دلچسپ و عجیب

دھوکا دینے کا انجام سچی کہانی اس کی باتوں میں عجیب مٹھاس تھی

وہ اپنے شوہر کو پیار سے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کو کبھی کبھی افسانوی کردار لگتا تھا۔ جس کا دل دیوتا کی طرح بڑا تھاجو محبت میں لاثانی تھا۔ آج وہ ماضی کی سوچوں میں محو تھی۔ اسے پانچ سال پہلے کے واقعات یاد آئے تو اس کی آنکھوں سے آنسو امڈ آئے۔ وہ کتنی نادان تھی ! اگر اسے وہ شخص مل جائے

تو اسے قتل کر دے۔ چاہے بعد میں اسے پھانسی ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اسکی ملاقات اس لڑکے سے پہلی بار ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی جب وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی۔ ان کی نظریں آپس میں ملیں اس کی شخصیت میں سحر تھا۔ اس لڑکے نے ایک پرچی پر اپنا فون نمبر لکھ کر اپنی ٹیبل پر رکھ دیا۔

اس کی قسمت خراب تھی کہ اس نے اس پر چی کو بعد میں اپنے پرس میں رکھ لیا۔ یہ بہت ہی بچگانہ عمل تھا۔ کئی دن بعد اس نے ہمت کی اور اسے فون ملایا۔ اس کی باتوں میں عجیب مٹھاس تھی۔ جس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ اس کے قریب آگی۔ اس کی فیملی لڑکیوں کی آزادی کی قائل نہیں تھی کہ لڑکیوں کا

۔ لڑکوں سے یوں بات کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے چھپ چھپ کر بات کرتی۔ وہ اس شخص کی طلسماتی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو چکی تھی۔ گھنٹوں فون پر بات کرتی تھی۔ پھر لڑکے نے ملاقات کے لیے اصرار شروع کر دیا۔ پہلے تو اسے منع کرتی رہی لیکن ایک دن اس نے ملنے کی حامی بھر لی۔

ریسٹورنٹ میں جب دونوں نے آمنے سامنے بیٹھ کر پہلی دفعہ بات کی۔ تو اسے بہت اچھا لگا۔ پھر یہ سلسلہ چلنا شروع ہو گیا کہ ہفتے میں ایک دن ملاقات ضرور ہوتی تھی۔ اس کی آنکھوں سے پھر آنسو امڈ آئے۔ وہ ایک دم خیالات کی دنیا سے واپس آگی۔ اس نے اپنے شوہر کو ایک بار پھر پیار کی نظر سے دیکھا۔ اسے اگر اس بات کی

وم. پرواہ نہ ہوتی کہ اسکی نیند خراب ہو جائے گی تو ضرور اس کے ہاتھ کو چوم لیتی۔ جس نے اسکا بہت مشکل وقت میں ہاتھ تھاما تھا۔ آج نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ وہ پھر ماضی کی دنیا میں واپس چلی گئی۔ اس لڑکے نے اسے پہلی بار اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ یتیم ہے اس کا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔

اس وجہ سے ایسے اس کی ذات سے محبت کے ساتھ ہمدردی بھی تھی۔ گھر میں ملاقاتیں ہونی شروع ہو گئیں۔ پھر ایک دن محبت کے نشے میں وہ گناہ ہو گیا۔ جس کا کوئی عزت دار بندہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ اس دن بہت روئی تھی کہ اس سے یہ غلطی کیوں ہوگی۔ مگر اسے اس لڑکے کی محبت پر بھروسہ تھا کہ وہ

اسکی غلطی کو جلد ہی شادی کے ذریعے ٹھیک کر دے گا۔ وہ شادی کا اصرار کرتی تو وہ ہنس کر ٹال دیتا کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ وہ بری طرح گناہ کی دلدل میں پھنس چکی تھی۔ پھر اچانک وہ غائب ہو گیا۔ اس کے بعد کبھی اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اس کا گھر بھی خالی تھا۔ جو کرائے کا تھا۔ اس کے موبائل نمبر ز بھی بند تھے

اس نے رو رو کر برا حال کر دیا۔ اس کا گناہ اتنا بڑا تھا کہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی۔ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر جی رہی تھی۔ چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک دن اس کا بھائی باہر سے آیا اور اسے مارنا شروع کر دیا۔ وہ بے رحمی سے اسے مار رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسکا  قصور کیا ہے۔ اس نے پوچھا۔ مگر وہ

