دلچسپ و عجیب

میں مردوں کو عسل دیتی تھی ایک جوان عورت کے جنازے کو غسل دینے گئی تو وہ مجھے زندہ لگی ، لیکن اس کی ساس نے

میر انام آمنہ ہے میں ایک ایسے گھرانے میں پید اہوئی جہاں عورتوں کانسل در نسل پیشہ یہی تھا کہ وہ مر جانے والی خواتین کو

غسل دیتیں اور انہیں کفن و غیر ہ پہنا تیں ہمیں گاؤں میں تو کوئی بھی پسند نہیں کر تا تھا لیکن شہر میں ہماری اچھی خاصی کمائی ہو جاتی کیونکہ یہاں پر ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی عورت مر جاتی اور لوگ ہمیں جانتے پہچانتےتھے اس لیے ہمیں اپنے گھر لے جاتے تین چار ہزار روپے ہمارے ہاتھ پر رکھتے اور ہمیں غسل اور کفن کے انتظامات تھا دیتے ہم لوگوں کو اب اس کام کی عادت پڑ چکی تھی ب اس لیے کسی قسم کا کوئی ڈر یا وحشت نہیں ہوتی تھی

ایک دن شام کے چار بجے میں اپنے کام سے فارغ ہو کر بیٹھی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک پچاس سالہ عورت کھڑی تھی جس کا قد اچھاخاصا تھا اور صحت بھی قابل رشک تھیکہنے لگی مجھے تم سے کوئی کام ہے جلدی میرے گھر چلو میں حیران ہوئی کہ اتنی عجلت میں کسی کو مجھ سے کیا کام ہو سکتا ہے میں نے چادر پہنی اور اس عورت کے ساتھ چل پڑی وہ بہت عجلت میں لگ رہی تھی ایک بڑےسے بنگلے کے سامنے جاکر وہ رک گئی وہ پیدل ہی آئی تھی حالا نکہ اس کے گھر کے باہر دو گاڑیاں کھڑی تھیں مجھے اس بات پر سخت حیرت ہوئی وہ مجھے بڑی راز داری سے اندر لے کر گئی بولی دیکھو آج دو پہر کو ہی میری بہوفوت ہو گئی ہے میں اس کے ماں باپ کو نہیں جانتی میر ابیٹا ایک لاوارث لڑکی کو بیاہ کر لے آیا تھا تب اس سے بہت محبت بھی کر تا تھا مگر لر میں یہ بیچاری تو اپنی اولاد کی تکلیف کو سہ کیا ؟ نہیں سکی یہ حاملہ ہے مگر اس کی جان تکلیف ۔سے چلی گئی ہے حاملہ عورت کو زیادہ دیر گھر میں رکھنا اچھی بات نہیں ہے تم اسے جلدی ے سے غسل دے دو تاکہ میں اسے مختصرا رسومات کے بعد دفن کر دوں مجھے تو اس لاش سے بھی ڈر لگ رہا ہے تم نے سنا ہےحاملہ عور تیں جب مر جاتیں ہیں تو وہ ڈائن بن جاتی ہیں اس کی عورت کی تو ہمات ں سن کر میں تو حیران رہ گئی

