دکھنے میں کافی خوبصورت اور فٹ تھی اس کی ڈریسنگ اس پر کافی سوٹ کرتی تھی ہر طرح کا رنگ اس پر جچتا تھا ایک مرتبہ سر کسی کام سے باہر گئے تو سمرا مجھے پانی دینے آئی میں نے سمرا کو جھکتے ہوئے دیکھا تو اپنے جزبات کو کنٹرول نہ کر پایا میری اس حرکت پر سمراواپس چلی گئی مجھے شرمندگی ہوئی کہ مجھے سمرا کے ساتھ یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا

اگلے دن میں نے اس سے معافی مانگی اور ایک پیپر پر سوری لکھ کر نیچے اپنا نمبر بھی لکھ دیا سمرا نے میرے جانے کے بعد وہ پیپر اٹھایا تھا مجھے اب اس کا انتظار تھا میں دکھنے میں اچھا خاصا تھا میری جسامت کافی دہلی سی تھی لیکن میں بالکل فٹ تھارات ہوتے ہی سمرا کا مجھے میسج آیا تو میرا دل خوشی سے جھوم گیا اور میں کافی خوش ہونے لگا تھا میری محبوبہ نے مجھ تک رسائی حاصل کرلی ہے سمرہ مجھ سے اب ہر روز بات کرتی تھی اور اس طرح ہمارے بیچ دوریوں کی ساری دیوار میں کرنے لگی ہم لوگ فون پر باتیں کرناشروع ہو گئے تھے میں سمرا سے طرح طرح کی فرمائش کرتا تھا اور میری ہر بات مانتی تھی مجھے جس طرح کا پوز پسند ہوتا تھا

وہ مجھے اسی طرح کی تصویر بھیجتی تھی آہستہ آہستہ میں نے اسے اپنے حسن کی تصویر مانگنے کا کہا اور اس سے زیادہ گہری باتیں کرنے لگا تھاوہ بہت شرما جاتی تھی لیکن میں اس کو یہی کہتا کہ مجھ پر بھروسہ رکھو یہ سب راز رہے گا دن گزرتے رہے اور ہم دونوں فون پر ہی سب کرتے رہتے تھے مجھے بھی سکون ملتا تھا اور وہ بھی انجوائے کرتی تھی میں نے سوچ لیا تھا سمرا کو ہی اپنی دلہن بناؤنگا اور ویسے بھی اس کے ابو سے میں نے اس حد تک دوستی کر لی تھی کہ اس کا رشتہ مانگ سکتا میں نے ایک دفع سمرا سے ملنے کی بات کی تھی کیونکہ جو ہم مل کر کر سکتے تھے وہ سب فون سے نہیں ہو سکتا تھا سمرا نے مجھے بتایا کہ اس کا ٹرپ جارہا تھا

میں نے یہ اچھا موقع سمجھا اور اس کے پیچھے پیچھے مری جانے کی تیاری کرنے لگا اس کی بس ایک اچھے ہوٹل کے پاس رکی تھی میں نے بھی اسی ہوٹل میں اپناروم بک کروالیا تھا اس روم کو میں نے اچھے گلاب کے پھولوں سے سجو ایا تھا تا کہ سمرا کا موڈ بن سکے سمرا میرے کہنے کے مطابق ہی میرے روم آگئی تھی میں نے اس کو سرپرائز دینے کے لیے روم کی لائٹ آف کر دی تھی سمرا جیسے ہی آئی تو میں نے اس کا ولکم کیا اور اسے پیچھے سے اپنے ساتھ لگا دیا وہ بھی اس کاروائی پر میر اساتھ دینے لگی تھی مجھے بھی سمجھ لگ گئی تھی کہ وہ کیا چاہتی تھی مجھے اب جلدی سے اپنا کام کرنا تھا سمیرا بھی اپنی نئی جوانی کے آگے ہار چکی تھی

اور اس طرح اس روم میں ہماری سر گوشیاں گونجنے لگی تھی ہم دونوں نے ہر حد پار کی تھی اگلی صبح میں نے سمرا کو اٹھایا اور اسے کالج کے ٹولے میں شامل ہونے کے لیے کہا پر وہ روہانسی ہوئی اور کہنے لگی کہ کیا آخری مرتبہ وہ پھر سے کر سکتی ہے میں نے اس کی بات کا پاس رکھا اور دوبارہ اس پر جھک گیا وہ بھی رات کی طرح میرا ساتھ دینے لگی تھی میرے ہر عمل پر اس کے لیے پیار چھلک رہا تھا میں اسے کسی بھی طرح سے خود سے بد گمان نہیں کرنا چاہتا تھا تقریباً دس منٹ کے بعد اس سے الگ ہوا اور اب اسے سیر میں ہو کر جانے کا بولا تھاوہ وہاں سے چلی گئی میں بھی اپنی واپسی کی تیاری کرنے لگا تھا مجھے میرے دل کی دوا تومل ہی چکی تھی

