وہ محبت کا اظہار کرنے والا اس کی زندگی کو بے کار کر گیا تھا۔

آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر اسے خود سے نفرت ہو گئی
ایسڈ سے جھلسی ہوئی جلد نے رونگٹے کھڑے ہونے کے قابل بھی نہ چھوڑے تھے۔ وہ رونا چاہتی تھی اتنا کہ آنسو تیزاب کی حدت کو کم کر دیں اور درد کی
شدت کو بھی
لیکن جانے کیوں رو نہیں پارہی تھی انسان کی خوشی ور غم کی ایک حد ہوتی ہے اس حد کو کراس کرنے کے بعد انسان نا غم محسوس کر پاتا ہے نہ خوشی بالکل ایسے ہی جیسے کوئی شخص آگ سے جھلس جائے
تو ڈاکٹر اوپری جلد پر سوئیاں چھوتے ہیں اگر مریض درد سے کراہنے لگے تو ڈاکٹر مسکراتے ہیں اور اگر مریض کچھ بھی محسوس نہ کریں تو ڈاکٹر ز تشویش میں
مبتلا ہو جاتے ہیں۔
وجہ یہی ہے کہ اوپری جلد جل جائے یا اندرونی جلد درد محسوس نہیں کرتی. وہ ان لمحوں کو سوچ رہی تھی جن کو وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی وہ چند گھڑیاں جنہوں نے اس کو پوری زندگی کو
جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اُس سے اُس کی شناخت تک چھین لی تھی وہ محبت کا اظہار کرنے والا اس کی زندگی کو بے کار کر گیا تھا جب افتخار نے اس کے چہرے پر تیزاب سے بھرا بلب مارا تھا
تو اسے لگا کہ اس کی جلد کے بہت اندر تک کسی نے کو ملے بھر دیے ہوں وہ تب رو رہی تھی چیخ رہی تھی درد اپنی حدوں کو چھونے کے لیے بے تاب تھا اور وہ تڑپ رہی تھی
اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی جو ادھ کھولی ہی کھل سکی تھی۔ اپنے ارد گرد اپنوں کو محسوس کر کے اسے تھوڑا سکون محسوس ہوا۔ اپنے رشتے بھی کتنی پیاری چیز ہوتے ہیں نا۔
اپنی فیملی کو انسان پہلے پہچانتا ہے خود کو بعد میں۔ اگلے ہی لمحے درد کی ایک تیز موج کو اس نے اپنے چہرے اور گردن کے گرد محسوس کی۔ وہ بے ہوش ہو چکی تھی کیونکہ درد کی شدت سہہ نہیں پائی تھی
دن گزرتے کے وہ ہسپتال سے گھر شفٹ ہو چکی تھی اس نے ہر بات قبول کر لی تھی اپنی بد صورتی سے لے کر اپنی بد قسمتی تک لیکن وہ یہ بات قبول نہیں کر سکتی تھی کہ کوئی انسان اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے۔ وسکتا
کہ جس سے وہ محبت کے دعوے کر رہا ہوتا رہا ہو اس کے انکار پر اس کی پوری زندگی کو روگ لگا دے ،اس کی شناخت، اس کا چہرہ اس سے چھین لے۔ وہ سوچتی رہی وہ آئینہ میں کیسے خود کا سامنا کرتا ہوگا
عالیہ نے کہیں پڑھا تھا کہ انسان پہلے بندر ہوا کرتا تھا مطلب جانور سے ارتقاء کے نتیجے میں انسان کا ظہور ہوا ہے اور اسے لگا ہو سکتا ہے یہ تھیوری ٹھیک ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ افتخار ابھی
جانور سے انسان بننے کے عمل کو پورا نہ کر پایا ہو۔ عالیہ کی ماں اس سے شدید محبت کرتی تھی انہوں نے اس مشکل وقت میں عالیہ کو مشکل سے نکالا اور اسے زندگی اور آئینہ کا سامنا کرنا سکھایا
مسز انور نے عالیہ کو کالج جانے اور اپنی پڑھائی کو مکمل کرنے پر آمادہ کر لیا۔ کالج میں لوگوں کی نظریں اتنی تیز اور حقارت آمیز تھی کہ اسے لگا کہ جیسے لوگ نظروں
سے تیزاب ڈال رہے تھے۔
اسے ان نظروں کی سختی اور تلخی کو نظر انداز کرنے میں بہت وقت لگا۔ لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھی۔ عالیہ اب مقابلے کے امتحان میں اعلی پوزیشن حاصل کر کے جج کے عہدے تک پہنچ چکی تھی
وہ لمحہ اس کے لیے کتنا یاد گار تھا جب وہ حج کی سیٹ پر بیٹھنے کے لئے آئی تو سب نے کھڑے ہو کر احترام سے اُس کو اُس کی اہمیت کا یقین دلایا وہ اب بھی ایک جھلسے ہوئے چہرے والی ایک بدصورت لڑکی تھی
لیکن اندر سے وہ ایک مضبوط ترین انسان اور بہترین حج تھی لوگ اس کے فیصلوں اور عقل پر دھنگ رہ جاتے تھے۔ ایک نیا کیس رجسٹر ہوا تھا کسی نشئی پر پولیس والوں نے بہت تشدد کیا تھا
جس کی وجہ سے وہ اپنی ٹانگوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ پولیس کو بلایا گیا اور مدعی کو اس کے رشتہ داروں سمیت کورٹ میں آنے کو کہا گیا۔ مقدمہ شروع ہوا اور جیسے ہی وہ کورٹ میں داخل ہوئی،
سب احتراماً کھڑے ہو کئے لیکن ایک شخص کھڑا نہیں ہوا وہ گندے میلے کپڑے پہنے وہیل چیئر پر بیٹھا تھا۔ دوسرے ہی لئے عالیہ حیران رہ گئی کہ وہ اپانچ تو افتخار
تھا جو لٹھے کا سوٹ پہن کر مونچھوں کو
تاو د یے پاؤں زمین پر مار کر چلتا تھا۔ جس نے اس کی زندگی برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ اب ایک مدعی بن کر سائل بن کر، اس کے در پہ کھڑا تھا۔ عالیہ نے پولیس کو جرمانہ کیا۔
اور مدعی کو ہسپتال میں بھیجنے کا پورا خرچہ پولیس کو دینے کا کہہ کر مقدمہ خارج کر دیا۔ وہ کیس کا فیصلہ کرتے ہی بھاگ کر عدالت سے اپنے آفس میں آئی اور جائے نماز پہ سجدہ ریز ہو گئی
کہ مالک جس نے میری زندگی کو برباد کیا، وہ اب دوسروں کا محتاج ہے۔ جس نے مجھے اتنا خوار کیا، تم نے ایسے میرے در پہ سائل بنا کر کھڑا کر دیا وہ روتی جاتی تھی۔۔ اور پڑھتی جاتی تھی تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے