ایک زانی بادشاہ خاص قسم کی طاقت والی دوائی کھا کر ہر روز نئی لڑ کی کے ساتھ رات گزارتا تھا ۔

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ملک شام میں ایک بادشاہ رہتا تھا ۔ یوں تو وہ بہت ہی انصاف پسند تھا اور اپنی رعایا کا بہت ہی زیادہ خیال رکھتا تھا ۔ لیکن اس میں ایک برائی تھی کہ وہ جب بھی کوئی جوان اور خوبصورت لڑکی کو دیکھ لیتا تو اسے اٹھوا کر اپنے محل میں لے آتا اور ایک رات اسکے ساتھ گزارنے کے بعد اسے مچوڑ دیتا ۔ ایسا کرنے سے اس کی خواہش تو پوری ہو
حاتی تھی لیکن اس لڑ کی کی زندگی خراب ہو جاتی ۔ بادشاہ کا شکار بنے والی زیادہ تر لڑکیاں زندگی بھر کے لئے یا تو ذہنی مریض بن جاتی تھیں یا پھر اپنی زندگی خود ہی ختم کر لیتی تھیں ۔ اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ بادشاہ طاقت کے لئے ایک خاص قسم کی دوائی استعمال کرتا تھا ۔ اور اس لڑکی کے جسم میں بھی وہ دوا اثر کر جاتی تھی ۔ جس کا نتیجہ کچھ ہی دنوں میں ا
حاتی تھی لیکن اس لڑ کی کی زندگی خراب ہو جاتی ۔ بادشاہ کا شکار بننے والی زیادہ تر لڑکیاں زندگی بھر کے لئے یا تو ذہنی مریض بن جاتی تھیں یا پھر اپنی زندگی خود ہی ختم کر لیتی تھیں ۔ اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ بادشاہ طاقت کے لئے ایک خاص قسم کی دوائی استعمال کرتا تھا ۔ اور اس لڑکی کے جسم میں بھی وہ دوا اثر کر جاتی تھی ۔ جس کا نتیجہ کچھ ہی دنوں میں
بہت ہی تباہ کن نکلتا تھا لیکن بادشاہ پر اس دوائی کا کوئی برا اثر نہیں ہوتا تھا ۔ کیونکہ وہ اس دوائی کا عادی ہو چکا تھا ۔ اگرچہ بادشاہ اپنی اس بری عادت سے بہت زیادہ بیزار بھی تھالیکن وہ مجبور تھا ۔ اور چاہ کر بھی یہ کام نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔ جس دن اس کو لڑ کی نہیں ملتی تھی اس دن اسکی کی طبیعت بہت ہی زیادہ بگڑ جاتی تھی ۔ بادشاہ نے اس کام کے لیے اپنے ایک خاص
وزیر کی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی کہ وہ روزانہ شام کو گھوڑے پر بیٹھ کر شہر کے بازاروں میں نکل جاتا اور چن چن کر خو بصورت لڑ کیاں پسند کرتا تھا ۔ اور ان کے گھر والوں کو منہ مانگی رقم دے کر لڑ کیاں خرید لیتا تھا ۔ پھر تمام لڑکیاں بادشاہ کے سامنے پیش کرتا اور جو بھی لڑ کی بادشاہ کو پسند آ جاتی وہ بادشاہ کے ساتھ رات گزارنے کے لئے منتخب کر لی جاتی اور باقی تمام
لڑ کیاں واپس بھیج دی جاتی تھی ۔ لیکن واپس بھیجنے سے پہلے وزیر ان لڑکیوں کو اپنے کمرے میں لے جاتا تھا اور ایک ایک پائی ان کے جسم سے وصول کرتا تھا ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک طرف تو بادشاہ انتہائی رحم دل اور نیک انسان تھا ۔ اور دوسری طرف وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر رعایا کی لڑکیوں کو بر باد کر رہا تھا ۔ لوگ اتنی دولت دیکھ کر خاموشی سے اپنی بیٹی بادشاہ کو پیش
کر دیتے تھے اور اگر کوئی شخص اپنی بہن یا بیٹی دینے سے انکار کرتا تھا تو وزیر اپنے سپاہی بلا کر زبردستی لڑکی کو اٹھوا کر محل میں لے جاتا تھا ۔ کچھ وقت مزید گزرا تو بادشاہ کا احساس ندامت حد سے بڑھ گیا ۔ اس کا ضمیر اسے ہر وقت ملامت کرتا اور برائی سے روکتا تھا ۔ کئی بار بادشاہ نے خود سے وعدہ بھی کیا کہ وہ آج کے بعد ایسا غلط کام نہیں کرے گا ۔ لیکن اگلے دن
