دلچسپ و عجیب

گلفام بیٹا یہ بری بات ہے چوری میری دونوں بیٹیوں نے کی ہے سزا بھی دونوں کو ملے گی

میر انام گلفام ہے میری عمر بائیس سال ہے میں دکھنے میں کافی سیدھا سادھا اور شریف انسان ہوں میر اقد درمیانہ ہے جبکہ میرا جسم کافی دبلا پتلا ہے جس کی وجہ سے میں اپنی عمر سے کم لگتا ہوں میں ویسے تو ساہیوال کا رہنے والا ہوں پر میں لاہور میں کام کرنے کی وجہ سے رہتا تھا میری نوکری ایک عام سی نوکری تھی وہ ایک فیکٹری کی ملازمت تھی فیکڑی ایک محلے میں تھی جس کی وجہ سے میرا دل بھی اس جگہ لگارہتا تھا میں گیٹ کے باہر ہی چوکیداری کرتا تھا اور ہر آتی جاتی رونق کو دیکھتا تھا اس طرح مجھے ایک ہفتے کا پتا بھی نہیں چلتا تھا اور گزر بھی جاتا تھا ایک ہفتے بعد میں واپس اپنے گھر چلا جاتا تھا اور گھر میں کچھ دن رکتا تھا

اس طرح میرے دن کافی مصروف گزر جاتے تھے میں ٹرین سے سفر کرتا تھا کیونکہ سفر بہت زیادہ ہوتا تھا اور عام بس میں ، میں کافی تھک جاتا تھاٹرین میں آرام دہ محسوس کرتا تھا ایک دن میں نے ٹرین کا سفر کرنا تھا اس دن فیکٹری کی کام والی خاتون نے بھی میرے ساتھ سفر کرنا تھا وہ خاتون کافی اچھی تھی اس کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا میری اس خاتون سے بات ہوتی تھی تب پتا چلا کہ وہ بھی ساہیوال سے ہیں میں خوش ہو گیا تھا پر آج انہوں نے مجھے یہی بتایا کہ وہ بھی میرے ساتھ ٹرین کا سفر کریں گی اور ساتھ مجھے چار ٹکٹیں لینے کا کہا میں حیران ہوا تھا کہ ان کے ساتھ مزید دو کون لوگ ہیں پر میں سمجھ گیا تھا

ان کی دو جوان بیٹیاں بھی ساتھ ہیں جس کے ساتھ ساتھ ایک پانچ سال کا بیٹا بھی ہے ان کی بیٹیوں کا خیال آتے ہی میرے منہ سے پانی ٹپکنے لگا تھا ان کی بیٹیاں کافی خوبصورت تھی اور پوری شیطان تھی مجھے یاد تھا ایک ہفتہ پہلے ان کی دونوں بیٹیوں نے مل کر میری سائیکل کی چین نکال دی تھی مجھے ان پر کافی غصہ بھی آیا تھا پر میں نے ان کی امی سے کوئی شکایت نہ کی اب میں ٹکٹ لینے چلا گیا میں نے جان کر ایک ہی ڈبہ بک کروایا تھا اور رات کا انتظار کرنے لگا تھا میرا اتنا خاص سامان نہ تھا جب کیش تھی جو میں نے اپنی جینز کی پاکٹ کے اندر رکھ لی ہم سب ٹرین میں بیٹھے میری نظر ان خاتون کی دونوں بیٹیوں پر گئی

جو کہ کافی پر کشش تھی اور دونوں کے پاس تازہ حسن تھا پر خاتون کا ڈر تھا جس وجہ سے میں اتنا غور سے نہ دیکھ پایا سردی کی رات تھی اور مجھے کافی سردی لگ رہی تھی میرے پاس اوپر لینے کو کچھ نہیں تھا اس خاتون کی دو بیٹیاں اور ایک پانچ سال کا بچہ ایک چادر میں لیٹے سو رہے تھے میں بھی کروٹ بدلے ان کے ساتھ ہی مل گیا تھارات کا ناجانے کون سا پہر تھا جب اس خاتون نے وہی چادر میرے اوپر بھی کروادی ان کی دونوں بیٹیاں اٹھ کر میرے دونوں طرف آگئی تھی اور وہ خاتون اب دوسری جانب رخ کر کے سو گئی تھی مجھے پہلے تو حیرانی ہوئی کہ کیسی ماں ہے کسے اپنے بچوں کا ہوش نہیں ہے

پر پھر میں نے ان دونوں لڑکیوں کے ہاتھ اپنے اوپر دیکھے جو بھر پور طریقے سے مجھے چھیڑ رہی تھی میں ان دونوں کو محسوس کر سکتا تھا میں حیران تھا کیونکہ ہمارے اوپر چادر تھی میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور جو ہو رہا تھا اسے ہونے دیاوہ دونوں باری باری میرے ساتھ کام کرنے لگی تھی کبھی ایک میرے پاس آتی اور جب وہ تھک جاتی تو اس کی جگہ دوسری آجاتی میں اس مزے میں اتنا کم ہو گیا تھا کہ مجھے آس پاس کی ہوش نہیں تھی میری آنکھ اسی سکون سے لگ گئی تھی اور صبح میری جیسے ہی آنکھ کھلی تو وہ میرے آس پاس کوئی بھی موجود نہ تھا مجھے ایسے لگا جیسے وہ سب خواب تھا پر میرے عجیب حلیے میں کپڑے بیچ بیچ کر کہہ رہے تھے

