دلہن ہو تو ایسی

میری بیوی آمنہ بہت ہی اچھی تھی۔ محبت کرنا سکھایا تھا اس نے مجھے۔ جینا بھی اسی نے سکھایا تھا مجھے۔ میری زندگی کو جنت بھی اسی نے بنایا تھا۔ وہ لڑکی نہیں زندگی تھی میری۔ وہ تھی تو میری ارینج میرج لیکن چند دنوں میں ہی اس نے میرے جسم و جان پر حکمرانی شروع کر دی تھی۔ اس کا نام بہت ہی پیار تھا۔ وہ اپنے نام کے ساتھ میر انام لکھنا کبھی نہ بولتی تھی۔
اپنے بازو پر پینسل سے لکھ رکھا تھا آمنہ کامران۔ وہ میری ہمسفر
اس وقت بنی تھی جب میں کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ اچھی جاب نہ
اچھا گھر ، نہ مستقبل ، وہ ہمسفر بن کر آئی مجھے بہت پیار دیا۔ کپڑے
دھلے ہوئے ملتے ۔ ہر چیز مجھے ایک آواز پر لادیتی۔ میں چاہے رات کے کسی پہر بھی گھر لوٹتا۔ اسے میں انتظار کرتے ہوئے
پاتا۔ وہ میرے انتظار میں بیٹھی رہتی۔
گھر آتا میر احال پوچھتی۔ کھانا گرم کر کے لاتی میرے پاس بیٹھ جایا کرتی تھی۔ پھر باتوں ہی باتوں میں مجھے کہا کرتی کامران آپ جلد آجایا کریں۔ پتا ہے مجھے کتنی فکر لگی رہتی ہے آپ کی۔ میں مسکرانے لگتا اس کی طرف دیکھتا مجھے محسوس ہو جاتا اس نے
آپ مجھے فون کر کے بھی تو نہیں بتاتے۔
ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔
میں اپنے ہاتھ سے اس کے منہ میں نوالہ ڈالتا وہ گلاب کی طرح کھل اٹھتی۔ اس کے چہرے کی ساری اداسیاں غائب ہو جاتی آنکھیں نیند سے بو جھل ہوا کرتی تھیں۔ سرخ آنکھوں سے مجھے کہتی کامران جلدی کھانا کھا ئیں مجھے نیند آئی ہے میں جانتا تھا اس پاگل کی عادت تھی میرے بازو پر سر رکھ کر سونا۔ میں کھانا کھاتا تو جلدی سے بر تن کچن میں رکھ کر آتی میرے پاس لیٹ جاتی۔
میں ٹی وی آن کرتا اسے میرے بازو پر سر رکھتے ہی نیند آجاتی۔ عجیب محبت تھی اس کی۔ میری آغوش میں اسے سکون ملتا تھا اور شاید مجھے بھی۔ میں ٹی وی دیکھتے دیکھتے سو جاتا۔ ہر صبح اس کی آواز مجھے جگاتی تھی۔ وہ کچن میں ناشتہ بناتے ہوئے آواز دیتی تھی۔ کامران دودھ لے آؤ جا کر ۔ جلدی اٹھ جاؤ میں کروٹیں بدلتا رہتا لیکن وہ مسلسل آوازیں دیتی رہتی۔
جب مجھے محسوس ہو تا اب نہیں سونے دے گی میں اٹھتا بائیک پکڑتا اور دودھ لینے چلا جاتا۔ دروازے پر پہنچتا تو آواز دے کر کہتی رہی بھی لے آنا۔ میں مسکرا کر اس کی طرف دیکھتا میڈم مجھے پتا ہے ہر روز بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ دیکھی نظروں سے میری طرف دیکھتی آپ ماشاء اللہ بہت سیانے ہیں اس لیئے
روز یاد دلاتی ہوں۔
میرے درد میں وہ بھی تڑپتی تھی کہیں جو میں کمزور پڑ جاتا تو میری ہمت بن جاتی۔ مجھے ہر قدم پر تھام رکھا تھا اس نے۔ وہ بہت بھولی سی تھی۔ بالکل معصوم سی۔ میں کبھی کہہ دیتا کہ میں دوسری شادی کر لوں گا۔ وہ مجھ سے بات نہ کرتی تو بنا کچھ کہے خاموشی سے مجھے کھانا بھی دیتی۔ میں کچھ بھی بولوں بنا بات کیئے
ہر بات مان لیتی میں سمجھ جاتا تھا شادی والی بات پہ غصہ ہے۔
میں بھی جان بوجھ کر ستاتا اسے وہ رات کو میرے بازو پر سر رکھتی۔ پہلے کچھ لمحے خاموش رہتی پھر میری طرف دیکھتی۔ میرے دل پہ ہاتھ رکھتی اور اپنی کا پیتی آواز میں کہتی تھی۔ میں نے اپنا کامران کسی کو نہیں دینا کوئی دیکھے تو سہی میرے کامران کی طرف میں جان نا نکالوں گی اس کی۔ میں اس کی محبت کے
صدقے اتارتا تھا۔ میں قربان جاتا اس کی اس بے پناہ محبت پہ ۔
