میں جوان اور خو بصورت لڑ کی تھی اور میں نے اپنی پسند کی شادی کی تھی ۔

میں نے محبت کی شادی کی تھی , محبت کی شادی میں شادی سے پہلے محبت ختم ہو گئی اور محبت ختم ہونے کے بعد شادی بھی ختم ہو گئی مگر اس دوران میں اپنا بہت کچھ کھو چکی تھی ۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی , میری ی محبت کی شادی کرنے پر میرے باپ نے خودکشی کر لی تھی اور میری ماں دماغی توازن کھو بیٹھی تھی ۔ اپنا اتنا کچھ قربان کر کے جس انسان کو میں نے پایا تھا ۔ آج میں اسکو بھی کھو چکی ہوں ۔ میری شادی دو سال تک رہی تھی ,
اس دوران مجھے اللہ نے ایک خوبصورت بیٹی سے نوازا ، اللہ کی وہ رحمت میرے لئے زحمت ثابت ہوئی اور بیٹی کی پیدائش کا سنتے ہی میرا شوہر مجھ سے ناراض ہو گیا ۔ اور اکثر گھر میں جھگڑا رہنے لگا ۔ مجھے اب میرے رشتوں کی قدر ہونے لگی تھی ۔ مجھے اپنے ماں باپ یاد آنے لگے تھے ، مگر افسوس کہ اب وقت گزر چکا تھا ۔ مجھے شادی کے دو سال بعد طلاق ہو گئی اورطلاق کے بعد میرے شوہر نے پلٹ کر بھی میرا تو کیا میری بیٹی کا بھی حال نہ پوچھا کہ وہ تو اس کی بھی اولاد تھی , تب گھر میں راشن بھی موجود نہ تھا اور اوپر سے گھر بھی کراۓ کا تھا ۔ جلد ہی مجھے جان کے لالے پڑ گئے اور میں کام کی تلاش میں نکل پڑی مگر افسوس کہ مجھے کہیں بھی کوئی کام نہ ملاہ لوگ میرے جسم اور خوبصورتی کے بھوکے نکتے پھر جب رات کو بھوک سے میری بیٹی کے پیٹ میں دردہونے لگا اور اس کو پلانے کے لیے میرے پاس دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ تھا تو مجبورا میں نے اپنا جسم بیچنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس وقت میں بالکل جوان اور خوبصورت تھی کسی ایک شیطان نے مجھے بازار حسن تک پہنچا دیا اور میں ایک عورت کے کوٹھے پر کام کرنے لگی ۔ میرے حالات کا سن کر وہ عورت بھی مجھ پر ترس کھانے گی , وہ صرف میرے ڈانس کے پیے سے حصہ لیتی تھی اور اپنا جسم چ کر میں جو بھیکماتی تھی اس میں سے وہ کچھ بھی نہ لیتی اور یقین کر میں اس بھوکے پاکستان میں جسم خریدنے کے لئے لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ آج لاہور شہر میں میرا اپنا گھر ہے جو کہ اب کے پاس ہے ۔ پہلے میں نے ایک گھر کرائے پر لیا اور ایک ملازمہک و رکھا جو رات کو میری بیٹی کا خیال رکھتی تھی
اور صبح فجر کی اذانوں رک کے ساتھ میں گھر پہنچ جاتی تھی ۔ پھر میں بیٹی کے اٹھنے م ہے کہ آج لا جب میرا کام چل نکلا تو سب سےسے پہلے اس کے لئے ناشتہ بناتی ، اس کو تیار کرتی اور پھر سکول بھیج دیتی تھی ۔ جب میرے حالات کچھ بہتر ہوۓ تو میں نے اپنی ماں کو بھی اپنے پاس بلا لیا ۔ ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں تھا ۔ رات کو میں ان کو ایک کمرے میں بند کر کے کام پر چلی جاتی اور صبح آتے ہی ان کو نکال کر ان کو نہلاتی اور ناشتہ کرواتی تھی اور یقین کریں کہ وہ مجھے پہچانتی نہیں تھی پھر بھی وہ مجھے میرے نام سے ہی بلاتی تھیجب میری بیٹی میٹرک میں تھی تو اس کو مجھ پر شک ہوا اور اس نے مجھ سے میرے کام کے متعلق پوچھا ۔ میں نے اپنے بھائی سے بات کی اور اپنی بیٹی کو بتا دیا کہ میں ایک مل میں کام کرتی ہوں , اور بیٹی کی ضد پر بھائی کی بتائی ہوئی مل کا وزٹ بھی کروا دیا ۔ میری بیٹی پڑھائی میں بہت قابل تھی اس نے میٹرک میں پہلی پوزیشن لی اور سکالر شپ میں داخلہ ملاو ایف ایس سی میں بھی وہ پوزیشن ہولڈر تھی اورسکالر شپ پر یونیورسٹی میں داخلہ ملاہ یونیورسٹی میں بھی وہ ٹاپ پر رہی اور اس طرح ہمارا خرچہ بہت کم ہوا ۔ الحمد للہ آج وہ ایک بہترین اور مشہور ترین دل کی سپیشلسٹ ہے مگرا فسوس کہ اس کے لئے میں نے کتنی قربانیاں دیں ، اس نے ان سب کو بھلا دیا اور آج مجھے ایک طوائف کہہ کے گھر سے نکال دیا ۔
یہ تک بھی نہ سوچا کہ میں طوائف کیسے اور کس کے لیے اور کیوں بنی , میرے لئے جو ہو گیا سو ہو گیا لیکنیقین کریں , اگر میری بیٹی نہ ہوتی تو میں بھی خود کشی کر لیتی میں نے بیٹی کو مارنا چاہا لیکن پتہ نہیں کیوں میں اس کی جان نہ لے سکی , اور آج سوچتی ہوں کہ کاش اس وقت اس کی جان لے لیتی ۔ آج میری ماں مر چکی ہے اور میں اپنی ماں کو دیئے کئے دکھ کی سزا کاٹ رہی ہوں , اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ میری بیٹی کو کبھی کسی ایسی آزمائش میں سے نہ گزارے آمین ۔
Sharing is caring!