کہ وہ سب بھی تھا میں نے اپنی پاکٹ پر ہاتھ رکھا تو عجیب سا احساس ہوا تھا میری پاکٹ کے اندر پورے پچاس ہزار تھے جو کہ میری تنخواہ تھی اور مجھے کل رات ہی ملے تھے پر اب میری جیب خالی تھی اس کے علاوہ میرا ایک بیگ تھاوہ بھی غائب تھا میں سمجھ گیا تھا وہ مجھے مزے دے گئی اور بدلے میں میرا سامان کے ساتھ میرے پیسے بھی چوری کر کے لے گئی میں جلدی سے ٹرین کے نیچے اترا اور جیسے تیسے گھر پہنچ گیا میرا موبائل میری جینز کی پچھلی پاکٹ میں تھا اس وجہ سے وہ بچ گیا تھا میں نے سکھ کا سانس لیا اور کچھ دن بعد ہی فیکٹری کے مینیجر سے کام والی خاتون کے ساہیوال کا اڈریس لیا انہوں نے مجھے ایک اڈریس دیا

شخص میں کچھ ہی دیر بعد اس پتے پر پہنچ گیا تھا پر میں نے جیسے ہی دروازہ بجایا تو ایک بوڑھا باہر نکا تھا پر وہ کہہ رہا تھا کہ اسے ایسی کسی بھی خاتون کا نہیں معلوم جو لاہور سے آئی ہے میں نے بھی اس پر یقین کر لیا مجھے سامان کا اتناد کھ نہیں تھا پر پچاس ہزار روپے میرے لیے کافی قیمتی تھے اس لیے میں نے اس خاتون کی تلاش جاری رکھی تھی مجھے اس کی پر کھ اتنی تو تھی کہ دور سے اسے پہچان لیتا میں نے پورا ساہیوال چھان لیا تھا پر مجھے وہ خاتون کہی نہ دکھائی دی میں کچھ دنوں کے بعد منہ لٹکا تا لاہور واپس چلا گیا تھا میں نے فیکٹری جا کر دوبارہ کام والی خاتون کا ذکر کیا تو مینیجر نے بتایا کہ اس کے بھائی کی شادی ہے جسبی وہ کچھ دیر بعد واپس آئے

گی میں اب اس کا انتظار کرنے لگا تھا کچھ دن کے بعد وہ خاتون واپس آگئی تھی میں اس کے آتے ہی اس کے گھر چلا گیا تھا جو فیکٹری والی گلی میں ہی تھا اس نے مجھے دیکھا تو اس کا رنگ اڑ چکا تھا جب کہ اس کی دونوں بیٹیوں بھی وہاں موجود تھی میں نے اب سے اپنے پچاس ہزار روپے واپس کرنے کا کہا اور بہت سختی سے بات کی تھی پر وہ خاتون مکر گئی تھی کہ اس کے پاس پچاس ہزار روپے نہیں ہے جب میں نے اس خاتون کو سارا قصہ سنایا تھا کیسے اس رات کو اس کی دونوں بیٹیوں نے مجھے مزے دیے تھے اور اس کے ساتھ ہی میرے پیسے چرا کر بھاگ گئی تھی تو وہ خاتون ڈرگئی تھی جب کہ اس کی دونوں بیٹیوں کے بھی ایسے ہی تاثرات تھے

اب وہ خاتون اپنے دونوں بیٹیوں کی طرف سے معافی مانگنے لگی تھی پر میں نے اس کی ایک بھی نہ سنی تھی اور اسے صاف صاف کہہ تھا کہ اگر اس نے میرے پیسے واپس نہ کیے تو میں پولیس کو رپورٹ کر دونگا پھر اس کی دونوں بیٹیاں جیل کی چکی پیسے گی وہ کہنے لگی کہ اس کے بھائی کی شادی تھی جسبی اسے پیسوں کی ضرورت تھی اور پہلے وہ ساہیوال بس سے جاتی تھی پر اسے یہ اچھا موقع ملا تھا جس کی وجہ سے اس نے ٹرین پر میرے ساتھ جانے پر زور دیا تا کہ وہ میر اسامان چوری کر سکے میں نے اس خاتون سے کہا کہ وہ کیسی ماں ہے اپنی بیٹیوں سے یہ سب کرواتی ہے اسے شرم آنی چاہیے جب وہ آگے سے کہنے لگی