اس کی آنکھیں نم ہو جاتیں میں اس کے آنسو صاف کر کے مسکرانے لگتا۔ وہ ڈر جاتی تھی۔ جب میں کبھی اس سے دور ہونے کی بات کرتا تو وہ مجھے جیتنے کے لیے ہر حد پار کر دیتی۔ مجھے کہا کرتی تھی جب ہم امیر ہو جائیں گے پھر عمرہ کرنے چلیں گے۔ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکراتا اور کہتا دعا کیا کر واللہ تعالی ہمیں بھی توفیق دے ہم بھی عمرہ کریں۔
ہر نماز میں میرے لیئے دعا مانگا کرتی۔ کبھی کبھی تو رونے لگتی تھی۔ اے اللہ میرے کامران کے تمام درد مجھے دے دو۔ اور میرے سب سکھ کامران کو دے دو۔ وہ میرا چھوٹا سا گھر اس نے جنت بنایا ہوا تھا پھر میرے کاروبار میں اضافہ ہونے لگا۔ میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے لگاوہ بہت
خوش ہوتی تھی اللہ کا شکر ادا کرتی تھی۔
میری ہر کامیابی پر وہ اپنی سہیلی کو بلوا کر قرآن خوانی کرواتی تھی۔ میں اس کی دعاؤں سے ترقی کرنے لگا۔ پھر اچانک میں اس سے بے وفائی کرنے لگا۔ میرے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی میرے بہت قریب آگئی۔ وہ لڑ کی جادو بن کر میرے حواس پر قابو پاگئی۔ اس لڑکی کی ادائیں مجھے بھانے لگیں تھیں۔ وہ ماڈرن
پڑھی لکھی جینز پہنے والی لڑکی تھی۔
مجھے اس سے اور اسے مجھ سے پیار ہونے لگا۔ میں آمنہ کو دھو کہ دینے لگا تھا۔ آمنہ بیچاری جانتی بھی نہیں تھی اس کے ساتھ کیا
ہونے والا ہے میرا انتظار کرنا میرے ساتھ کھانا کھانا۔ میرے
لیئے دعائیں مانگنا۔ میرے بازو پر سونا وہ تو پیار میں ہر حد پار کر چکی تھی۔ لیکن میں مرد تھا نا میں کب قدر کر سکا اس کی۔ پھر
ایک دن آمنہ کو مجھ پہ شک ہو ہی گیا۔
وہ مجھ سے پوچھتی آپ کس سے دیر تک بات کرتے ہیں باہر کھڑے ہو کر ۔ لیکن میں بات کاٹ دیتا۔
ایک دن مجھے لگا وہ سو گئی ہے۔ میں اپنی گرل فرینڈ سے بات کر رہا تھا وہ میرے پیچھے کھڑی سب سن رہی تھی۔ میں اس لڑکی سے کورٹ میرج کر چکا تھا لیکن آمنہ کو نہیں بتایا تھا۔ میری
ساری باتیں اس نے سن لی۔
وہ مجھ سے پوچھتی آپ کس سے دیر تک بات کرتے ہیں باہر کھڑے ہو کر ۔ لیکن میں بات کاٹ دیتا۔
ایک دن مجھے لگا وہ سو گئی ہے۔ میں اپنی گرل فرینڈ سے بات کر رہا تھا وہ میرے پیچھے کھڑی سب سن رہی تھی۔ میں اس لڑکی سے کورٹ میرج کر چکا تھا لیکن آمنہ کو نہیں بتایا تھا۔ میری
ساری باتیں اس نے سن لی۔
میں بے چین ہو رہا تھا دوسری بیوی کے پاس جانے کے لئے۔ میں جانے لگا تو اس نے مجھے روکنا چاہا۔ مگر میں کہاں رکنے والا تھا۔ وہ چیخنے لگی اس نے مجھے غصے میں کہا مرد ہو تو طلاق دے دو مجھے۔ میں بھی غصے میں تھا۔ میں بار بار اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ کچھ سمجھ ہی نہیں رہی۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے تین بار طلاق دے دی۔
وہ خاموش ہو گئی اس کی چھینیں رک گئی تھیں۔ وہ زمین پر بیٹھ گئی، جیسے پاگل ہو گئی ہو۔ میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ مجھے احساس ہوا میں نے کیا بول دیا غصے میں۔ میں نے اس کا ہاتھ تھاما لیکن اس کا جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ آنسو بہہ رہے تھے میں نے اسے آواز دی آمنہ میری بات سنو۔ وہ دھیمی آواز میں بولی کامران سب ختم ہو گیا۔
کامران تم نے طلاق دے دی اپنی آمنہ کو اب تم میرے نہیں رہے۔ وہ پاگلوں کی طرح باتیں کرنے لگی اب کامران میرا نہیں رہا اب میں اس کے بازو پر سر نہیں رکھوں گی۔ اب میں کس کا انتظار کروں گی۔ اب تو دعا کا حق بھی چھین لیا میرا غصہ مجھے برباد کر گیا۔ ساری رات میں اسے سمجھاتا رہا لیکن وہ کہاں سن رہی