اب میرا ایک مہینہ آرام سے نکل سکتا تھا میرے اندر ایک سکون سا چھا چکا تھا اسی سکون کے ساتھ میں اپنے گھر واپس چلا گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے ماموں کا ایک بہت اچھی جگہ سے رشتہ آیا ہے میں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ میرے ماموں کی عمر نکلتی جارہی تھی اور ان کا رشتہ کہی بھی نہیں ہو رہا تھا مجھے اس وقت عقل نہ آئی کہ میں پوچھ سکوں یہ رشتہ کسی گھر ہو رہا ہے کچھ دن ایسے ہی گزر گئے میرے سر پر آسمان تو تب گراجب مجھے سمرانے بتایا کہ وہ امید سے ہے میں حیران ہو گیا تھا میں یہ ماننے سے انکار کرنے لگا تھا کیونکہ مجھے لگا تھا جیسے میں یہ غلطی نہیں کر سکتا تھا میں نے سمرا کو بچہ گرانے کا مشورہ دیا پر وہ رونے لگی تھی

اور میری قسم دینے لگی کہ پلیز مجھے اپنالو میں یہ اولاد بھی بھی نہیں گرا سکتی ایسا کرنا گناہ کا کام ہے پر میں اتنی کم عمری میں اتنی بڑی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا تھا میں نے سمرا کا نمبر بلاک کر دیا تھا میں ایک دم سے بھول گیا تھا کہ سمرا میری محبوبہ تھی میری عاشقی تھی بس مجھے یہی خیال تھا کہ یہ بوجھ میں اپنے سر نہیں لے سکتا تھا میرے ماموں کی شادی کی تاریخ فکس ہونے والی تھی میری امی نے بتایا کہ لڑکے کے ابو کہہ رہے کہ لڑکی امید سے تھی جب اس کا شوہر اسے چھوڑ گیا تھا میں حیران ہوا کہ یہ بات انہیں پہلے بتانی چاہیے تھی پر میرے ماموں نے رشتہ پکا کر لیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اب شادی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سادگی سے رخصتی ہوگی

اور وہ اس بچے کو اپنا نام دیں گے کیونکہ ان کی عمر کافی زیادہ تھی اس طرح میرے ماموں ممانی کو سادہ طریقے سے اپنے گھر نکاح کر کے لے آئے تھے میں نے ممانی کو دیکھا تک نہ تھا اب میں اپنی نوکری کی تلاش کرنے لگا تھا اچانک مجھے اسی چکروں میں ایک لڑکی اپنی جانب کھینچنے لگی تھی میرے اندر کی بے چینی دوبارہ بڑھنے لگی تھی تقریباً ایک سال میں نے اس لڑکی کو پھسانے پر ضائع کر دیا اور ایک رات وہ لڑکی میرے بستر یک آچکی تھی میں جیسے ہی اس کے قریب گیا تو نا جانے کیوں سمرا کا چہرہ میرے سامنے آنے لگ گیا تھا میں نے فوکس کرنے کی کوشش کی تو چاروں طرف سمرا کے چلانے کی آوازیں میرے کانوں میں گونجنے لگی تھی

میں نے اس لڑکی کو تنگ آکر پیچھے دھکا دیا اور باہر نکل آیا تھا میری زندگی بے سکون ہو گئی تھی جیسے میں نے ایک بے گناہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کی ہو مجھے یاد آیا کہ ناجانے سمرا کس حال میں ہوگی کیا وہ بچہ اس دنیا میں آگیا ہو گا اب سب باتوں سے مجھے ڈپریشن ہونے لگا تھا میں نے اپنی جاب کی تلاش کرنے کے لیے اپنے ماموں کے گھر پناہ لی آج تک میں اپنی ممانی سے نہیں ملا تھا اور میں نے پچھلے مہینے ہی ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش کی خبر سنی تھی میں نے ماموں کو سلام کیا اور ان سے اجازت چاہی کے کیا میں ممانی سے مل سکتا ہوں تو میرے ماموں نے مجھے اجازت دے دی میں بہت ہنسی خوشی مٹھائی کا ٹوکرا اٹھا کر ممانی سے ملنے گیا

