سلطان مراد (بادشاہ) کی عادت تھی کہ وہ بھیس بدل کر ، عوام کی خبر گیری کرتا تھا۔

سلطان مراد (بادشاہ) کی عادت تھی کہ وہ بھیس بدل کر ، عوام کی خبر گیری کرتا تھا اک دن اپنے سیکورٹی انچارج کو بولا، چلو کچھ وقت لوگوں میں گزارتے ہیں۔ شہر کے ایک کنارے پر پہنچے تو دیکھا ایک آدمی گرا پڑا ہے . بادشاہ نے اسے ہلا کر دیکھا تو وہ مر چکا تھا، لوگ اس کے پاس سے گزر کر جارہے تھے بادشاہ نے لوگوں کو
آواز دی، ادھر آؤ بھائی۔ لوگ جمع ہو گئے اور وہ بادشاہ کو پہچان نہ سکے۔ لوگوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ بادشاہ نے کہا : آدمی مرا پڑا ہے ، اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا؟ کون ہے یہ اور اس کے گھر والے کہاں ہیں لوگوں نے کہا : یہ بہت برا اور گناہ گار انسان ہے، تو سلطان مراد نے کہا : کیا یہ امت محمدیہ میں سے نہیں ہے؟
چلو اس کو اٹھائیں اور اسکے گھر لے چلیں۔ لوگوں نے میت گھر پہنچادی اس کی بیوی نے خاوند کی لاش دیکھی تو رونے لگی۔ لوگ چلے گئے ، بادشاہ اور اسکا سکیورٹی انچارج وہیں عورت کا رونا سنتے رہے، عورت کہہ رہی تھی میں گواہی دیتی ہوں، بیشک تو اللہ کا ولی ہے اور نیک لوگوں سے ہے۔ سلطان مراد بڑا متعجب ہوا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے لوگ تو اس کے بارے میں غلط باتیں کر رہے تھے اور اس کی میت کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ تھے۔ اس کی بیوی نے کہا: مجھے بھی لوگوں سے یہی توقع تھی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ میرا خاوند ہر روز شراب خانے جاتا، جتنی ہو سکے شراب خریدتا اور گھر لا کر گڑھے میں بہا دیتا، اور کہتا کہ چلو کچھ تو
گناہوں کا بوجھ مسلمانوں سے ہلکا ہو۔ اسی طرح رات کو اجرت دے دیتا اور اس کو کہتا کہ اپنا دروازہ بند کر لے، کوئی تیرے پاس نہ آئے، گھر آکر کہتا، الحمد للہ ! آج اس عورت کا اور نوجوان مسلمانوں کے گناہوں کا میں نے
ایک بری عورت کے پاس جاتا اور اس کو ایک رات کی
کچھ بوجھ ہلکا کر دیا ہے۔ لوگ اِس کو
اُن جگہوں پر آتا جاتا دیکھتے تھے۔ میں اسے کہتی تھی کہ یاد رکھ ! جس دن تو مر گیا لوگوں نے تجھے غسل دینا ہے نہ تیری نماز پڑھنی ہے اور نہ تجھے دفتانا ہے۔ وہ مسکرا دیتا اور مجھ سے کہتا کہ گھبر امت تو دیکھے گی کہ میرا جنازہ وقت کا بادشاہ، علماء اور اولیا پڑھیں گے ، یہ سن کر بادشاہ رو پڑا اور کہنے لگا
میں سلطان مراد ( بادشاہ) ہوں، کل ہم اس کو غسل دیں گے ، ہم اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائیں گے اور اس کی تدفین بھی ہم کروائیں گے۔ چنانچہ اس کا جنازہ بادشاہ
علماء اولیاء اور کثیر عوام نے پڑھا۔۔۔
آج ہم بظاہر کچھ دیکھ کر یا محض دوسروں سے کچھ سن کر اہم فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ اگر ہم دوسروں کے دلوں کے بھید جان جائیں تو ہماری زبانیں گونگی ہو جائیں۔ خدارا کسی کو غلط سمجھنے سے پہلے دیکھ لیں کہ کیا وہ ایسا ہے بھی کہ نہیں۔ مجھے اس واقعے کی سچائی معلوم نہیں ہے
لیکن جو بھی کہا اور لکھا ہے ہماری بھلائی کے لیے ہی ہے آخر ہم دوسروں کی غلطیوں پر حج کیوں بن جاتے ہیں