جب وزیر اس کے سامنے انتہائی حسین و جمیل لڑکیاں لے کر آتا تھا تو بادشاہ اپنا وعدہ بھول جاتا اور پھر سے وہی رای تو بادشاہ اپنا وعد گناہ کر نا شروع کر دیتا ۔ در اصل کہانی کچھ ایسے بن گئی تھی کہ وزیر کو خود بھی بادشاہ کی طرح خو بصورت لڑکیوں سے بد کاری کا چسکا لگ گیا تھا ۔ وہ ایک لڑ کی بادشاہ کو پیش کرتا تو باقی دو تین لڑکیوں کو اپنے گھر لے جاتا تھا ۔
اور کچھ دن ان کو پاس رکھ کر اپنا دل بہلاتا اور پھر واپس ان کے گھروں میں پہنچادیتا تھا ۔ جب بھی بادشاہ وزیر کے سامنے برائی چھوڑنے کی بات کرتا تو وزیر اس کو ایسے طریقے سے مطمئن کرتا تھا کہ بادشاہ اس کی باتوں میں آ جاتا ۔ وزیر کی بیوی تو نہیں تھی وہ بہت عرصہ پہلے دنیا سے رخصت سے ہو گئی تھی لیکن اس کی ایک جوان اور بہت ہی خو بصورت بیٹی تھی جو بہت ہی
زیادہ نیک تھی , وہ اتنی زیادہ پر ہیز گار تھی کہ سارادن روزہ رکھتی ۔ اور رات کا بیشتر حصہ عبادت میں گزار دیتی تھی ۔ وہ بادشاہ اور اپنے وزیر باپ کی بری عادات سے اچھی طرح واقف تھی ۔ وہ ہر وقت ان کی ہدایت کے لئے دعا کرتی اور دل ہی دل میں ان بیچاری لڑکیوں کے بارے میں سوچا کرتی تھی جو اس کے وزیر باپ اور بادشاہ کی ہوس کا شکار بن کر اپنی زندگیاں برباد کر بیٹھی
تھیں , وہ تو بہت پریشان اور اداس ہو جاتی تھی لیکن وہ اپنے باپ کو سمجھا بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ خود ایک جوان لڑ کی تھی ۔ اور کس طرح اپنے منہ سے اپنے باپ سے ایسی باتیں کرتی ۔ لہذا وہ صرف ان کی ہدایت کے لئے دعا ہی کر سکتی تھی سو وہ کرتی ہتی تھی ۔ ایک دن بادشاہ کا دل بہت بے چین تھا وہ سارے کام دھندے مچوڑ کر خاموشی سے محل کی حچت پر چڑھ آیا
اور آس پاس کا نظارہ کرنے لگا ۔ اچانک اس کے کانوں میں کسی لڑ کی کے رونے کی آواز آئی تو وہ حیران ہو گیا اور آگے بڑھ کر اس نے آواز کی سمت جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ ساتھ والا گھر جو کہ اس کے وزیر کا تھا ۔ وہاں محن کے چ ایک جوان اور انتہائی خو بصورت لڑ کی جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی اور ساتھ ساتھ بچگیوں میں رو بھی رہی تھی ۔ بادشاہ کا تجس انتہا
کو پہنچ گیا ۔ اور وہ کان لگا کر سننے لگا کہ لڑ کی دعا میں کیا مانگ رہی ہے ۔ پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے سنا کہ وہ خو بصورت لڑ کی رورو کر اس کے اور اپنے باپ کے لیے ہدایت کی دعا مانگ رہی تھی ۔ بادشاہ اس لڑ کی کی دعا سنے میں اتنا مشغول ہو گیا کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ بھی بچیوں میں رونے لگ گیا ۔ اس کا دل پلٹ چکا تھا اور اس نے وہاں کھڑے کھڑے بچے
دل سے توبہ کر لی اور دل میں ارادہ کر لیا کہ وہ آج کے بعد کسی بھی لڑ کی کے ساتھ گناہ نہیں کرے گا چاہے وہ مر ہی کیوں نہ جاۓ ۔ وہ قبولیت کی گھڑی تھی اس کی دعا بھی قبول ہو لئی پھر اس لڑ کی نے جاۓ نماز سمیٹ لی اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئی ۔ بادشاہ یہ تو جانتا تھا کہ یہ گھر اس کے وزیر کا ہے لیکن ہ اس کو یہ نہیں پتا تھا کہ وہ خوبصورت لڑکی کون ہے , جو رورو
