کہانیاں

شازیہ میری کزن تھی ۔ اچانک اس کی طبیعت خراب رہنے لگی

شہزاد میرا کزن تھا۔ گاؤں میں تعلیم کا حصول بہت مشکل تھا۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہزاد کو کئی کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ۔ میٹرک میں شہزاد کی نمایاں پوزیشن آنے پر ابو نے اسے اپنے پاس شہر بلا لیا شہزاد مجھ سے بات کرتے ہوئے بہت گھبراتا تھا۔ شام کے وقت بھائیوں کے ساتھ لون میں کھیلتے ہوئے میں اگر آ جاتی۔ شہزاد نروس ہو جاتا۔ بھائیوں کے ساتھ کھیلنا بھول کر ایک کونے میں بیٹھ جاتا۔ میں شہزاد کی اس حرکت سے بہت محزوز ہوتی۔ مکان ٹیکس

شہزاد کے ہمارے گھر میں آنے سے والدین بہت اطمینان میں آگئے تھے۔ شہزاد گاؤں کی سختیاں جھیل کر یہاں تک تعلیم حاصل کرنے پہنچا تھا۔ اس لیے اس کی زندگی میں بہت زیادہ و ضبط تھا۔ وقت کی قدر و قیمت بہت زیادہ تھی اس کی

زندگی میں۔ میٹرک کے آخری دنوں میں میری طبیعت خراب ہو گئی کچھ روز کے لئے اسکول نہ جا سکی۔ میری سہیلی جو ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتی تھی۔ مجھے اس کے گھر نوٹس لینے کے لے جانا تھا۔ امی نے کہا شہزاد کے ساتھ چلی جاؤں۔ شہزاد میرے ساتھ خاموشی سے جا رہا تھا۔

میں نے پوچھ لیا شہزاد تم مجھے سے زیادہ بات کیوں تھی کرتے۔ میرے بھائیوں کے ساتھ جو رشتہ ہے وہی رشتہ مجھے

ہے ہے۔ میں نے یہ کہتے ہوئے شہزاد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ شہزاد کا ہاتھ کانپنے لگا ۔ مجھے سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولا۔ پتا تھی مجھے کیا ہو جاتا ہے۔ اور میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم۔۔۔ میں نے اپنی دوست سے نوٹس لے کر جب اسے شہزاد کے بارے میں بتایا۔ تو وہ بہت زیادہ ایکسائیڈ تھی شہزاد سے ملنے کے لیے۔ امتحنات سے کچھ دن پہلے میری دوست مجھ سے ملنے آئی ۔ میں اپنی دوست کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر کچن میں آگئی ۔ شہزاد کو یہ بتا دیا کہ صبا جو کہے وہ نوٹس الماری سے نکال کر اسے دے دو۔

میں روم میں واپس آنے لگی تو شہزاد اور صبا کی باتیں سن کر وہی رک گئی۔ شہزاد صبا کے ساتھ اطمینان سے باتیں کر رہا تھا۔ مجھے بہت زیادہ غصہ تھا جس لڑکی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ۔ اس کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے بات کرنا۔ لگ ہی نہیں رہا تھا یہ وہی شہزاد ہے۔ میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی شہزاد کو باہر جانے کا کہا۔ صبا شہزاد کے اخلاق اور اس کے باتوں کے انداز سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ مجھے شہزاد کے جاتے ہی کہنے لگی۔ اتنے کو نفیڈنس والے لڑکے کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتی ہو تمہیں شرم نہیں آتی۔ صبا جنس رہی تھی اور صبا کے سامنے میری وہی حالت تھی۔ جو شہزاد کی میرے سامنے ہوتی تھی۔

رات کا کھانا کھا کر شہزاد چھت پر پڑھنے چلا جاتا ۔ میں شہزاد کے پاس آئی ۔ اپنے ساتھ اس رویہ کی وجہ پوچھی۔ میں آپ کی عزت کرتا ہوں۔ جن کی عزت دل سے کی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ مذاق نہیں احترام کیا جاتا ہے۔ میں تمہاری بزرگ نہیں ہوں۔ تم سے چار سال چھوٹی ہوں. بزرگ نبی ہوں۔ مکان انیس میں نیچے آگئی میں نے شہزاد سے بات کرنا چھوڑ دیا۔

