جوان بیوہ اور رومانٹک پروفیسر ایک جواں سالہ بیوہ اپنے بچے کی شکایت لے کر

ایک جواں سالہ بیوہ خاتون اپنے اکلوتے بچے کے حوالے سے سکول میں شکایات کا انبار لے کر تشریف لائیں ۔ اسکول سٹاف جب خاتون کو مطمئن نہیں کر پایا تو انہیں پرنسپل صاحب کے پاس بھیج دیا جو کہ ایک پروفیسر تھے ۔
خاتون اندر آئیں اور غصے میں شروع ہو گئیں خوب گرجی ، برسیں اور اپنے بچے کو سکول میں درپیش مسائل کا ۔ باکانہ اظہار کیا ۔ پروفیسر صاحب پر سکون بیٹھ کر خاتون کی گفتگو سنتے رہے اور ایک بار بھی قطع کلامی نہیں کی
دیکھئے خاتون مت سمجھئے گا کہ میں آپ کے حسن کے رعب میں آ گیا ہوں ، یا یہ کہ آپ کے چاند جیسے چہرے نے مجھ پر جادو کر دیا ہے ، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں آپ کی تجیل جیسی نشیلی آنکھوں میں کھو گیا ہوں ، اور نا ہی آپ کی ناگن جیسی زلفوں نے میرے دل کو ڈسا ہے
آپ یہ سوچے گا بھی مت کہ آپ کے گال کے کالے تل نے میری دل کے تار بجا دیئے ہیں ، اور آپ کی مترنم آواز نے میری دھڑکنیں تہہ و بالا کر دی ہیں ۔ میں غالب نہیں ہوں جو آپ کے شیر میں لبوں سے گالیاں کھا کر بد مزہ نہ ہوں اور نہ ہی میں میر ہوں کہ آپ کے لیوں کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دے دوں ۔
نہ ہی میں نے آپ کی تمام تر گفتگو اس نیت سے سنی کہ آپ کو بولتے ہوئے سنتا رہوں ، اور کچھ دیر آپ کو اپنے سامنے بٹھا کر تکتا رہوں میرا یہ مذاق نہیں ہےکہ میں کسی خاتون کو متاثر کرنے کی کوشش کروں میں اپنے سٹاف سے پوچھوں گا کہ ایک حسین و جمیل خاتون کو برہم کیوں کیا گیا ؟
خاتون جو اتنی دیر ہے پروفیسر صاحب کو غور سے سن رہی خاموشی سے اٹھی اور باہر چلی گئیں ۔ تھی ، آج وہ خاتون پروفیسر صاحب کی بیوی ہیں اور اسکول کی وائس پر سپل ہیں ۔ بندہ ایویں ہی پروفیسر نہیں بن جاتا ۔