کہانیاں

میں راولپنڈی سے اٹھ کر لاہور آئی اور بہت جلد یہاں بازار حسن میں میرا نام چلنےلگا

میرا نام آسیہ ہے میرا تعلق راولپنڈی کے نواح سے تھا میں اس وقت لاہور میں مقیم ہوں اور بازار من کی معروف ترین لڑکی ہوں میں تیم بچی تھی مجھے یہاں تک میرا شوق اور تربیت نہیں میری مجبوری لے کر آئی ہے میرا بھائی جو جال نامی کسی وڈیرے چوہدری کے ڈیرے پر کام کرتا تھا کافی عرصہ سے چوہدری جمال نے میرے بھائی کو تنخواہ نہیں دی تھی

جب تقریباً پانچ ماہ کی تنخواہ چوہدری نے نہ دی تو میرے بھائی نے چوہدری کا کام کرنا چھوڑ دیا اور مزدوری کرنے لگا دوسری طرف ظالم چوہدری میرے بھائی کو مفت میں کام کرنے پر مجبور کر تا رہا جبکہ میرا بھائی مسلسل انکار کرتا رہا چوہدری جلال نے میرے بھائی کے انکار کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور مختلف طریقوں میں مجھے اور میرے بھائی کو تنگ کر کے مجبور کرنے لگا کہ میرا بھائی اس کے ڈیرے پر کام کر تا رہے مگر جب کسی صورت میں چوہدری جلال میرے بھائی کو اپنے ڈیرے پر کام کرنے کے لئے آمادہ نہ کر سکا تو اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے میرے بھائی کو منشیات کے کیس میں پکڑوا دیا پولیس والوں نے نہ صرف میرے بھائی سے منشیات بر آمد کر لیں بلکہ مار مار اس سے اقبال جرم بھی کروا لیا جب میں اپنے بھائی سے ملنے گئی تو میرا بھائی پولیس تشدد کی وجہ سے نیم بیہوشی کی حالت میں تھا

آنکھیں کھول کر سے لیم بیہوشی کی حالت میں تھا آنکھیں کھول کر مجھے نہیں دیکھ پایا فقط میری آواز پہچان کر میرے بھائی نے اتنا کہا کہ ” بہنا دوبارہ اس جگہ منہ آنا یہاں تک اگر میں مر جاؤں تو میری لاش لینے بھی نہ آنا میں زیادہ دیر اپنی بھائی کو اس حالت میں نہ دیکھ سکی اور آنسو بہاتے ہوئے باہر آ گئی اس رات پہلی بار مجھے پتہ چلا دلال صرف کوٹھے پر نہیں ہوتے بلکہ ہر جگہ ہوتے ہیں کیونکہ اس رات پولیس کا ایک دلال میرے پاس آیا اور مجھ سے کچھ رقم کی ڈیانڈ کی جس کے عوض نہ صرف وہ میرے بھائی پر تشدد کرنا بند کر دیتے بلکہ کیس بھی ہلکا ڈالتے تا کہ جلد ضمانت ہو سکے مگر میں لاکھ کوشش کر کے بھی وہ رقم نہ جمع کر سکی اور پولیس کے اس دلال کو اپنی مجبوری بتائی اسے یہ بھی سمجھایا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے

” رشوت دینے والا اور رشوت  لینے والا دونوں جہنمی ہیں ” مگر شاید ان لوگوں کو قبر اور خدا یاد نہیں تھا لہذا دوسرے دن مجھے میرے بھائی کا پیغام ملا کہ مجھے آکر ملو جب میں بھائی سے ملنے گئی تو میرے بھائی کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور میرے بھائی نے مجھے واسطہ دے کر کہا تھا کسی طرح مجھے ان ظالموں سے بچاؤ اپنے بھائی کی حالت دیکھنے کے بعد میں اس وقت پولیس کے اس دلال کے پاس پہنچی تھی اور اسے پیوں کے عوض اپنا جسم پیش کیا تھا میں نے پہلی بار اپنی عزت اپنی عزت کے محافظ کی جان بچانے کے لئے لٹوا دی تھی میری عزت لوٹ لینے کے عوض اس دلال کے کہنے پر پولیس والوں کی طرف سے میرے بھائی پر ہونے والا جسمانی تشدد بند کر دیا گیا اور میرے بھائی کو جیل بھیج دیا گیا پیچو کیں کی پیروی کرنے کے لئے لفظ میں تھی

اور میرے پاس کھانے تک کے پیسے نہ تھے بس کا کرایہ دینے سے لے کر جیل حکام کی رشوت ، وکیلوں کی میں اور باقی اطرابات کے لیے مجھے روز کسی نہ کسی کے بستر کی زینت بنا پڑا میں اپنی حقیقی زندگی میں ایسے ایسے لوگوں کے اصل اور مکروہ چہرے دیکھے ہیں کہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی میں راولپنڈی سے اٹھ کر لاہور آ بی اور بہت جلد یہاں بازار حسن میں میرا نام چلنے لگا میری پہنچ بڑھتی گئی میرا جسم کھنے کے لئے بھی مجھ سے رشوت طلب کی ان ہی کے دلالوں نے مجھے ایک بار پھر کوٹھے پر بٹھا دیا اور اس کے بعد کبھی میں کوٹھے سے نہیں اٹھ سکی میں نے خود کو اتنا مضبوط کیا ہے کہ یہ شریف شرفاء کی بہنوں بیٹیوں پر سرعام تشدد کرنے والوں کی جرات نہ پڑے کہ مجھ جیسی طوائف کی دہلیز پار کر سکیں آج جب بھی بازار حسن میں کسی بھی قسم کا چاپہ پڑتا ہے سب سے محفوظ پنا گاہ میرا کوٹھا ہوتا  ہے ۔۔۔۔ جس دن کی میں دوبارہ گناہ کی اس دنیا میں آکر بیٹھی ہوں اس دن سے لے کر آج تک میں نے کبھی کسی بے سہارا یا مجبور عورت کو اس راہ پر نہیں چلنے دیا میں نے دل میں عہد کیا ہوا ہے کہ جب تک میرا جسم بکنے صلاحیت رکھے گا تب تک میں کسی بہن کو ، بیٹی کو رشوت دینے کی خاطر جم نہیں بیچنے دوں گی ۔۔۔۔

آج پاکستان میں اکثریت خوف خدا سے عاری اور تنہائی میں انتہائی گھٹیا اور قیح لوگوں کی ہے مجھے میرے علاقے کے ایسے ایسے لوگوں نے نوچا ہے جن کی بیٹیاں میری ہم عمر تھیں جو لوگ محفل میں بیٹھے ہوتے تھے لگتا تھا یہ لوگ زمانے کے سب سے بڑے ولی ہیں میں مجبوری کے دنوں میں ایسے لوگوں کے ہاتھوں بھی لٹی ہوں جو لوگ کئی بار اپنے منہ سے مجھے بیٹی کہہ کر پکار چکے تھے میں اپنی کہانی کے آخر میں نصیحت کرنا چاہوں گی کہ بھلے ہی آپ رشوت لینا نہ چھوڑو آپ جانتے بوجھتے بھی کھل کر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکم عدولی کرتے ہیں تو کرو مگر مکافات عمل کے ڈر سے فظ اپنی رشوت وصول کرنے کی خاطر کسی کی بیٹی کو جسم بیچنے پر مجبور نہ کر رر

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button