شہزاد کی والدہ نے اسے گاؤں بلا لیا۔ ہم میں سے کسی کو وجہ نھی بتائیں۔ شہزاد گاؤں چلا گیا۔ میرے بھائی اور والدین اس کی کمی کو محسوس کرتے۔ لیکن وہ جس رویے سے مجھ سے بات کرتا تھا۔ مجھے اس کے جانے کی بالکل پروا نہ تھی۔ شہزاد جلد واپس آنے کا کہہ کر گیا تھا۔ پندرہ دن گزر گئے۔ شہزاد واپس نہ آیا تو ابو نے شہزاد کے گھر فون کر کے خیریت دریافت کی۔ شہزاد کی پریشانی سن کر ابو نے گاؤں جانے کا فیصلہ کیا۔ امی کے ساتھ ضد کر کے چھوٹے بہن بھائی بھی جانے پر تیار ہو گئے تو ابو کو مجبورا سب کو ساتھ لے کر جانا پڑا۔۔۔

راستے کے مناظر کو انجوائے کرتے ہوئے ہم گاؤں پہنچے۔ شہزاد کے گھر میں سب پریشان چہروں کے ساتھ ہمیں ملے۔ شہزاد کی دونوں بہنیں بہت خوبصورت تھی۔ ماریہ کی عمر سولہ سال اور شازیہ پندرہ سال کی تھی۔ شازیہ کی آنکھوں میں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ ابو نے جب سب کی خیریت دریافت کی۔ چاچی ابواور امی کو الگ کمرے میں لے گئیں۔ مجھے گاؤں دیکھنے کا شوق تھا۔ میں شہزاد کو ضد کر کے اپنے بھائیوں کے ساتھ نہر پر لے آئیں۔ شہزاد پہلے کی طرح خاموش میرے ساتھ جا رہا تھا ۔ لہلہاتے کھیتوں کے درمیان سے گزرتے میں نے پوچھ لیا۔ شہزاد تم میرے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھتے ہو۔ مجھے آج جانتا ہے لیکن شہزاد نے میری بات ان سنی کر دی۔۔۔

شہزاد نے نہر سے آگے جانے سے منع کر دیا ۔ چھوٹے بھائی ضد کرنے لگی تو شہزاد نے انہیں ڈانٹ دیا۔ مجھے شھزاد نے بتایا آگے زمینیں اچھے لوگوں کی نہیں۔ وہاں کوئی نہیں جاتا۔ ہم گھر واپس آئے تو امی اور ابو بھی پریشان تھے۔ شام تک شازیہ بالکل نارمل رہی۔ اندھیرا ہوتے ہی شازیہ الگ کمرے میں جا کر تڑپنے لگی۔ شازیہ کے منہ سے ” لینے کی عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھی۔ تکلیف کی شدت سے رونے لگتی۔ شازیہ کا پورا بدن پینے میں بھیگا ہوا تھا۔ شازیہ کی حالت دیکھ کر امی ابو سخت پریشان تھے۔ میری خوف کے مارے ٹانگیں کانپ رہی تھی ۔ میرا برا حال تھا ۔۔ نہ سے سسکیاں

کچھ وقت کے بعد شازیہ کی آواز بدلنے لگی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔۔۔ بنتے ہوئے کہہ رہی تھی مجھے تم جتنی تکلیف دیتے ہو ۔ مجھے اس درد میں اتنا ہی مزا آتا ہے مجھے کبھی چھوڑ کر نہ جانا۔۔۔۔ یہ الفاظ دہراتے دہراتے شازیہ سو گئی ۔ امی ابو سے شازیہ کی اس کیفیت کے بارے میں پوچھا۔ ان کے جواب سے مطمئن نہ ہو کر میں شہزاد کے کمرے میں آ گئے۔ شہزاد میرے اسرار پر بتانے لگا۔