حالانکہ ایسی کوئی بھی بات سچ نہیں ہوتی یہ لوگوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں میں نے ایک نظر اس عورت کےے کی طرف دیکھا جہاں ؟ کسی قسم کے کوئی تاثرات نہیں تھے میں حیران تھی کہ اپنی عورت کے مرنے پر کوئی عورت اتنا پر ۔ سکون کیسے رہ سکتی ہے وہ بھی جب اس کے پیٹ میں اپنا پو تاہو خیر میں نے غسل کیتیاریاں شروع کر دیں تختے پر لاش کو لٹایا گیا یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ وہ ایک جوان اور خوبصورت عورت تھی اتنی بھر پور جوانی میں مر جانا اپنے آپ میں ایک بہت بڑ اسانحہ ہے غسل دیتے وقت مجھے اس عورت کےہاتھوں میں ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی مجھے شک ساہواتو میں نے اس کی ناک کے آگے ہاتھ رکھ کر دیکھا اس کی سانس اور نبض چیک کی تو وہاں سے اشارہ مل گیا کہ وہ عورت مری نہیں ہے بلکہ سکتے کی حالت میں ہے جبانسان کی ظاہری حالت ایسی ہوتی ہے جیسے کہ ۔ مر دے کی لیکن اصل میں وہ زندہ ہو تاہے میں نے جب یہ سب دیکھا تو میں الجھن کا شکار ہو گئی عسل دیتے دیتے رک کر میں نے اس عورت کی ساس کو بلا یا بات سنئے یہ تو مجھےزند ہ لگ رہی ہے آپ کسی ڈاکٹر کو بلائیں ہو سکتا ہے کہ ابھی ان کی کچھ زندگی باقی ہو عورت میری بات سن کر خاموش ہو گئی نہیں تمہیں مجھے مشورہ دینے کی ضرورت نہیں تمہیں جو کہا ہے وہی کر واس کی بات سن کرمیں سمجھ گئی کہ یہ کوئی سوچی سمجھی سازش ہے ور نہ جو ان عورت یوں موت کے منہ میں نہیں جاسکتی میں نے اسے غسل دینے اور کفن پہنانے سے انکار کر دیا تب اس کی ساس جلدی سے دوسرے کمرے میں گئی لال رنگکی ایک تھی لی لائی جس میں پانچ پانچ ہزار کے – نوٹ تھے اس وقت مجھے پیوں کی شدید ضرورت تھی پھر پیوں سے تو کوئی بھی بک سکتا ہے میرا ایمان بھی ڈگمگا گیا میں اس عورت کی بات سمجھ گئی میں نے وہ پیسے اپنی اجیب میں رکھ لیے یہ پیسے میں اپنے داماد کو دینا ۔ چاہتی تھی جو کب سے مجھ سے موٹر سائیکل مانگ رہا تھا اسی وجہ سے میری بیٹی کے گھر میں بھی سکون نہ تھا

پیسے لے کر مجھے اطمینان ہو گیا کہ میں اپنی بیٹی کو پیسے دے دوں گی تو اسکامسئلہ حل ہو جاۓ گا میں دوبارہ اس عورت کو غسل دینے لگی مگر میر ادل بو حجل سا ہو رہا تھا میں نے اسے غسل دینے کے بعد کفن بنا دیامگر میر ادل زور ور سے دھڑک رہا تھا میں زیادہ دیر وہاں نہیں رکی اور گھر سے نکل آئیاس گھر کے قریب ایک قبرستان تھاجو ان لوگوں کا خاندانی قبرستان لگتا تھا میں اسے وحشت سے دیکھتی گھر آگئی مگر مجھے بستر پر لیے نیند نہیں آرہی تھی تھوڑی دیر کے بعد ، میری بیٹی آئی میں نے اسے بو مجھل دل سےیہ خوشخبری سنائی کہا کہ تمہارے پچاس ہزار روپے کا بند وبست ہو گیا ہے اب تم اپنے شوہر کو دے دینا تا کہ وہ موٹر سائیکل لے لے اور تمہاری بھی زندگی آسان ہو وہ بولی اماں جی آپ اتنے پیسے کہاں سے

لائی ہیں میں نے اسے حقیقت نہیں بتائی وہ خوشی خوشی پیسے لے کر چلی گئی لیکن پھر شام کو جب میراشوہر آیا تو میں اس سے یہ بات چھپا نہیں سکی ویسے بھی وہ بھی میری طرح ضمیر فروش اور لالچی تھااسے ان باتوں سےکوئی فرق نہیں پڑتا تھا میں نے اسے جب میں بات بتائی تو باتوں باتوں میں میں نے اس عورت کے زیورات کا ذکر بھی کر دیا کہ عورت نے اچھی خاصی سونے کی انگوٹھیاں پہنی ہوئی تھیں اس کی ساس انہیں نکال نہیںپائی اور اس کے ساتھ ہی کفن بنانے کا کہا تھا عورت نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو دکھ نہیں دینا چاہتی کہ اس کی بیوی مر گئی ہے اس لیے میں اسے کہوں گی کہ تمہاری بیوی بھاگ گئی ہے میں اسے دفناناچاہتی ہوں تاکہ میرےبیٹے کے دل میں غم کی جگہ غصہ لے لے اور وہ دوسری شادی کرنے کے لیے رضامند ہو جاۓ وہ اپنے دل کو تسلیاں دے رہی تھی کہ اس عورت نے اپنے بیٹے کی بھلائی کے لیے یہ سب کیا ظاہر ہے وہ اپنے بیٹے کو غم میں مبتلانہیں کر نا چاہتی ہو گی