اور سامنے اسے دیکھ کر وہ مٹھائی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی اس کے سرہانے میرا بچہ بھی لیٹا ہوا تھا پر وہ ہو بہو سمرا پر گیا تھا میں نے اسے بے یقینی سے دیکھا تھا پر نظر ملانے سے قاصر تھا تبی چہرہ جھکا دیا سمرا کے چہرے پر نفرت کے آثار نمایاں تھے میں ویسے ہی واپس اپنے روم میں آگیا تھا میر اول ٹھاٹھیں مار رہا تھا کہ وہ میری اولاد ہے اسے ایک دفع اپنے ہاتھ میں محسوس کروں یہی سوچ کر میں اگلے دن اپنے بیٹے سے ملنے گیا اور اسے اپنے ہاتھ میں لیا وہ پہلے رورہا تھا پر میرے پاس آتے ہی چپ ہو کر مجھے گھورنے لگا تھا جیسے مجھ سے شکوہ کر رہا ہو اچانک ہی سمرا نے اسے مجھ سے چھین لیا تھا اور مجھے نفرت سے دیکھنے لگی تھی

میں اسے بلانا چاہتا تھا پر اس نے ہاتھ سے اشارہ کرتے مجھے روک لیا تھا اور مجھے بددعا دینے لگی میں فور آروم سے باہر چلا گیا دن ایسے ہی گزرتے رہے میرے ماموں کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی وہ بیمار رہنے لگے تھے اور بستر کے مریض بن گئے تھے وہ رات دن کھانستے رہتے تھے سمرہ نے ان کا روم بھی چھینج کر دیا تھا اب وہ بچے کے ساتھ دوسرے روم میں ہوتی تھی اور میرے ماموں الگ روم میں ہوتے تھے پر دو تین دن بعد وہ دونوں اکٹھے سوتے تھے تو میں جان جاتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ایک دن میں کام سے واپس آیا تو دروازہ بجاتا رہا پر کسی نے بھی دروازہ نہ کھولا رات ہو چکی تھی مجھے لگا کہ سب سوچکے ہیں میں دیوار پھلانگ کر اندر چلا گیا

میں جیسے ہی سمرا کے روم میں گیا تو اس کی گندی آواز میں آرہی تھی مجھے پتا چل گیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ کچھ کر رہی ہے میں اپنے روم میں آیا اس کی وہ آواز میں مجھے بے چین کر رہی تھی پر میں نے خود کو کنٹرول کیا میں جان گیا تھا کہ ماموں اس کی ضرورت سہی پوری نہیں کر رہے جسبی اسے خود سے کرنے کی ضرورت پڑی ہے میں سمجھ چکا تھا کہ وہ کس اذیت سے گزر رہی ہے کچھ دن بعد میں نے اس کا سامنا کیا کیونکہ ماموں سوچکے تھے اور میں نے اس کو صاف کہہ دیا کہ اس کی طلب میں پوری کر و نگاتو وہ چلانے لگی کہ اب وہ مجھ پر بھروسہ کرنے کی غلطی کبھی بھی نہیں کر سکتی میں نے اسے دوبارہ کہا کہ سمرااب میں تم سے الگ نہیں رہ سکتا

جب سے میں تم سے دور ہوا ہوں میں نے در بدر کی ٹھوکریں کھائی ہیں میں کیا کرتا میرے پاس کوئی کاروبار کوئی جاب کچھ بھی نہیں تھا تبہی میں نے خود کو تم سے دور کیا تھا وہ رونے لگی تھی میں نے اسے دلاسہ دیا اور ٹوٹ چکی تھی میں نے اسے سمیٹا اور ایک پھر سے میں نے اس کو اپنے حصار میں لے لیا میں جان گیا تھا کہ وہ آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہے میں نے اپنے ماموں کو دیکھا تو وہ سورہے تھے بچے کو میں نے دوسری طرف لٹادیا اور خود سمرا کے پاس آگیا تھا میں نے سمرہ کو جی بھر کر پیار کیا تھاوہ بھی مجھ سے اپنی محبت کا اعتراف کرنے لگی تھی میں نے اسے دعا کرنے کا کہا کہ کچھ ایسا ہو کہ ہم دونوں ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائے

وہ یہ سب چھپ کر نہ کرنا پڑے اور پھر شاید اس کی یہ دعا قبول ہو گئی جب میرے ماموں وفات پاگئے اور سمرا نے اپنی عدت پوری کی جس کے بعد گھر والوں نے مسلہ بنایا کہ اب سمرا کو کون سپورٹ کرے گا میں اسی وقت اس کی حمایت میں کھڑا ہو گیا تھا کہ مجھے سمرا اور اس کا بچہ قبول ہیں میں اسے اپنانا چاہتا ہوں اور اپنی رنگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں چنانچہ سب گھر والوں کو میرا فیصلہ مانا پڑا اور میں نے سمرا کو اپنا کر اس کے سارے پچھلے گلے شکوے دور گئے اسے بھی اب مجھ سے کوئی شکوہ نہ تھا ہماری شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی ایک سال بعد ہی ایک اور بیٹا ہو گی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button