دو سال پہلے بائیس سال کی عمر میں روا کی منگنی ختم ہو گئی۔

دو سال پہلے بائیس سال کی عمر میں روا کی متمنی محتم ہو گئی۔ وجہ کوئی خاص نہیں تھی بس اتنی سی تھی کہ ردا کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں تھے۔ جب 20 سال کی عمر میں روا کی منگنی اپنے تا یازاد سے ہوئی تو اس وقت ردا کے والد ٹیکسٹائل کمپنی کے مالک تھے ۔ دونوں گھرانوں میں مثالی تعلقات تھے۔
مگر ناگہانی طور پر ردا کے والد کی کمپنی میں آگ لگ گئی اور سب کچھ راکھ ہو کر رہ گیا۔ گھر کے حالات خراب سے خراب تر ہونے شروع ہو گئے۔ جو بچا تھا اس سے نئی فیکٹری لگانا نا ممکن تھا آخر کار ردا کے والد نے اپنی سمجھ بوجھ کے پیش نظر کپڑوں کی دکان کھول لی ۔ نئی
دکان کا چلنا اور گھر کا خرچہ چلانا
اتنا آسان بھی نہ تھا آخر کار ردا کو بڑی بیٹی ہونے کے ناطے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ اس نے حال ہی میں اپنا بی بی اے مکمل کیا تھا۔ کیمیکل کمپنی میں بیس ہزار کی چھوٹی سی نوکری کرنے پر وہ مجبور ہو گئی اور اس نوکری کرنے پر بھی اس نے کس طرح ابو امی کو راضی کیا تھا و ہی جانتی تھی کہ اس کی نوکری سے
گھر کا خرچہ چلانے میں کچھ تو مدد ہو ہی جائے گی۔ اس نے تو بھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اسے بھی نوکری کرنی پڑے گی۔ اسے یاد تھا کہ کتنی مشکل سے تائی کو شادی پڑھائی مکمل ہونے پر کرنے کا وقت لیا تھا۔ اس نے تو آج تک سلام دعا سے آگے اپنے منگیتر سے بات تک نہ کی تھی کہ اسے یہ سب مناسب نہ لگتا تھا۔
مگر دل ہی دل میں وہ بہت خوش تھی۔ وہ سوچتی زندگی گلزار ہے شاید اسی کو کہتے ہیں تب اس کی آنکھیں خوابوں سے بھری تھیں۔ پڑھا لکھا ڈاکٹر کزن جو خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ یا اخلاق بھی تھا اسے وہ بہت متاثر کرتا تھا۔ مگر تائی کا انگوٹھی واپس کرنا اسے کبھی نہ بھولتا تھا۔ اس کی نوکری پر
سب سے پہلا طعنہ تائی نے ہی دیا تھا۔ آبدیدہ ہو کر
جب ردا کی امی نے تائی کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے کہ وہ چھوڑ دے گی نوکری بس منگنی ختم نہ کریں۔ گھر کے حالات کی وجہ سے اسے نوکری کرنی پڑی۔ اور تائی کا جواب اس کے ہوش اڑا گیا تھا۔ اگر اتنی ہی نوکری کی ضرورت تھی تو کسی اسکول میں پڑھا لیتی۔
دیکھو نفیسہ دور جتنا بھی آگے نکل جائے نوکری کرنے والی لڑکی کو لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں اور میں ایسی کسی لڑکی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتی۔ ہماری طرف سے معذرت۔ اربان کو بھی ردا کی یہ حرکت ایک آنکھ نہ بھائی ہے۔ اس دن اس کے ماں باپ کا جھکے سر کو دیکھ اس کا دل خون کے آنسو رویا تھا۔
وہ کیا بتاتی کہ وہ اسکول ٹوکری کے لئے گئی تھی مگر پانچ ہزار سات ہزار یا حد سے حد دس ہزار سے زیادہ پرا سے بنا تجربہ کے کوئی نہیں رکھ رہا تھا۔ اب ویسے بھی ہر بات ہی بے سود تھی۔ شروع کے دو سال نوکری کرنے کے دوران اس نے لاتعداد دفعہ نوکری کا طعنہ سنا۔
