چلتی گاڑی میں ایک نوجوان لڑکی نے شور مچادیا اس کی شلوار میں ایک سانپ پھس گیا ہے

کاڑی کوئی دس کوس چلی ہو گی کہ خاتون نے شور مچایا کہ اس کی شلوار کے پانچے میں سانپ گھس گیا ہے خاتون منتقل چیخیں مار رہی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ مجھے بچاو مجھے سانپ کاٹ کھانے کا سانپ اگر تھا تو نا کاٹ رہا تھا اور نہ یہ خاتون کی جان چھوڑ رہا تھا عورت ذات تھی ۔مردوں کا اس کے جسم کو ہاتھ لگانا مناسب نہ تھا آخر کار بس رو کی گئی اور خواتین کے حوصلے اور بہت سے سانپ والی خاتون کو سٹرک پر اتارا گیا وہ بدستور پیچ رہی تھی ، مشرک کنارے میں ایک نوجوان آدمی کھڑا تھاہاتھ میں ایک درمیانے سائز کا بس تھاوہ بھی اس تاشے کو دیکھنے والوں میں شریک ہو گیا سانپ والی خاتون کو ۔۔
!خواتین نے نیچے لٹادیا اور ایک چھڑی سے شلوار کے اوپر وار شروع کر دیے سانپ نے اندازہ کر لیا ہو گا کہ باہر اس کے دشمن کھڑے ہیں اس لیے وہ باہر آنے پر تیار نہیں تھا بہر حال جب وار شدت اختیار کر گئے تو سانپ نے شلوار کے پانچے سے سر نکالا اور آہستہ سے باہر آگیا یہ ایک سیاہ رنگ کا کوبراسانپ تھا ۔ جس کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا ۔۔ !اسی طرح کا سانپ اگر ہاتھی کو کاٹ لیں تو وہ چند منٹ میں ہلاک ہو جا تا سانپ کی بہت سے سب لوگ دہشت زدہ و ہو گئے کسی کی ہمت نہ پڑی کہ اس کے نزدیک جانے سب کی قوت فیصلہ جواب دے چکی تھی سانپ کو کیسے مارا جائے اس کے اوپر سے بس گزاری جائے یا انتظار کیا جائے وہ ں کدھر کا رخ کرتا ہے ۔خوفناک آنکھوں والے سانپ لیے پھن اٹھار کھا تھا اور چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ مجھے کسی کو تلاش کر رہا ہوں دیہاتی جوان جس نے بکس پکڑا ہوا تھا سانپ سے کافی دور تھااور بظاہر صور تحال سے محفوظ ہو رہا تھا ، بیس کے ایک مسافر نے یہ دعوی کیا کہ اس کے پاس ایک ایسادم ہے کہ سانپ اندھا ہو جانے کا پھر اس کو آرام سے مار سکیں گے
مسافر جو سانپ سے بیس فٹ کے فاصلے پر تھادم کرنا شروع کیا ابھی چند لمحے گزرے تھے کہ سانپ نے ۔ ایک زور کی پھنکار ماری کے دم کرنے والا مسافر جو خاصا دور تھا دھڑم سے زمین پر آگر اسانپ کی پھنکار سے اس کارنگ زرد پڑ گیا ، وہ دم کر نا بھول گیا اور بھاگ کر بس میں بیٹھ گیا اب سب لوگ دم بخود کے سانپ کیا کر تا ہے ۔جس خاتون سے ابتداء ہوئی تھی اسے سانپ لے قاتل کوئی گزر نہ پہنچائیں وہ پتھر پر بیٹی ڈرامہ کو دیکھ رہی تھی ۔ ! کسی نے مشورہ دیا کہ پیالے میں دودھ ڈال کر سانپ کو ایک طرف لے جایا جائے ، کوئی یہ مشورہ دے رہا تھا کہ اس کے اوپر سے بس گزاری جائے یہ سب باتیں جاری تھی کہ ۔I سانپ اپنی جگہ سے ہلا اور سیدھا بکنے والے دیہاتی نوجوان کی جانب سرکنے لگا چند لمحوں میں وہ نوجوان کے بالکل قریب پہنچ گیا اب سانہ اتنا قریب تھا کہ نوجوان بھاگ بھی نہ سکتا تھا ۔ دیہاتی جو ان کا رنگ زرد تھا اور ہوش اڑے ہوئے اسے یہ خیال تھا کہ سانپ نے اسے اب کاٹا کے اب کاٹا ۔ نوجوان نے ایک چیخ ماری ۔۔اور چند لمحوں میں اس کا جسم نیلا پڑھنے لگا اس لڑپتے ہوئے شکار کو چھوڑ کر سانپ ایک طرف کو چل نکلا ایسا غائب ہوا جیسے بھی وہ وہاں تھا ہی نہیں ۔ آن کی آن میں نوجوان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور دیکھتے دیکھتے ے ہیں اس نے دم توڑ دیا ۔ وہ کون تھا اس کی لاش کو کہاں پہنچایا جائے ۔۔۔اس کے لیے تھوڑی سی جانکاری ضروری تھی پرائے سلمان کو ہاتھ لگاناویے تو مناسب نہ تھا مگر جو ان کے جسم پر کوئی ایسا قابل شناخت نہ تھی اسے پتہ چلے کہ وہ کہاں کارہنے والا ہے ، مجبورا اس کا بکسا کھولا گیا تاکہ پتہ چلے کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے ۔ اور کون ہے ۔ ؟ جب بکسا کھولا گیا تو
لوگوں کی مارے حریت اور خوف کے چیخیں نکل گئی کیونکہ بسکے میں کہنی تک کاٹے ہوئے دو ہاتھ بازو موجود تھے ، بازو میں پھنسی ہوئی سونے کی اٹھ چوڑیاں تھی ، ایسا دکھائی پڑتا تھا کہ اس نوجوان نے ڈاکہ مارا یا ورادات کی مگر بازوں میں سے پوڑیاں نہ اتر سکیں ۔ مجبورا کہنی تک بازو کاٹ کر بکسے میں رکھ لئے تھےکہ اب آرام سے چوڑیاں اتاروں کا اور بازو کو کسی مناسب جگہ پر پھینک دوں گا ۔ نزد یکی تھانے کو اطلاع دی گئی پتہ چلا کہ ابھی واردات ہوئی ہے اور کسی میں ہونے اور دیگر اشیاء کو لوٹتے ہوئے ایک عورت کے بازو کاٹ لیے ہیں ، وہاں موجود مسافر اللہ اکبر اللہ اکبر پکارنے لگے اور کہنے لگے اللہ نے کس طرح ظلم کا بدلہ لے لیا ۔ ! ۔ !