شازیہ سکول سے واپس آ رہی تھی۔ رستے میں کچھ لڑکوں نے شازیہ کو اکیلا دیکھ کر تنگ کرنے کی کوشش کی۔ ایک لڑکا شازیہ کے انتہائی قریب آگیا۔ شازیہ نے جلد بازی میں پتھر اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔ لڑکے کے سر سے خون بہتا دیکھ کر تمام دوست پیچھے ہٹ گئے۔ شازیہ نے گھر آکر تمام واقعہ والدہ کو بتایا۔ امی نے ڈر کی وجہ سے شازیہ کا اسکول جانا بند کردیا۔ لیکن اس واقعے کا ذکر امی نے مجھ سے اور ابو سے نا کیا ابو پردیس میں پریشان ہوتے۔ مجھے بتاتی تو میری پڑھائی متاثر ہوتی ۔ چند دن شازیہ کی غیر حاضری کے بعد اسکول کی پرنسپل گھر آگئی۔ امی کے ساری بات بتانے پر وہ مخاطب ہوئی۔ انھوں نے شازیہ کی ذمہ داری لے لی ۔کچھ ماہ بعد امتحان ہونے والے

تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایک قابل طالب علم کا سال ضائع ہو۔۔۔

ر شازیہ نے جس لڑکے کا سر زخمی کیا تھا ۔وہ بااثر زمیندار کا بگڑا ہوا بیٹا احسن تھا۔ جسے اپنے والد کی دولت پر بہت غرور تھا۔ اتنے یقین سے وہ ہمارے گھر رشتہ لینے آیا تھا۔ شازیہ جیسے درخت پر لگا ہوا کوئی پھول ہے امی توڑ کر اس کے حوالے کر دیں گی۔ امی نے بنا کسی تمہید کے انہیں انکار کر دیا بہ وجہ بتا کر کہ شہزاد کے ابو جب سعودیہ سے آئیں گے ۔وہی فیصلہ کریں گے۔ شازیہ سے پہلے ماریہ کا رشتہ ہو گا۔ احسن کو امی کا جواب سخت ناگوار گزرا۔۔۔ جاتے ہوئے امی سے کہہ گیا میں اس انکار کا بدلہ شازیہ سے لوں گا۔ سے لوں گا۔۔۔۔۔ کان ای

شازیہ پہلے شام کے وقت جسم میں درد کی شکایت کرتی۔ ماموں شازیہ کی تکلیف دیکھتے ہوئے بزرگ کے پاس روحانی علاج کے لئے لے کر گئے۔ شازیہ اس حالت میں پہنچ گئی۔ امی نے ابو کو بتانے کے بجائے مجھے شہر سے بلوا لیا۔ میں شازیہ کی یہ حالت دیکھ کر شدید مایوس ہو گیا ہوں۔ میں شہزاد کو تسلی دے کر امی کے پاس سونے آگئی۔ صبح ابو اور شہزاد شازیہ کو لے کر گاڑی میں روانہ ہوگئے ۔ امی اور چاچی کو بھی انھوں نے نہیں بتایا تھا۔ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ شام سے پہلے ان کی واپسی ہوئی۔ اس رات شازیہ بالکل پر سکون خاموش بیٹھی رہی۔۔ شازیہ کو پر سکون دیکھ کر سب مطمریدین اور خوش تھے۔

ہماری یہ خوشی عارضی ثابت ہوئیں صبح ہوئیں صبح شازیہ نہ اٹھی ۔ چاچی اٹھانے گئی تو شازیہ کی کیفیت عجیب تھی۔ شازیہ کا منہ بند تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے منہ سلائی کر دیا ہے۔ ہاتھ اور پیر مڑے ہوئے تھے جنھیں وہ ہلا بھی نہیں سکتی تھی ۔ چاچی وہیں زور زور سے رونے لگی۔ سب شازیہ کی اس حالت سے خوف زدہ ہو گئے۔ ابو نمبر ملا کر کسی کو شازیہ کو دکھانے کا کہہ رہے تھے۔ لیکن وھاں سے ملاقات کے اپنے منع کر دیا گیا یہ کہ ایک دن صبر کریں۔ وہ دن ہمارے تھے قیامت کا تھا ۔ شازیہ کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس کے منہ سے جانور کی طرح غرانے کی آواز آرہی تھی ۔ سن کر ہم سب کے دل دہل رہے تھے۔

