میری بڑی خالہ گاؤں میں رہتی تھی اس کا ایک بیٹا جس کا نام ناصر تھا

میری بڑی خالہ گاؤں میں رہتی تھی اس کا ایک بیٹا جس کا نام ناصر تھا جب بھی ہمارے پاس آتا تو بات بے بات امی کو میری شکائیتیں لگا کر میری بے عزتی کرواتا اور مجھے خوب تنگ کرتا میں نے بھی سوچ لیا تھا جب بھی موقع ملا اس سے اپنی بے عزتی کا بدلہ ضرور لوں گی لیکن و بہت تیز تھا اور جلدی پکڑائی نہیں دیتا تھا اس وہ
بدلہ لینے کا موقع دے دیا۔ ہوا کچھ اس طرح کہ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد گرمیوں کی چھٹیوں میں، میں اپنی خالہ کے گاؤں آئی ہوئی تھی مجھے سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا لیکن میں چلا نہیں سکتی تھی کیونکہ مجھے سائیکل چلانا نہیں آتی تھی میں نے اپنی خالہ کے بڑے بیٹے ناصر سے کہا کہ مجھے سائیکل چلانا سکھا دو لیکن وہ کالج
جاتا تھا اور شام کو ہی گھر واپس آتا تھا اس لیے اس نے مجھ سے وعدہ کر لیا کے اتوار والے دن اس کو کالج سے چھٹی ہے اس لیے وہ اتوار والے دن مجھے سائیکل چلانا سکھا دے گا میں بے صبری سے اتوار والے دن کا انتظار کرنے لگی آخر خدا خدا کر کے اتوار کا دن آہی گیا اس دن موسم بہت اچھا تھا آسمان پر بادل چھائے ہوئے
تھے حالانکہ گرمیوں کا موسم تھا لیکن یوں لگتا تھا جیسے فروری یا مارچ کا مہینہ ہو میرے کزن ناصر نے مجھے سائیکل پر بٹھایا اور کھیتوں میں واقع ایک بچی پگڈنڈی پر لے گیا اس کے ساتھ ایک بڑی نہر گزرتی تھی اب ناصر نے مجھے سائیکل کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا
اور خود پیچھے سے سائیکل پکڑ لی تاکہ میں رگر نا جاؤں اور مجھے ہدایت کی کہ سائیکل کے ہینڈل کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور اپنی نگاہ سامنے راستے پر رکھو اور پیڈل چلاتی رہو خود اس نے پیچھے سے سائیکل کو دھکا لگانا شروع کر دیا اب سائیکل مزے سے چلتی جا رہی تھی
مجھے یہ سارا تجربہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ سڑک پر ہم نے دو سے تین چکر کاٹے میں شروع میں ڈر کے مارے چنیں مار رہی تھی لیکن اب میرا اعتماد بحال ہو رہا تھا بلکہ مجھے کبھی کبھی لگتا تھا کے ناصر بھائی نے پیچھے سے سائیکل چھوڑ دی ہے اور میرے ساتھ ساتھ بھاگا جا رہا ہے
لیکن یہ میرا شاید وہم تھا کیونکہ میں ابھی اتنی قابل نہیں ہوئی تھی کہ خود بخود سائیکل کو سنبھال سکتی اس طرح ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد میں کافی زیادہ سائیکل چلانا سیکھ گئی پھر میرے کزن ناصر نے کہا آج کے دن کی اتنی پریکٹس ہی کافی ہے بس ایک آخری چکر لگائیں اور واپس گھر چلیں کیوں کہ ابھی بارش آنے
کا امکان ہے یہ نہ ہو ہم بارش میں پھنس جائیں میرا دل کر رہا تھا کہ میں اسی طرح سائیکل چلاتی رہوں لیکن مجبوری تھی کیا کرتی سو اس کی بات مان لی لیکن جب آخری چکر شروع کیا تو ناصر بھائی نے پتہ نہیں کیا سوچ کر پیچھے سے سائیکل چھوڑ دی لیکن مجھے پتہ ہی نہیں
چلا کیونکہ اب میں کافی زیادہ کنٹرول حاصل کر چکی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے جب چلا کہ سائیکل میں خود چلا رہی ہوں اور ساجد بھائی تو کہیں پیچھے ہی رُک کئے ہیں تو میں گھبراگئی اور سائیکل کا رخ نہر کی طرف ہو گیا اور میں سائیکل سمیت نہر میں جاگری مجھے سمجھ ہی نہیں
آئی کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے لیکن میں نے سائیکل کا ہینڈل نہیں چھوڑا ایک تو میرا وزن کم تھا دوسرا سائیکل کے ٹائروں میں ہوا بھری ہوئی تھی۔ اس لئے میں ڈوبی تو نہیں لیکن میں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا جیسے ہی ناصر بھائی کو پتہ چلا کہ میں نہر میں گر
Y گئی ہوں تو وہ بھاگتا ہوا آیا اور اس نے بھی نہر میں چھلانگ لگا دی لیکن اس کو خود بھی تیرنا نہیں آتا تھا اور پانی بھی کافی گہرا تھا اس لئے بجائے مجھے بچانے کے وہ خود کو بچانے کی کوشش میں لگ گیا اور ہاتھ پیر مارنے اور چلانے لگا خوش قسمتی سے وہاں سے ایک راہ
RY گیر گزر رہا تھا اس نے جیسے ہی ہم دونوں کو ڈوبتے دیکھا تو فوراً نہر میں چھلانگ لگا دی پہلے تو اس نے مجھے کھینچ کر باہر نکالا اس کے بعد ناصر بھائی کو نکالا اور آخر میں سائیکل کو، اب میں نہر کے کنارے روئے جارہی تھی اور ناصر بھائی کانپے جارہے تھے جو مجھے سائیکل چلانا
سکھاغ آیا تھا اس کی حالت دیکھ کر میرا اچانک ہنسی سے بُرا حال ہو گیا اور میں مصیبت بھول کر ہنس ہنس کر پاگل ہو گئی ناصر بھائی نے مجھے ہنتے دیکھا تو غصے سے آنکھیں دکھانے لگا اور اس کے بعد ناصر بھائی نے سائیکل پکڑی اور میں اس کے پیچھے پیچھے گھر کو چلتی جا رہی تھی
ناصر بھائی میری منتیں کر رہے تھے کہ خدا کے لئے گھر جا کر مت بتانا کہ کیا ہوا تھا ورنہ ابو میری خیر نہیں چھوڑیں گے لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا کے آج ہر حال میں خالو کو شکایت لگا کر ناصر بھائی کی اکثر نکالوں گی اس دن گھر واپس جا کر خالو کو اپنی طرف سے جھوٹ سچ لگا کر بتایا کہ کیسے ناصر بھائی نے میرے منع کرنے کے باوجود مجھے
سائیکل پر بٹھا کر شہر میں دھکا دیا اور میں مرتے مرتے بچی ہم دونوں کے گیلے کپڑے دیکھ کر خالو نے فوراً میری بات کا اعتبار کر لیا اور پھر اس دن ناصر بھائی کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد ناصر نے کبھی میرے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کی آج بھی یہ واقعہ سوچتی ہوں تو بہت ہنستی جا رہی ہوں۔