ایران کا بادشاہ بہت پریشان تھا۔ ہر باپ کی طرح وہ بھی اپنی بیٹی کا فرض ادا کرنا چاہتا تھا۔

ایران کا بادشاہ بہت دنوں سے پریشان تھا یوں تو ہر طرف خوشحالی کا دور تھا مگر بادشاہ کی پریشانی کی وجہ اس کی اکلوتی بیٹی شہزادی ثنا تھی۔ ہر باپ کی طرح بادشاہ بھی اپنی بیٹی کی شادی کر کے اپنے فرض سے ادا ہونا چاہتا تھا لیکن شہزادی شاہ نے بھی عجیب اعلان کر رکھا تھا کہ جو شخص اس کے سوالوں
کے درست جواب دے گاوہ اس سے شادی کرے گی۔ آس پاس کی ریاستوں کے کی شہزادے آئے۔ مگر ناکام لوٹ کئے۔ اس ملک میں نوجوان طالب علم بھی رہتا تھا اس کا نام اعظم تھا۔ اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ بھی اپنی قسمت آزمانا چاہتا ہے۔ اعظم کے والد استاد تھے اور کئی برسوں سے لوگوں میں علم کی روشنی بانٹ رہے تھے۔
ملک فارس کا وزیر اعظم، بڑے بڑے درباری، اور شہر کا قاضی بھی ان کا شاگرد تھا۔ باپ نے بیٹے کی خواہش دیکھی تو بولے بیٹا ! اگر تو ناکام لوٹا تو تیر اکچھ نہیں جائے گا۔ لوگ کیا کہیں گے کہ ایک استاد کا بیٹ نا کام ہو گیا۔ اعظم اپنے باپ سے کہنے لگا بابا! بڑے بڑے شہزادے لوٹ کئے۔ اگر میں بھی ناکام ہو گیا تو کیا ہوا۔
یہ تو مقابلہ ہے جو بھی جیت لے۔ اور شاید وہ خوش نصیب میں ہی ہوں۔ آخر باپ کو بیٹے کی ضد ماننی پڑی۔ خوشی خوشی محل کی طرف چل پڑا۔ شہر بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کہ ، ایک عالم کا بیٹا قسمت آزمانے محل میں چلا آیا ہے مقررہ وقت پر محل لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بادشاہ
تخت پر بیٹھا تھا۔ ملکہ عالیہ بھی محل میں موجود تھیں وزیر، امیر، درباری، اور عوام الناس دربار میں موجود تھے۔ آخر شہزادی نے اپنا پہلا سوال کر ڈالا اس نے شہادت کی انگلی فضا میں بلند کی۔ اعظم نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر شہادت والی انگلی کے ساتھ والی انگلی فضا میں بلند کی یہ دیکھ کر شہزادی
مسکرا اٹھی اور ملکہ عالیہ بولی : شاباش اے نوجوان تم پہلا مرحلہ کامیابی سے طے کر کئے ہو۔ دوسرے سوال کے لیے شہزادی کرسی سے اٹھی اور ہاتھ میں تلوار لے کر ہوا میں چلانے لگیں۔ کچھ دیر بعد وہ دربارہ اپنی نشست پر بیٹھ گئی۔ بادشاہ سمیت ہر درباری کی نظر اعظم پر تھی اعظم کھڑا ہوا اور اپنی جیب سے قلم نکال کر
فضا میں بلند کر دیا۔ شاباش نوجوان ! ہم خوش ہوئے۔ یہ جواب بھی درست ہے۔ ملکہ عالیہ کی آواز دربار میں ابھری۔ اسی کے ساتھ دربار مبارک ہو ، مبارک ہو، کی آواز سے گونج اٹھا۔ دو سوالات کیا تھے ان کے جوابات کیا تھے۔ اب ہر شخص اس پر غور کر رہا تھا کہ شہزادی نے پوچھا اور اعظم نے کیا جواب دیا۔ لوگوں کے لئے
یہ ایک راز تھا۔ آخر شہزادی نے تیسر اسوال کر ڈالا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اتری اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر دوبارہ اپنی نشست پر بیٹھی۔ یہ بڑا عجیب و غریب سوال تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ لوگوں کی سانسیں رکی ہوئی تھی۔ اب تو اعظم کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوئے جار ہے تھے۔ آخر اعظم کھڑا ہوا اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ
کر شہزادی کی طرف دیکھنے لگا مر حبا، مرحبا، اے نوجوان مبارک ہو ! شہزادی نے تمہیں پسند کر لیا ہے۔ ملکہ عالیہ کی آواز کے ساتھ ہی شہزادی ثنا شرما کر محل کے اندرونی حصے میں چلی گئی۔ اور محل مبار کباد کی آواز سے گونج اٹھا۔ لوگ خوشی سے جھوم رہے تھے وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا جس
نے اسے یہ اعزاز بخشا تھا۔ بادشاہ نے اعظم سے پوچھا اے نوجوان ! ملکہ عالیہ کو تو تم نے مطمئن کر دیا۔ اب یہ بتاؤ کہ تم سے کیا پوچھا گیا تھا اور تم نے کیا جواب دیا۔ اگر تم نے ایک بھی غلط جواب دیا تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گی اعظم پر اعتماد انداز میں کھڑا ہوا بولا ! بادشاہ سلامت شہزادی نے ایک انگلی کھڑی کر کے
پوچھا تھا کہ تم کیا اللہ کو ایک مانتے ہو ؟ میں نے دو انگلیاں کھڑی کر کے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میرا ایمان اٹل ہے۔ بہت خوب ہم خوش ہوئے۔ بادشاہ نے مسکرا کر کہا! اعظم بولا اس کے بعد شہزادی نے تلوار چلا کر پوچھا تھا کہ اس سے بڑا کوئی ہتھیار ہے میں نے جواب دیا ہاں قلم کا وار تلوار
کے وار سے زیادہ کار گر ہوتا ہے۔ ماشاء اللہ نوجوان ! تم نے ہمار ا دل جیت لیا۔ تم نے ثابت کر دیا کہ جاہ و جلال دولت و حشمت کی علم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن تیسر اجواب بادشاہ نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پوچھا اعظم نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہنے لگا بادشاہ شہزادی دربار کی سیڑھیاں اتری اور چڑھی
کرسی پر تھک کر بیٹھ گیئں۔ انھوں نے پوچھا تھا کہ میں تھک چکی ہوں۔ لیکن میرے جسم کا ایک چیز نہیں تھکی۔ میں نے جواب دیا دل ! یہ پیدائش سے لے کر موت تک بغیر تھکے دھڑکتا رہتا ہے۔ بادشاہ نے اعظم کو پاس بلا کر گلے سے لگالیا اور کہا اے لوگو ! گواہ رہنا میں نے حقدار کا حق ادا کر دیا ہے
میری بیٹی ایسے شخص کی بیوی بن رہی ہے، جس کے پاس علم کی دولت ہے۔ جسے کوئی نہیں چر اسکتا اور نہ کم کر سکتا ہے۔ بادشاہ نے اسی وقت خوشی خوشی اعظم اور
شہزادی ثناء کی شادی طے کر دی۔۔۔۔