اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پہ رکھ کر مجھے چپ کروا دیا۔

میں صرف کمرے کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ اور دوسری طرف شہزاد کی شادی کے دن قریب پہنچ چکے تھے۔ میں نے اپنی بہن سے بات کرنا چاہی لیکن بے سود، میں نے شہزاد سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ اور ایک رات سب سے چھپ کر اس سے ملنے چلی گئی۔ وہ بھی میرے انتظار میں
پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ اس دشمن جاں کو دیکھتے ہی میں اس کے سینے سے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد آج پھر ہم ایک دوسرے کی بانہوں میں تھے لیکن فرق اب یہ تھا کہ وہی شہزاد جو مجھ پر جان چھڑکتا تھا اب میرے لئے جیسا بیگانہ بن گیا ہو۔ میں نے
اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے شہزاد سے کہا کہ اب میں اور تمہاری جدائی نہیں برداشت کر سکتی ہم سب سے چھپ کر نکاح کر لیتے ہیں اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پہ رکھ کر مجھے چپ کروا دیا۔ میری گردن پہ اپنے پیار کی نشانی سپرد کرتے ہوئے اس نے مجھے خود میں بیچ لیا۔ میں
بھی برسوں سے اس کے پیار کی پیاسی اس میں مدہوش ہوتی چلی گئی اور اپنا آپ اس
کے سپرد کر دیا۔ اس رات میں نے شہزاد کو پا لیا اور اس نے مجھے میں تو جیسے اپنے سارے غم ہی بھول گئی تھی۔ شہزاد نے مجھے تسلی دی کہ وہ صبح ہی اپنے ابو سے بات کرے گا اور مہوش کے ساتھ رشتے کا
قصہ ہی ختم کر دے گا۔ میں اس کی بات سن کے پرسکون ہو گئی اور اس کی بانہوں میں جھوم گئی۔ پھر جلدی سے شہزاد نے مجھے میرے گھر چھڑا جو کہ بلکل ساتھ ہی تھا اور واپس چلا گیا۔ میں گھر آئی تو سب ویسے ہی سو رہے تھے میں بھی آہستہ سے اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی اور اپنی
قسمت پر رشک کرنے لگی کہ کتنی خوش نصیب ہوں میں کہ جسے بچپن سے اتنا پیار کیا میں نے اسکے پیار کو پا لیا. اور اس کے خیالوں میں گم ہو کر نجانے کب خوابوں کی نگری میں چلی گئی۔ صبح میری آنکھ ایک عجیب سے شور سے کھلی آنکھ کھولی ہی تھی کہ میرے منہ پہ زوردار تھپڑ لگا ہوش میں
آکر دیکھا تو سامنے امی کھڑی تھی اور کہہ رہی تھیں کہ یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے۔ امی نے جو مجھے بتایا وہ سن کہ میری سانس جیسے رک سی گئی۔ شہزاد نے صبح اٹھتے ہی ماموں سے ہمارے بارے میں بات کی جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان گرما گرمی بہت بڑھ گئی اور شہزاد کو گھر
چھوڑ کر جانے کا کہا گیا مامی نے بہت روکا کہ ہمارا بیٹا ہے اسے گھر سے نہ نکالیں لیکن پاس کھڑی مہوش کی امی نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا اور کہا کہ اسی سے اس کی عقل ٹھکانے لگے گی اور عشق کا بھوت اترے گا ۔ مامی کا رو رو کے برا حال ہو گیا تھا لیکن ماموں نے ایک نہ سنی
اور شہزاد کو گھر سے باہر نکال دیا. شہزاد کا گھر سے باہر نکلنا تھا کہ مامی کو دل کا دورو پڑا اور وہیں زمین پر گر گئیں. مجھے بتایا گیا کہ وہ ابھی ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں لیے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ سن کر مجھے بہت رونا آیا کہ میں پیار میں کتنی خود غرض ہو گئی تھی اور
کر برا حا ایی حرکت کی وجہ سے آج اسکی ماں کا یہ حال ہے۔ ماموں شہزاد سے نفرت کر گئے تھے. اور مجھ سے میری امی وہ دن میری زندگی میں کسی عذاب سے کم نہ تھے۔ ان دنوں میں میں نے بہت بار شہزاد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ہر بار
مجھے مایوسی دی اور ان سب کا قصوروار مجھے ٹہرا دیا جبکہ میں نے تو بس اسکو اور اسکے پیار کو ہمیشہ مانگا تھا. لیکن یہ شاید میری ہی بد نصیبی تھی کہ پیار حاصل کرتے کرتے میں نے اس کی نفرت اپنے نام کر لی میں نماز پڑھتی اور روز مامی کے لیے دعا کرتی کہ یا رب مجھ پر کرم کر اور
میری ماں کو مجھ سے راضی کر دے. نماز ہی بس میرا معمول بن گیا تھا اور میں پائے نماز پر پڑی ہی سارا دن گزار دیتی تھی کہ اچانک ایک دن امی نے بتایا کہ مامی اب خطرے سے باہر ہیں اور ڈاکٹر نے گھر جانے کی اجازت بھی دے دی ہے میں وہی رب کے حضور سر بسجود ہوئی
اور شکر ادا کرنے لگی. میں نے امی سے ہسپتال جانے کی ضد کی لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔ آخر میں نے ان کو رو رو کر رب کا واسطہ دیا اور معافی مانگی. آخر ماں تھی کب تک بیٹی کو تڑپتا دیکھتی اور مجھے اپنے ساتھ ہسپتال لے لیں. وہاں پہنچتے ہی میری پہلی نظر شہزاد پر پڑی جو
مجھے دیکھتے ہی نفرت آنکھوں میں لیئے منہ دوسری طرف کر گیا اس کا ایسا کرنا میرے دل کو چیڑ گیا لیکن خود کو سنبھالتے ہوئے میں مامی کی طرف بڑھی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. میں نے اپنے کیے کی معافی مانگی مامی نے مجھے گلے سے لگا لیا اور مجھے معاف کر دیا. یہ سننا
تھا کہ میرے دل سے جیسے ایک بوجھ اتر گیا ہو. سب نارمل ہو چکے تھے اور مامی کو گھر لے کر جانے کی تیاری ہونے لگی۔ میں نے ایک نظر شہزاد کی طرف دیکھا جو کہ ان سب میں ابھی بھی صرف مجھے ہی قصور وار سمجھ بیٹھا تھا لیکن ان سب میں میرا کیا قصور تھا یہ میں آج تک نہ جان
سکی کہ جیسے شہزاد نے مجھ سے منہ پھیرا ہے کیا وہ بس اتنا ہی پیار اور یقین مجھ پر رکھتا تھا یا شاید اُس کا دل بھر چکا تھا۔