کون ماں چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا ساری عورت کے غم میں بیٹھار ہے ۔ خیر اس سب کے بعد بھی مجھے اطمینان نہیں ہور ہاتھا لیکن میرے شوہر نے ایک نئی کڑی ملا دی کہنے لگا اب وہ زیور تو ہمیں نکالنے ہیپڑیں گے ور نہ اس مر دے کو بھی عذاب ہو گاویے بھی اس سب میں ہمارا کوئی قصور نہیں اگر ایک جگہ چیز ضائع ہو رہی ہے ہمارا حق ہے کہ ہم اسے استعمال کر میں ہم اس سے اپنی بیٹیوں کی شادی کریں گے تمہیںسمجھ کیوں نہیں آرہی اپنے شوہر کی باتیں سن کر میر ادل عجیب ساہو گیا میں یہ سب کر نا نہیں چاہتی تھی مگر اس نے مجھے راضی کر لیا بولا تھوڑی دیر کا تو کام ہے چلو ہم قبرستان چلتے ہیں اس عورت کی قبر کھو دیں گے اوروہاں سے جو بھی دولت ملے گی اس سے کوئی کام کاروبار کر لیں گے پھر ایسی حرکت کا سوچیں گے بھی نہیں میں اپنے شوہر کی باتوں میں آگئی رات کے دو بجے ہم اپنے گھر سے نکلے ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی ہتھیار یا آلہنہیں تھا جس سے ہم قبر کھو د سکتے ہمیں ا صرف یہ پتہ کر ناتھا کہ تازہ قبر کون سی ہو گی جس سے ہم مٹی ہٹا کر اس عورت تک پہنچ سکیں ہمیں گور کن کی مدد بھی طلب کر نا تھی ہم لوگ جب قبرستان پہنچے خدا کی کر نی کہگورکن اس وقت جاگ رہا تھا ہم نے اسے ۔ ساری حقیقت سے آگاہ نہیں کیا کہا کہ ہم ایک عمل کرنا چاہتے ہیں جو کہ بہت ضروری ہے اسے کچھ باتوں میں لگا کر ہم لوگ اس قبر کی جانب بڑھے جو آج شام ہی بنائی گئی تھیگورکن نے اس قبر کی نشاند ہی کر دی تھی

ویسے بھی وہ کچھ خاص ایماندار نہیں لگتا تھا اس کے چہرے پر بھی عجیب سی نحوست تھی غنیمت تو یہی سمجھا کہ اس نے ہم سے کوئی حصہ وغیرہ نہیں مانگانہ ہی کوئی دوسریبات پوچھی شاید وہ نیند میں لگ رہاتھا ٹارچ کی روشنی میں جب ہم لوگ اس قبر تک پہنچے تو وہ بالکل تازہ تھی اس پر نرم سی مٹی تھی ہم نے اسے ہٹانا شروع کیا تو وہ آسانی سے ہٹ گئی لیکنجب ہم قبر کی سلیں ہٹانے لگے تو ہمیں قبر سے ہلکی ہلکی آواز میں سنائی دینے لگیں میں نے اپنے شوہر کو منع بھی کیا کہ مجھے یہ معاملہ کوئی اور لگتا ہے ہمیں یہیں پر رک جانا چاہئے مگر وہ نہیں مانا مگر جب یوری سل ہٹائی تو اسعورت نے جو اس قبر کے اندر دفن تھی کفن بچاڑ ر اٹھی اور ایک زور دار چیخ ماری یہ دیکھ کر ہم گھبر آگئے میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر دیکھاوہ عورت زندہ تھی تکلیف سے کر اور ہی تھی اس عورت کو دیکھ کر ہم دونوں کیآنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں میں نے اپنے شوہر کو پیچھے ہٹنے کا کہا اس عورت پر چادر ڈالی اور اسے ساری حقیقت سے آگاہ کیا مگر ظاہر ہے اس عورت کو یہی بتایا کہ اس کی ساس نے اسے زندہ مار دیا تھا میں اسے بچانےآئی ہوں وہ لڑ کی زار و قطار رونے لگی بولی خد اکے لیے مجھے گھر لے چلومیری ساس نے تم سے جھوٹ بولا ہے میں مری نہیں تھی اس نے تو مجھے ایک دوا دی تھی کہا تھا کہ اس سے تمہیں آرام آجاۓ گا میں نہیں جانتی تھی کہ ،وہ کیا سوچ رہی ہے اس کی دادر سی سن کر ۔