کر اس کی ہدایت کے لیے دعا کر رہی تھی ۔ بادشاہ نے خادمہ کو بلایا اور اس لڑ کی کا حلیہ بتا کر اس کے بارے میں پوچھنے لگا ۔ پھر خادمہ نے جواب دیا کہ حضور یہ تو آ پکے وزیر کی اکلوتی بیٹی آپکے ر خادمہ نے جواب دیا ہے ۔ پودا کو کچھ کی ہے جو انتہائی عبادت گزار ہے ۔ بادشاہ کو مزید کچھ جانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ چکا تھا ۔ وہ محل کی حچت سے نیچے اترا تو اس کا دل
یوں ہلکا پھلکا ہو گیا تھا جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔ بادشاہ نے اسی وقت صدقہ دیا اور بہت سے غریبوں میں کھانا تقسیم کیا ۔ جب شام ہوئی تو بادشاہ کا وزیر تین خو بصورت لڑ کیاں لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ حضور ان میں سے ایک اپنے لئے پسند کر لیجئے لیکن بادشاہ سچی توبہ کر چکا تھا ۔ لہذا اس نے وزیر کو سختی سے منع کر دیا کہ آج کے بعد تم
برے لیے کوئی لڑ کی نہیں لاؤ گے ۔ ان تینوں کو عزت کے ساتھ ان کے گھروں میں چوڑ آؤ ۔ یہ سن کر وزیر پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر بادشاہ نے اس کام سے سچی توبہ کر لی ہے تو وہ مفت میں حسین و جمیل لڑکیوں سے لطف کیسے اٹھاۓ گا ۔ چنانچہ وہ بادشاہ کو قائل کرنے لگا کہ یہ کام آپ کا حق ہے اور یہ کام تو آپ ہمیشہ سے کرتے آۓ ہیں لیکن بادشاہ نے اس کی ایک نہ
مانی ۔ جب وزیر اپنی باتوں سے باز نہ آیا تو بادشاہ نے اچانک کہا کہ ٹھیک ہے میں یہ کام کرنے کو تیار ہوں لیکن لڑکی میں پہلے سے پسند کر چکا ہوں , تو وزیر جلدی سے بولا کہ سر کار آپ حکم کر میں لڑ کی ابھی آپ کی خدمت میں حاضر کر دی جائے گی ۔ پھر بادشاہ نے جواب میں کہا کہ آج میں حچت پر گیا تھا تو تمہاری بیٹی مجھے صحن میں نظر آئی , باخدا اس جیسی حسین تو میں نے آج
تک اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں دیکھی آج رات میرے لیے وہی لے آؤ ۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر وزیر لرز گیا ۔ وہ اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت ہی زیادہ پیار کرتا تھا اور کبھی بھی اس کے لئے ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ پھر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جو لڑ کی بادشاہ کے ساتھ ایک رات بھی گزار لے یا تو وہ پاگل ہو جاتی ہے یا مر جاتی ہے ۔ وہ اپنی بیٹی کی ایسی حالت کیسے برداشت کر سکت
تھا ۔ لہذا وہ بادشاہ کے پیروں میں گر گیا اور معافی مانگنے لگا ۔ لیکن باد شاہ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ میرا حق ہے اور یہ کام تو میں ہمیشہ سے کرتا آیا ہوں ۔وزیر پیروں میں گر کر بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔ پھر بادشاہ کہنے لگا کہ مجھ سے ایک وعدہ کرو کہ آج کے بعد کسی بھی لڑ کی کو پریشان نہیں کر و گے اور نہ ہی مجھے ایسا گناہ کرنے پر قائل کر و
گے ۔ وزیر نے فورا وعدہ کر لیا اور بادشاہ سے کہا کہ وہ سچے دل سے توبہ بھی کر چکا ہے ۔ پھر بادشاہ نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا ۔ پیارے ناظرین اس طرح ایک نیک لڑ کی کی دعا نے دونوں کو مزید گناہوں سے بچا لیا اور نیک راستے پر لگا دیا ۔