کہ مجھے وہ روز اپنی بیٹیوں کو تاڑتے ہوئے دیکھتی تھی اور اسے سمجھ لگ گئی تھی کہ میں اس کی دونوں بیٹیوں میں دلچسپی رکھتا ہوں جس کی وجہ سے اس نے اس بات کا فائدہ اٹھانے کا سوچا میں بھی اس کی بات سن کر چپ ہو گیا تھا کیونکہ یہ سچ تھا اس کی بیٹیاں حور پری سے کم نہ تھی دونوں حسن میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھی جب ہی پورے محلے میں انہیں دیکھ کر تہلکہ مچ جاتا تھا میں نے اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ تم نے اپنی دونوں بیٹیوں کو میرا ستعمال کرنے کا کہا تھا اور اب تم اپنی دونوں بیٹیاں مجھے دو گی تاکہ میں اپنی چوری کا بدلہ لے سکوں وہ میری بات سن کر پریشان ہو گئی تھی اور کہنے لگی تھی

کہ پورے محلے میں اس کی عزت ہے وہ ایسا بالکل نہیں کر سکتی ہے میں بھی اس کی بات سمجھ گیا تھا کیونکہ پورے محلے کو سب کا علم ہوتا تھا کہ کون اس وقت کس کے ساتھ ہے پر میں نے یہ موقع بھی جانے نہیں دینا تھا جب میں نے اس خاتون سے صاف صاف کہہ دیا کہ بات ٹرین پر شروع ہوئی تھی یعنی کہ چوری ٹرین میں ہوئی تھی تو اب اس کی بھرمائی بھی ٹرین میں ہی ہو گی وہ خاتون حیران تھی پر اسے پولیس کا بھی ڈر تھا اور اپنی بیٹیوں کو تو وہ پہلے ہی سب کرنے کا کہہ چکی تھی جسبی میں نے اس سے کہہ دیا کہ ہر ہفتے جب بھی میں ٹرین کی مدد سے ساہیوال جاؤں گا تو اس کی ایک بیٹی میرے ساتھ ٹرین کا سفر کرے گی

اور اگلے دن وہ میرے ساتھ ہی واپس آئے گی وہ میری بات مان چکی تھی اور جیسے ہی ساہیوال جانے کا دن آیا تو وہ اپنی ایک بیٹی میرے پاس لے آئی اس کی بیٹی کافی خوش تھی میں جان گیا تھا کہ وہ اسی قسم کی ہے وہ یہ اندازہ لگانا بھی درست تھا کہ اس کے چکر کافی کے ساتھ تھے تبھی وہ پر سکون تھی میں نے اس کی بھی ٹکٹ بک کروائی تھی اور اپنے ساتھ اس ڈبے میں لے آیا تھا جو کہ مجھے اپنے ساتھ اکیلے دیکھ کر بالکل بھی سہمی ہوئی نہیں تھی میں کافی محفوظ ہوا تھا اور اس سے پوچھا تھا کہ تمہیں ڈر نہیں لگ رہا اگر میں نے تمہارا قتل کر دیا تو کیا کروگی تو وہ بہنے لگی تھی اور کہنے لگی تھی کہ وہ جانتی ہے میں ایسا بالکل نہیں کرونگا

میں نے اسے اب تیار ہونے کا کہا تا کہ جلد از جلد اپنا کام کر سکوں وہ اب بالکل اس حلیے میں آ گئی تھی میں اس کے حسن کو دیکھ کر سب کچھ بھول گیا تھا پر وہ چوری مجھے یاد آئی تو میں نے اسے فوراًوہی کام کرنے کا کہا وہ اس رات میرے ساتھ کر رہی تھی وہ مان گئی اور مجھ پر جھک گئی میں نے لگاتار اس سے کام لیا یہاں تک کے اس کی بس ہو گئی پر میں نے اسے سزاد ینی تھی اسے چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا جب اسے نیچے کیا وہ اب مجھ سے پناہ مانگ رہی تھی کہ آئیندہ کبھی کسی کی چوری نہیں کرے گی میں نے خوب اپنا حساب پورا کیا اور سارے سفر میں کام کیا تھا کچھ دیر بعد وہ بے بس ہو گئی تھی میں نے اپنے گھر میں ایک ملازمہ کے طور

پر اس کا تعارف کروایا اور اسے کچن کا بہت سارا کام دیا تھا لیکن اگلے دن اپنے گھر والوں کو کہہ دیا کہ یہ سہی سے کام نہیں کر رہی جس کی وجہ سے مجھے اسے واپس لے کر جانا ہو گا اور اس کی جگہ ایک اور لڑکی کو لانا ہو گا وہ سب بھی مان گئے تھے اس طریقے سے میں اسے واپس لے آیا اور اگلے ہفتے لاہور سے اس کی دوسری بہن کو لے آیا تھا اب اس کی باری تھی اس کے ساتھ بھی میں اسی طریقے سے پیش آیا تھا اور ایک دن اپنے گھر پر رکھ کر اس سے گھر کا ڈھیر سارا کام کروایا تھا کچھ دن کے بعد اسے اپنے ساتھ واپس لے آیا تھا اب دونوں بھی سدھر گئی تھی وہ خاتون بھی اپنی بیٹیوں کی خاطر پناہ مانگنے لگی تھی پر میں نے اسے کہہ دیا تھا

کہ پچاس ہزار کی یہ قیمت کافی کم ہے لیکن میں نے اسے معاف کر دیا تھا اس خاتون کی دونوں سیٹیاں اب مجھے دیکھتے ہی راستہ بدل لیتی تھی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button