میں اور میری بہن۔۔۔۔ لڑکی نے سب کو حیران کر دیا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایک ملازم شکیل انجم کام کرتے ہوئے بے ہوش ہو گیا تھا سر ۔‘‘ فیکٹری کے مالک فرہاد ضیا کو ان کے مینیجر ذکوان صدیقی نے اطلاع دی ۔‘‘اوہ ! اوہ ! ‘‘ کب ہوا ایسا‘‘ ؟ فرہاد ضیا نے پریشانی سے پوچھا۔ ‘‘اب سے تقریباََ دو گھنٹے پہلے سر‘‘‘‘تو اب کہاں ہے وہ؟انھوں نے بے قراری سے پوچھا‘‘اسے فوری ہسپتال بھیج دیا گیا تھا، ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے یعنی ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔
اس کے گھر والوں کو میں نے فون کر دیا ہے۔ وہ بہت غریب ہے ناں سر،اللہ اپنا رحم فرمائے،اس کی تین بیٹیاں ہیں،بیٹا کوئی نہیں ہے ، شکیل اکیلا کمانے والا ہے۔ ابھی کل ہی تو وہ مجھ سے اپنی پریشانی کا ذکر کر رہا تھا۔‘‘ ‘‘کیا پریشانی تھی اسے ؟‘‘ انکی بے قراری میں اضافہ ہو نے لگا۔ ‘‘ سر وہ لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں نا،مالک مکان اچانک مکان خالی کرنے کا کہہ گیا ہے کہ اسے اشد ضرورت ہے ۔ ادھر شکیل انجم کی نظر میں کوئی کرائے کا مکان بھی نہیں ۔ وہ بہت ڈر رہا ہے کہ اگر اس نے سب کو گھر سے باہر نکال کھڑا کیا تو وہ کہاں جائیں گے ۔ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی نہیں ہے ۔ شاید یہی پریشانی دل کے دورے کا سبب بنی ہو۔‘‘مینیجر ذکوان صدیقی اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔ ‘‘تم نے مجھے پہلےکیوں نہیں بتایا ذکوان؟‘‘ فرہاد ضیا افسردگی سے بولے ۔ ‘‘ آپ مصروف تھے سر ،میں مناسب وقت ڈھونڈتا رہا،پھر ایسا نہ ہو سکا۔تو میں نے سوچا، کل ذکر کر دونگا ۔ آپ نے میرے ذمے یہ کام سونپا ہوا ہے سر کہ ہر ملازم کی ضرورت کا خیال رکھوں ۔ان کے حالات کی خبر گیری کرتا رہوں ۔
اس میں مجھ سے کوتاہی ہوئی، میں شرمندہ ہوں سر۔‘‘ ‘خیر چلو میرے ساتھ۔‘ یہ کہہ کر وہ فوراَ ہی کرسی سے اٹھ کر گاڑی کی طرف بڑھے ذکوان صدیقی بھی تیز تیز قدم بڑھاتے ان کے پیچھے چل دیئے ہسپتال پہنچ کر وہ شکیل سے ملے جسے ہوش میں آچکا تھا۔ ‘‘اب کیسی طبیعت ہے آپکی ؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔ ‘‘جی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہا ہوں سر‘‘ ‘‘آپ بے فکر رہیں ، مکان کا انتظام ہو گیا ہے،آج ہی آپ اس مکان مین شفٹ ہو رہے ہیں۔ آپ کا سارا سامان وغیرہ وہاں پہنچ جائے گا اور آپ کو بھی انشاللہ جلد چھٹی مل جائے گی۔اور گھر والوں کی طرف سے بے فکر رہیئے گا، انکی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘ ‘‘مم!میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں سر؟‘‘ ‘‘اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے،آپ بس مطمئن رہیں ‘‘یہ کہہ کر انھوں نے ایک ملازم کو اس کے پاس چھوڑا اور وہ خود فیکٹری کی طرف روانہ ہو گئے۔شام تک شکیل انجم کا سارا سامان اور گھر والے نئے مکان میں شفٹ ہو چکے تھے۔ یہ مکان ابھی کچھ دن پہلے ہی انھوں نے کرائے پر دینے کے غرض سے خریدا تھا ۔اسکے علاوہ ان کے اور بھی کئی مکان تھے جو سب کرائے پر چڑھے ہوئے تھے،بہرحال اس مکان میں اب شکیل انجم کے گھر والے شفٹ ہو گئے تھے۔ فرہاد ضیا نے 20 ہزار روپے بھی انھیں بھیج دیئے تھے تاکہ ضرورت کے وقت کام آجائیں ، اور شکیل انجم کو مکمل آرام کا مشورہ بھی دیا تھا،ساتھ ہی یہ اطمینان بھی کرادیا تھا کہ تنخواہ بھی وقت سے پہلے گھر پہنچ جائے گی۔ ادھر انکے مینیجر ذکوان انکی اس بے چینی کو بہت زیادہ محسوس کر رہا تھا۔
وہ فرہاد ضیا کی خدا ترسی اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے اچھی طرح واقف تھے مگر شکیل انجم کے معاملے میں انکی غیر معمولی دلچسپی انکی سمجھ سے بالاتر تھی۔ ‘‘فیکٹری کے مالک بہت نیک اور سخی آدمی ہیں۔اللہ پاک انکی زندگی خوشیوں سے بھر دے۔انھوں نے سب کچھ خود ہی کرایا۔مکان بھی دیا اور دوسری جگہ شفٹ ہونے میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ ہونے دی اور پھر 20 ہزار روپے اور بہت سارا سامان بھی گھر بھیجا ہے۔دنیا ابھی نیک لوگوں سے خالی نہیں ہے‘‘شکیل انجم کی بیوی ہسپتال میں کہے شکیل انجم سے کہہ رہی تھی۔ شکیل انجم کہیں دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ ‘‘تم ! تم جانتی ہو وہ کون ہے‘‘ ‘‘کون ہیں‘‘ ‘‘وہ! وہ میرے چچا کا بیٹا ہے،میری چچی تو فرہاد انجم کے بچپن میں ہی فوت ہوگئی تھیں۔میرے چچا فوت ہوئے تو میرے بابا نے اسے جوانی میں گھر سے نکال کر اس کے حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسکو گھر سے نکالنے میں سب سے زیادہ ہاتھ میرا تھا اور میں اپنے کئے کی سزا بھگت چکا ہوں بلکہ بھگت رہا ہوں۔وہ اس مقام تک کیسے پہنچا ۔یہ میں نہیں جانتا،ہاں! میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ وہی میرے چچا کا لڑکا ہے جسے ہم نے مار کر گھر سے نکال دیا تھا۔اور پھر کبھی یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی کہ وہ کہاں ہے۔‘ ‘شکر کریں انھوں نے آپ کو پہچانا نہیں!اگر پہچان لیتے تو آپ اتنی اچھی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور اتنے اچھے لوگوں سے بھی ،جنہوں نے ہر موقعے پر ہمارا ساتھ دیا۔‘‘ ‘‘ہاں! پہچان لیتا تو اپنی فیکٹری میں ملازمت ہی کیوں دیتا اسی وقت دھکے دے کر باہر نکال دیتا۔‘‘