میرے اندر سوئی ہوئی انسانیت جاگ گئی میں اور میر اشوہر اسے گھر لے آۓ اگر چہ میرا دل تو اس کی طرف سے صاف تھا مگر شوہر نے اس کے دوسرے کمرے میں جاتے ہیمجھے اکیلے میں بلا کر کہا سنو یہ تو سارا کھیل الٹ ہو گیا ہم اس عورت سے فائدہ اٹھانے گئے تھے مگر یہ تو ہمارے گلے ہی پڑ گئی ہے ہاں تو کیا ہوا ہمیں بھی تھوڑی انسانیت دکھانی : چاہئے میں نے اپنے شوہر کو ڈانٹ دیا اگر تمنہیں کر سکتے میں اس عورت کی دیکھ بھال کروں گی میں جانتی ہوں انسانیت کیا چیز ہوتی ہے میری بات پر وہ غصے ہو کر گھر سے چلا گیا میں اس لڑکی کے پاس گئی اسے کھاناو غیر ہ دیا اور اسے ساری بات پوچھی کہ آخر ایسا کیا ہواکہ اس کی ساس نے اس کو دوادے کر قبر میں ں دفنانے کی اتنی جلدی کی تب اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک امیر گھرانے کی بہو ہے اس کے ماں باپ بچپن میں فوت ہو گئے تھے وہ اپنے چچا کے پاس رہتی تھی بوڑھی عورت جس کاکہ اس کی ساس نے اس کو دوادے کر قبر میں ں دفنانے کی اتنی جلدی کی تب اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک امیر گھرانے کی بہو ہے اس کے ماں باپ بچپن میں فوت ہو گئے تھے وہ اپنے چچا کے پاس رہتی تھی بوڑھی عورت جس کانام شکیلہ تھا اس نے اپنے بیٹے کے لیے اس لڑ کی یعنی مار یہ کارشتہ مانگا تھا شکیلہ کے بیٹے کو مار یہ بہت پسند آگئی تھی جب مار یہ بیاہ کر شکیلہ کے گھر گئی تو شکیلہ نے پہلے دن سے ہی واضح کر دیا

کہ وہ صرف اور صرف بیٹے پیدا ’کروانا چاہتی ہے اسے پوتے چاہیئں اور سے اپنی بہو سے کچھ نہیں چاہیئے مگر یہ بات مار یہ کی سمجھ میں نہ آئی کہ وہ بیٹا پیدا کر نے پر قادر نہیں تھی اس کے جب پہلی بیٹی ہوئی تو ساس نے برداشت کر لیا مگر دوسری بار جب وہامید سے ہوئی تو ساس نے پہلے دن سے ہی گنا شروع کر دیا تیسرے چوتھے مہینے جا کر ا س کا الٹراساؤنڈ کروایا اور ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس بچے کی جنس کیا ہے ڈاکٹر نے جو بتایا کہ پید اہونے والا بچہ لڑکی ہو گی تو ساس نےطرح طرح کے حیلے بہانے کر کے اپنی بہو کا ۔ ، بچہ ضائع کروانے کی بھر پور کوشش کی مگر ایسا نہیں ہو سکا اور پھر اس نے اپنا آخری وار اس طرح چلا کہ اپنی بہو کو نیند کی گولیاں اتنی مقدار میں دیں کہ وہ کبھی نہ اٹھ سکے مار یہچھٹرانے کی کوشش کی ہے کیونکہ اس کا بیٹا اس سے بے انتہا پیار کر تا تھا طلاق دینے یا چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تا تھا سو شکیلہ بیگم کے من میں یہی سازش سو مجھی اور اس نے اپنی بہو کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کرڈالا مار میں رورہی تھی میں نے کہا بیٹی تم فکر نہیں کر واگر تم اپنے گھر جانا چاہتی ہو تو ہم تمہیں پہنچا آئیں گے تم اپنے شوہر ک ساتھ ایک الگ زندگی شروع کر ناتب وہ بولی اب میں اپنے گھر نہیں جاسکتی مجھے اس گھر میںاپنی جان کا خطرہ ہے اپنا بچہ پید اہونے تک میں کسی محفوظ جگہ رہنا چاہتی ہوں اگر تم مجھے اپنے گھر میں پناہ دے دو تو تمہاری مہربانی ہو گی ورنہ میں کہیں اور چلی جاؤں گی ماریہ کی باتیں سن کر میں بھی جذباتی ہو گئی تھوڑی دیرکے بعد ریاض منہ بناۓ گھر آگیارات کا فی زیادہ ہو چکی تھی