شازیہ کی آنکھیں ڈہیلے بن کر باہر آگئی تھی۔ آنکھوں میں سرخی اتنی شدید تھی۔ جیسے خون میں ڈوبی ہوں۔ چاچی اور ہم سب شازیہ کے پاس بیٹھے تلاوت کر رہے تھے۔ کلام پاک کے اثر سے شازیہ نے آوازیں نکالنا بند کر دیا تھا۔ وہ پورا دن اور رات ہم نے جاگتے ہوئے گزاری۔ کھانے پینے کا ہوش بھی نہ تھا۔ گھر میں ماتم کا ماحول تھا۔ وہ رات جاگتے ہوئے گزری ۔ اگلے دن دوپہر دو بجے کے قریب ہمارے گھر بزرگ آئے۔ ان کے ہاتھ میں مرغی تھی جس کا منہ سلا ہوا تھا۔ ٹانگیں اور پر بھی بندے ہوئے تھے۔ ہم سب حیرت سے مرغی کو دیکھ رہے تھے۔ بزرگ ابو کو ساتھ لیکر شازیہ کو کمرے میں لے گئے ۔ کچھ وقت کے بعد بزرگ اور ابو باہر آئے ۔ مرغی شھزاد کو دیتے ہوئے کہا ۔ مرغی کٹوا کر صدقہ کر دو۔۔ شازیہ

پر بھی بندے ہوئے تھے۔ ہم سب حیرت سے مرغی کو دیکھ رہے تھے۔ بزرگ ابو کو ساتھ لیکر شازیہ کو کمرے میں لے گئے ۔ کچھ وقت کے بعد بزرگ اور ابو باہر آئے ۔ مرغی شھزاد کو دیتے ہوئے کہا ۔ مرغی کٹوا کر صدقہ کر دو۔۔ شازیہ کو کمرے میں جا کر دیکھا تو وہ سکون سے لیٹی ہوئی تھی۔۔۔

بزرگ کے جانے کے بعد ابو چاچی اور امی کو بتانے لگے۔ کل مولانا صاحب کو جب میں نے شازیہ کی کیفیت بتائی تھی۔ ان کے انکار سے مجھے بہت تکلیف پہنچی تھی۔ انھوں نے کل ہی اپنے شاگرد مختلف ایسی جگھوں پر بھیج دئے تھے ۔ ان میں سے ایک شاگرد کو یہ مرغی قبرستان کے گورکن سے ملی تھی ۔ اور اس مرغی کے ذریعہ شازیہ پر کالا جادو کیا گیا تھا۔۔۔۔ قبرستان کے گور کن نے بتایا۔ دو نوجوان لڑکے قبرستان آئے ۔ ان کے ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا تھا۔ ان کا انداز پر اسرار تھا۔ وہ خاموشی سے قبرستان کے اس حصہ میں گئے۔ جہاں لوگ نہ ہونے کے برابر جاتے تھے ۔ جب وہ واپس جا رہے تھے ان کے ہاتھ خالی تھے۔ ان کے جانے کے بعد میں اس حصہ میں گیا۔ ایک پرانی قبر کے اندر مجھے یہ

مرغی ملی۔۔۔۔ چاچی سمجھ گئی۔۔ جس نے اپنے انکار کا بدلہ کالا

جادو کرا کر لیا تھا کچھ دن میں شازیہ کی حالت بہتر ہو گی۔ ابو

نے چچا کو یہاں ہونے والے واقعات کا بتا دیا۔ابو بھائی کے مشورہ کے بعد چاچی کی فیملی کو شھر لے آئے ۔ اور چند دن کے اندر ہمارے گھر کے نزدیک گھر کرائے پر لے دیا ۔وہ

دن جب بھی یاد آتے ہیں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button