خاندان کے کچھ لوگ تو منہ پر سنا جاتے
کچھ لفظوں کو گھما کر لپیٹ کر کوڑے برساتے۔ وہ کسی کو کیا بتاتی کہ وہ کتنی تھک گئی ہے۔ نوکری کے دوران اس کی کئی لڑکیوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ مگر ایک بات اسے حیران کر جاتی کہ کوئی بھی شوق سے نوکری نہیں کر رہا تھا۔ اگر کسی نے شوق سے نوکری کی بھی تھی تو یہی نوکری اس کے پیروں کی زنجیریں بن گئی تھیں
اب وہ چھوڑنا چاہتی تھیں مگر اب گھر اور سسرال والے انہیں چھوڑنے نہ دیتے تھے. کسی کو گھر کا بوجھ اٹھانا تھا۔ کسی کا شوہر کمانا نہیں تھا۔ کسی کو اکیلے اولاد کو پالنا تھا تو کسی کو بھائی بھائی پر پوچھ نہیں بنتا تھا۔ ان میں سے کوئی بھی خوش نہیں تھا۔ اللہ نے عورت کو
گھر کی ملکہ کا درجہ دیا ہے
ہانوں کہ وہ گھر گھرستی میں خوش رہے۔ بس جو حالات سے مجبور ہیں وہی نوکری کر رہی ہیں اس انتظار میں کہ کوئی باپ کوئی بیٹا کوئی بھائی کوئی شوہر پیار سے ایک بار کہہ دے کہ کل سے نہ جانا۔ ردا بھی آپ بہت تھک گئی تھی تنخواہ آب پچیس ہزار ہو گئی تھی مگر اسے کوئی خوشی نہ تھی۔ انہی دنوں اسے پتا چلا
کہ اریان کی شادی ہو گئی ہے وہ بھی کسی ڈاکٹر سے۔ وہ دن اس کی زندگی کے مشکل ترین دنوں میں سے تھے۔ ردا کی امی نے بتایا کہ لڑکی کے ماں باپ بھی ڈاکٹر ہیں اور لڑکی اربان کی پسند کی ہے۔ اور ردا بس یہی سوچ کر رہ گئی کہ اگر تمہاری پسند کی ڈاکٹر لڑکی نوکری کرے گی تو کیا تم اعتراض کرو گے اریان؟
جو نیئر سے سینٹر آفیسر کی پوسٹ پر پہنچنے میں روا کو پورے چار سال لگ گئے۔ اب وہ پورے چھبیس سال کی ہو گئی تھی۔ ابو کی دکان بھی سیٹ ہو گئی تھی۔ ماں باپ کی خواہش تھی کہ بس اب ردا اپنے گھر کی ہو جائے۔ ردا کو آئے دن رشتے والے دیکھنے آتے مگر کئی تو اس کی نوکری کا سن کر ہی غائب ہو جائے اور کچھ کو
اس کی ٹوٹی منگنی پر شک گزرتا۔ ماں باپ کی خواہش تھی کہ ردا نوکری چھوڑ دے۔ ردا کی ماں سوچتی تھی کہ اگر لڑکے والوں کو پتا ہی نہ چلے کہ وہ نوکری کرتی ہے تو شاید رشتہ ہو جائے مگر ردا سوچتی کہ اب اس پر نوکری کا داغ لگ ہی چکا ہے تو جس کو بھی قبول کرتا ہے وہ اس کے ہی چکا تو کوبھی قبول کرنا ہے وہ اس
ساتھ ہی کرے۔ ردا جانتی تھی
کہ لوگ سوچتے ہیں کہ نوکری کرنے والی ان کے
گھروں پر قبضہ کرلے گی۔ بیٹوں کو چھین لے گی۔ منہ زور ہوگی تو کیا واقعی تمام نوکری کرنے والیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ؟ یا جو نوکری نہ کرتی ہوں وہاں ایسا نہیں ہوتا۔ منیب کا رشتہ ردا کے لئے آیا تو وہ حیران رہ گئی منیب ردا کے محلے میں رہتا تھا۔ اس کی مارکیٹ میں
اپنی کا سمیٹکس کی دکان تھی۔ وہ ردا اور اس کی زندگی سے بخوبی واقف تھا۔ ردا کا پھول بن اسے بھا گیا تھا۔ ماں باپ نے تھوڑی بہت چھان بین کے بعد ہاں کر دی شادی سے پہلے ردا نے نوکری منیب کے کہنے پر چھوڑ دی۔ اس کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی اور شادی کے بعد وہ بہت خوش بھی تھی