میں نے اس لڑکی کو اپنا خیال رکھنے کا کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی ریاض ابھی بھی ناراض بیٹھا تھا اسے میری یہ حرکت اچھی نہیں لگی تھی مگر اس نے تو مجھے ڈراناشروع کر دیا بولا دیکھ تو بھول رہی ہے اگر یہ عورت زندہ بچ گئی تو یہ ہم سب کو بھی پھنسوا دے گی تو نے اس کی ساس سے پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم لی تھی اگر اس نے اپنی ساس پر الزام لگایا تو وہ یہ بات بھی اگل دے ںگی کس تو کس طرح اسے یہاں تک لائی ہے بہتر یہی ہے کہ یہ لڑ کی جہاں تھی وہاں چلی جاۓ ویسے بھی لوگ تو جان ہی گئے ہوں گے کہ یہ گھر سے بھاگ گئی ہے یا پھر اس کی زندگی ختم ہو گئی ہے تو پھر کیا ضرورت ہےہمیں اس سب میں پڑنے کی بہتر ہے کہ یہ اپنے ٹھکانے پر واپس چلی جاۓ ریاض کی باتیں سن کر میں کانپ کر رہ گئی سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ ریاض اتنا سنگدل ہو سکتا ہے میں نے ریاض کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جو تم ںسوچ رہے ہو وہ انسانیت سوز سلوک ہے ایسا سی بھی انسان کے ساتھ نہیں کر نا چاہیئے خیر ہم بحث کرتے کرتے سو گئے صبح جب میں اٹھی تو گھر کی حالت بدلی ہوئی تھی گھر میں نہ وہ لڑ کی تھی اور نہ ہی میر اشوہر ریاض موجودتھامیر ادل کانپ کر رہ گیا خد اجانے کیا ہواہو گامیری آنکھ کیوں نہیں کھلی میں سوچنے لگی کہیں اس نے مجھے کچھ سو نگھا تو نہیں دیا تھا میں اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑ نے لگی میں نے ۔ دیکھا پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا میں نےجلدی سے باہر کا رخ کیا اسی جگہ پہنچی جہاں وہ قبر تھی جاکر دیکھا تو قبر جوں کی توں موجود تھی ریاض کا کچھ اتا پتا نہیں تھا شام کو ریاض خو د ہی گھر آگیا میں اس پر برس پڑی ریاض تم نے یہ کیا کیا وہ عورت کہاں گئی تم نے اسےکہاں چھپایا ہے مار تو نہیں دیا نہیں میں کیوں اسے ماروں گا میں صبح تہجد کے وقت اٹھاتو وہ ٹھنڈی پڑی ہوئی تھی اس کا جسم اکڑ ں رہا تھا میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ ہم پر کوئی مصیبت آۓ میں اس کی لاش کو ٹھکانے ںلگا آیا ہوں تم مجھتی کیوں نہیں ہوایی لاش کو گھر میں رکھنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہوتی

ریاض کی باتیں سن کر میر اتو سر چکر ا گیا خد اجانے اس نے اس لڑکی کو کہاں بچین کا ہو گا میں نے اسے لاکھ پوچھنے کی کوشش کیمگر اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیامایوس ہو کر میں بیٹھ گئی اپنے اللہ سے معافی مانگنے لگی کہ مجھ سے غلطی ہو گئی اب میں سوچ رہی تھی کہ اس غلطی کا ازالہ کیسے کر وں مگر اس کی نوبت نہیں آئی مکافات عمل نے ہمیں ،ہمارے کیے کی سزا دے دی شام کو میری بیٹی کے گھر سے خبر آئی کہ اس کا شوہر ایک کار ایکسیڈنٹ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے میر ادامادمنیر کراۓ کی گاڑی چلا تا تھا جس کی وجہ سے اس کی آمد نی آتی تھی مگر وہ اپنی موٹرسائیکل یا کار لینا چاہتا تھا تا کہ وہ اپنی آمدن کو مستحکم کر سکے میں نے اپنی بیٹی کو پچاس ہزار روپے بھی اس لیے دیے تھے لیکن اب میرا داماد ہی اس دنیا میں نہ رہا تو ان پیسوں کامیری بیٹی نے کیا کر نا تھامیری بیٹی کی بیوگی نےمیرے دل کو دہلا کر رکھ دیا مگر میر اشو ہر اس سب کے باوجود بھی باز نہیں آیا اسے تو گویا ایک مشغلہ مل گیا تھالو گوں کی بنی بنائی دولت اپنے ہاتھوں سے لوٹنے کا اسی وجہ سے میں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا میں اپنے اللہ کی راہمعافی مانگتی ہوں کہ وہ میرے اس گناہ کو بخش دے ورنہ میں جانتی ہوں قیامت کا عذاب بڑا سخت ہے میں نے کئی عورتوں کو غسل دیئے ہیں کئی عورتوں کا کفن تیار کیا ہے میں جانتی ا ہوں اور اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتی بھیے ہوں خد امیرے اس گناہ کو معاف کر دے اس قبر پر بیٹھ کر اس عورت سے معافی مانگتی ہوں مگر میں نہیں جانتی میر ارب مجھے معاف کرے گا یا نہیں

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button