کچھ نہیں سن رہا تھا۔ بس وہ مارتا ہی چلا جارہا تھا۔ جب وہ مار مار کر تھک گیا تو بولا تم کو شرم نہیں آئی۔ ہم سب کی عزت خاک میں ملادی۔ تم مرکیوں نہیں گئی۔ اس کے گرجنے کی آواز سن کر امی اور ابو بھی آگئے۔ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ تم کیوں اسطرح بہن کو مار رہے ہو۔ تم کو شرم نہیں آتی ! ماں نے اس کا سر

اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا، بھائی بولا۔ شرم اس کو نہیں آئی۔ کسی کے ساتھ منہ کالا کرتی رہی۔ بھائی کی یہ بات سن کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ کہ بھائی کیا کہہ رہا ہے۔ پھر اسے پتا چلا کہ جس سے وہ محبت کرتی تھی۔ جس کو اس نے سب کچھ دے دیا۔ وہ فرعون صفت انسان تھا۔ وہ ایک بھیڑیا تھا۔ جو شکار کرتا تھا۔

اس نے خفیہ کیمروں کے ذریعے گناہ کے مناظر کو محفوظ کر کے چند پیسوں کے لیے۔ انٹرنیٹ پر فروخت کر دیا۔ اسکا پیشہ یہ ہی تھا۔ ایسی ذلت کی زندگی سے اچھی موت ہے۔ اس نے زہر کھالیا۔ مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس کو بر وقت ہسپتال پہنچایا گیا۔ اس کی جان

بچ گی۔ گھر والے اس کے بعد وہ علاقہ چھوڑکر

نئے علاقے میں شفٹ ہو گئے۔ ایک دن اس کے والد نے بتایا کہ ایک رشتہ ہے۔ معقول لڑکا ہے اچھی جاب کرتا ہے۔ کل لڑکے والے دیکھنے آئیں گے ۔ لڑکے

 والے آئے اور اسے پسند کر کئے۔ مگر وہ خود دل سے مطمئن نہیں تھی۔ اسے سچ بتانا تھا۔ اس نے کسی طرح لڑکے کا نمبر لیا اور اس سے بات کی اس نے سب کچھ

سچ سچ بتا دیا۔ اس نے ساری باتیں سننے کے بعد کھلے دل سے اس کو قبول کیا اس نے زندگی کے کسی موڑ پر بھی اسے اس بات کا طعنہ نہیں دیا۔ بلکہ اس نے اس کی سوچ سے زیادہ اسکا احترام کیا۔ اور پیار دیا۔ تم ابھی تک سوئی نہیں ہو۔ آرام کرو۔ اس کے شوہر کی آنکھ کھل گئی جی میں بس سونے لگی ہوں۔اس نے سائیڈ پر رکھے

ٹیبل لیمپ کی لائٹ بجھا دی۔ مگر ماضی کی سوچیں ایس پر حاوی تھیں۔ نیند کی دیوی آج اس پر مہربان نہیں تھی۔ دس سال بعد ایک دن۔ دونوں میاں بیوی۔ عام دنوں کی طرح شاپنگ پر نکلے۔ ایک اشارے پر ایک بھکاری ان سے بھیک مانگنے کے لیے آگے بڑھا۔ اللہ کے نام پر دے دو۔ اللہ جوڑی سلامت رکھے۔

وہ اسے صاف دیکھ سکتی تھی۔ اس نے دس کا نوٹ پرس سے نکال کر اسے پکڑایا۔ اس کی زندگی کا آج بہت بڑا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ جس نے اس کی روح کو اندر سے گھائل کر رکھا تھا۔ وہ اس فقیر کی جسمانی خستہ حالی کو دیکھ سکتی تھی۔ اس کے ہاتھ پاوں بالکل بیکار تھے۔ وہ

چلتا پھرتا موت کا شاہکار تھا۔

اشارہ کھل گیا۔ اس نے آنکھ کھولی۔ وہ جاتے ہوئے اس فقیر کو دیکھ سکتی تھی۔ جو ایک گاڑی کے پیچھے بھیک کے لیے

بھاگ رہا تھا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button