تھی۔ صبح اس نے اپنے والدین کو بلایا اور مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔
اس کے ماں باپ نے مجھے بہت برا بھلا بھی کہا۔ میں چپ چاپ سنتا رہا۔ میں بہت بڑی غلطی کر چکا تھا۔ کچھ دن بعد میں اپنی دوسری بیوی کو گھر لے آیا۔ میری دوسری بیوی آمنہ سے بہت الگ تھی۔ اُسے ہر وقت اپنی فکر رہتی کپڑے جوتی پارلر جانا کھانا باہر سے منگوانا۔ اگر میں کچھ کہتا تو مجھے بھی سنادیتی وہ مجھے کچھ اہمیت بھی نہ دیتی۔ بات بات پر جھگڑا ہونے لگا۔
ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ میری دوسری بیوی وہ دھوکے باز نکلی وہ مجھ سے تنگ آکر میر اسب کچھ لوٹ کر ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ میں اجڑ گیا۔ میں اب اپنی پہلی بیوی آمنہ کو واپس لانا چاہتا تھا۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتا تھا۔ ہر شش کی اسے واپس لانے کی لیکن ناممکن تھا اب۔ پھر دوسال بعد سنا اس کی شادی ہو گئی۔
ایک دور کے کزن سے اس کا نمبر لیا۔ کچھ دن پہلے میں نے واٹس ایپ پر دیکھا وہ آن لائن تھی۔ میں نے اپنا نام نمبر لکھا اور اپنا سب حال لکھ کر اسے بتایا۔ میرے آنسو جاری تھے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پھر اس کی جانب سے میسج آیا کامران اب میں جلدی سو جاتی ہوں وہ مجھے اپنے بازو پر سر رکھ کر نہیں سونے دیتے۔ وہ مجھ سے پیار سے بات نہیں کرتا۔
مجھے طعنہ دیتا ہے کہ تم میں کوئی عیب تھا اس لئے تو پہلے شوہر نے طلاق دی تھی۔ اس کے پانچ بچوں کی ملازمہ ہوں میں۔ بس مجھے نوکرانی بنا کر لایا ہے۔ کامران آپ کا شکریہ آپ کے اس احسان کا شکریہ۔ میری محبت کا یہ صلہ تو نہیں بنتا تھا۔ میری وفاداری کا بہت اچھا صلہ دیا کامران میرا یہ شوہر اپنے والدہ کے ساتھ عمرے پہ گیا تھا
مجھے گھر چھوڑ کر کے خیال رکھوں گھر کا تمہارے وعدوں کا شکریہ۔ اس سے پہلے میں کچھ کہتا اس نے مجھے بلاک کر دیا۔ میں چیخ چیخ کر رونے لگا۔ اس کو ہر رات آواز دیتا ہوں اس کے لیئے تڑپتا ہوں۔ اس کی تصویر سے باتیں کرتا ہوں۔ اکثر لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں مرد تھانا اتنی محبت کرنے والی ہمسفر کے ہوتے
ہوئے کسی اور کے خواب سجا بیٹھا تھا۔
میں زندہ تو ہوں مر جانے کے لیئے۔ ایسے تمام مردوں سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں خدا کہ لئے قدر کرو اپنی ہمسفر کی۔ کہ کہیں پھر میری طرح آنسو مقدر ہو جائیں۔ میری بے وفائی سے آمنہ کی زندگی جہنم بنادیں دعا کرنا میں بخشا جاؤں۔ خود کشی کو دل چاہتا ہے لیکن خدا سے ڈر لگتا ہے۔ میرے گھر میں ہر چیز بکھری پڑی
ہے اور دو کر میری نظر بہت کمزور ہو چکی ہے۔
ڈاکٹرز کہتے ہیں ایسے ہی رہے تو کچھ عرصے میں اندھے ہو جاؤ گے۔ مگر کیا کروں اب مجھے روئے بغیر سکون نہیں آتا۔۔۔ دوستو ایسی کوئی ایک آمنہ نہیں بلکہ دنیا میں بہت ساری ایسی لڑکیاں ہیں کہ جن کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات ہمیشہ یادر کھنا کہ ایسے مردوں کے ساتھ بھی پھر کامران کی
طرح ہی ہوتا ہے۔
کہ وہ اپنی زندگی بھی خراب کرتے ہیں اور اپنی آخرت بھی تباہ کر لیتے ہیں۔ خدارا قدر کریں اپنی ہمسفر کی میری ہاتھ جوڑ کر آپ سے یہ گزارش ہے۔